معبد بن ہلال عنزی سے روایت ہے کہ ہم سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ثابت کی سفارش چاہی (ان سے ملنے کے لئے) آخر ہم ان تک پہنچے۔ وہ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ثابت نے ہمارے لئے اجازت مانگی اندر آنے کی، ہم اندر گئے، انہوں نے ثابت کو اپنے ساتھ بٹھایا تخت پر۔ ثابت نے کہا: اے ابوحمزہ (یہ کنیت ہے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی) تمہارے بھائی بصرہ والے چاہتے ہیں تم ان کو شفاعت کی حدیث سناؤ۔ انہوں نے کہا: ہم سے بیان کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”جب قیامت کا دن ہو گا تو لوگ گھبرا کر ایک دوسرے کے پاس جائیں گے: پہلے آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے۔ کہیں گے: تم اپنی اولاد کی سفارش کرو (اللہ کے پاس تاکہ وہ نجات دے اس آفت سے) وہ کہیں گے: میں اس لائق نہیں، لیکن تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے دوست ہیں۔ لوگ ان کے پاس جائیں گے وہ کہیں گے میں اس قابل نہیں، لیکن تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ کلیم اللہ ہیں (یعنی اللہ نے ان سے کلام کیا بلاواسطہ) لوگ ان کے پاس جائیں گے، وہ کہیں گے: میں اس لائق نہیں، لیکن تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ وہ روح اللہ ہیں اور اس کا کلمہ ہیں (یعنی بن باپ کے اللہ کے حکم سے پیدا ہوئے ہیں) لوگ ان کے پاس جائیں گے، وہ کہیں گے: میں اس لائق نہیں لیکن تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، وہ سب لوگ میرے پاس آئیں گے میں کہوں گا، اچھا یہ میرا کام ہے اور چلوں گا اور اللہ تعالیٰ سے اجازت مانگوں گا (باریاب ہونے) مجھے اجازت ملے گی، میں اس کے سامنے کھڑا ہوں گا۔ اور ایسی ایسی تعریفیں اس کی بیان کروں گا جو اب میں نہیں بیان کر سکتا۔ اس وقت اللہ میرے دل میں ڈال دے گا، بعد اس کے سجدے میں گر پڑوں گا۔ آخر حکم ہو گا، اے محمد! اپنا سر اٹھا اور کہہ ہم سنیں گے اور مانگ ہم دیں گے، سفارش کر ہم قبول کریں گے۔ میں عرض کروں گا: مالک میرے! امت میری، امت میری۔ حکم ہوگا، جا اور جس کے دل میں گیہوں یا جو کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو اس کو نکال لے دوزخ سے، میں ایسے سب لوگوں کو نکال لوں گا اور پھر مالک کے پاس آ کر ویسی ہی تعریفیں کروں گا پھر سجدہ میں گر پڑوں گا۔ حکم ہو گا: اے محمد! اپنا سر اٹھا اور کہہ جو کہنا ہے۔ تیری بات سنی جائے گی، مانگ جو مانگتا ہے ملے گا، سفارش کر تیری سفارش قبول ہوگی۔ میں عرض کروں گا: مالک میرے! امت میری، امت میری (یعنی اپنی امت کی بخشش چاہتا ہوں) حکم ہو گا جا اور جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو اس کو جہنم سے نکال لے میں ایسا ہی کروں گا۔ اور پھر لوٹ کر اپنے پروردگار کے پاس آؤں گا اور ایسی ہی تعریفیں کروں گا۔ اور سجدے میں گر پڑوں گا۔ حکم ہو گا، اے محمد! اپنا سر اٹھا اور کہہ ہم سنیں گے، مانگ ہم دیں گے، سفارش کر ہم قبول کریں گے۔ میں عرض کروں گا: اے مالک میرے! میری امت، میری امت۔ حکم ہو گا، جا اور جس کے دل میں رائی کے دانے سے بھی کم، بہت کم، بہت ہی کم ایمان ہو اس کو جہنم سے نکال لے۔ میں جا کر ایسا ہی کروں گا۔“ معبد بن ہلال نے کہا: یہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جو انہوں نے ہم سے بیان کی، پھر ہم ان کے پاس سے نکلے جب جبان (قبرستان) کی بلندی پر پہنچے تو ہم نے کہا: کاش! ہم حسن (بصری) کی طرف چلیں اور ان کو سلام کریں۔ اور وہ ابوخلیفہ کے گھر میں چھپے ہوئے تھے (حجاج بن یوسف ظالم کے ڈر سے) خیر ہم ان کے پاس گئے اور ان کو سلام کیا، ہم نے کہا: اے ابو سعید! ہم تمہارے بھائی ابوحمزہ (سیدنا انس رضی اللہ عنہ) کے پاس سے آ رہے ہیں، انہوں نے شفاعت کے باب میں ایک حدیث ہم سے بیان کی، ویسی حدیث ہم نے نہیں سنی، انہوں نے کہا: ہاں بیان کرو۔ ہم نے وہ حدیث ان سے بیان کی۔ انہوں نے کہا: اور بیان کرو۔ ہم نے کہا: بس اس سے زیادہ انہوں نے بیان نہیں کی۔ انہوں نے کہا: یہ حدیث تو انہوں نے ہم سے بیس برس پہلے بیان کی تھی جب وہ توانا تھے (یعنی بوڑھے نہ تھے جیسے اب ہیں) اب انہوں نے کچھ چھوڑ دیا، میں نہیں جانتا وہ بھول گئے یا تم سے بیان کرنا مناسب نہ جانا ایسا نہ ہو تم بھروسہ کر بیٹھو اور نیک اعمال میں سستی کرنے لگو، ہم نے ان سے کہا وہ کیا ہے؟ ہم سے بیان کرو یہ سن کر ہنسے اور کہا: انسان کی پیدائش میں جلدی ہے، میں نے تم سے یہ قصہ اس لئے ذکر کیا تھا کہ میں تم سے بیان کروں اس ٹکڑے کو (جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے چھوڑ دیا یعنی تم جلدی کر کے درخواست کر بیٹھے بیان کرنے کی اگر درخواست نہ کرتے تب بھی بیان کرتا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں پھر لوٹوں گا اپنے پروردگار کے پاس چوتھی بار اسی طرح تعریف توصیف کروں گا پھر سجدے میں گروں گا مجھ کو حکم ہو گا، اے محمد! سر اٹھاؤ اور کہو ہم سنیں گے، مانگو ہم دیں گے۔ سفارش کرو ہم قبول کریں گے۔ اس وقت میں عرض کروں گا مالک میرے! مجھ کو اجازت دے اس شخص کو بھی جہنم سے نکالنے کی جس نے «لا اله الا الله» کہا ہو (یعنی صرف توحید پر یقین رکھتا ہو) اللہ تعالیٰ فرمائے گا، یہ تمہارا کام نہیں لیکن قسم ہے میری عزت اور بزرگی اور جاہ و جلال کی میں جہنم سے نکالوں گا اس شخص کو جس نے «لا اله الا الله» کہا ہو۔“ معبد نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ حسن نے یہ حدیث ہم سے بیان کی کہا کہ انہوں نے اس کو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سنا ہے میں سمجھتا ہوں یوں کہا: بیس برس سے پہلے جب وہ زوردار تھے (یعنی ان کا حافظہ اچھا تھا بدن میں طاقت تھی)۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ هِلَالٍ الْعَنَزِيُّ . ح وحَدَّثَنَاه سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَاللَّفْظُ لَهُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ هِلَالٍ الْعَنَزِيُّ ، قَالَ : انْطَلَقْنَا إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، وَتَشَفَّعْنَا بِثَابِتٍ ، فَانْتَهَيْنَا إِلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي الضُّحَى ، فَاسْتَأْذَنَ لَنَا ثَابِتٌ ، فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ وَأَجْلَسَ ثَابِتًا مَعَهُ عَلَى سَرِيرِهِ ، فَقَالَ لَهُ : يَا أَبَا حَمْزَةَ ، إِنَّ إِخْوَانَكَ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ يَسْأَلُونَكَ ، أَنْ تُحَدِّثَهُمْ حَدِيثَ الشَّفَاعَةِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ مَاجَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ ، فَيَأْتُونَ آدَمَ ، فَيَقُولُونَ لَهُ : اشْفَعْ لِذُرِّيَّتِكَ ، فَيَقُولُ : لَسْتُ لَهَا ، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِإِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام ، فَإِنَّهُ خَلِيلُ اللَّهِ ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ ، فَيَقُولُ : لَسْتُ لَهَا ، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام ، فَإِنَّهُ كَلِيمُ اللَّهِ ، فَيُؤْتَى مُوسَى ، فَيَقُولُ : لَسْتُ لَهَا ، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِعِيسَى عَلَيْهِ السَّلَام ، فَإِنَّهُ رُوحُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ ، فَيُؤتَى عِيسَى ، فَيَقُولُ : لَسْتُ لَهَا ، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأُوتَى ، فَأَقُولُ : أَنَا لَهَا ، فَأَنْطَلِقُ فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي ، فَيُؤْذَنُ لِي ، فَأَقُومُ بَيْنَ يَدَيْهِ ، فَأَحْمَدُهُ بِمَحَامِدَ لَا أَقْدِرُ عَلَيْهِ الآنَ يُلْهِمُنِيهِ اللَّهُ ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا ، فَيُقَالُ لِي : يَا مُحَمَّدُ ، ارْفَعْ رَأْسَ ، وَقُلْ : يُسْمَعْ لَكَ ، وَسَلْ تُعْطَهْ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَقُولُ : رَبِّ أُمَّتِي ، أُمَّتِي ، فَيُقَالُ : انْطَلِقْ ، فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ بُرَّةٍ أَوْ شَعِيرَةٍ مِنَ إِيمَانٍ ، فَأَخْرِجْهُ مِنْهَا ، فَأَنْطَلِقُ ، فَأَفْعَلُ ، ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَى رَبِّي ، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا ، فَيُقَالُ لِي : يَا مُحَمَّدُ ، ارْفَعْ رَأْسَكَ ، وَقُلْ : يُسْمَعْ لَكَ ، وَسَلْ تُعْطَهْ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَقُولُ : أُمَّتِي ، أُمَّتِي ، فَيُقَالُ لِي : انْطَلِقْ ، فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنَ إِيمَانٍ ، فَأَخْرِجْهُ مِنْهَا ، فَأَنْطَلِقُ ، فَأَفْعَلُ ، ثُمَّ أَعُودُ إِلَى رَبِّي ، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا ، فَيُقَالُ لِي : يَا مُحَمَّدُ ، ارْفَعْ رَأْسَكَ ، وَقُلْ : يُسْمَعْ لَكَ ، وَسَلْ تُعْطَهْ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَقُولُ : يَا رَبِّ ، أُمَّتِي ، أُمَّتِي ، فَيُقَالُ لِي : انْطَلِقْ ، فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ ، أَدْنَى ، أَدْنَى ، أَدْنَى مِنْ مِثْقَالِ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنَ إِيمَانٍ ، فَأَخْرِجْهُ مِنَ النَّارِ ، فَأَنْطَلِقُ ، فَأَفْعَلُ " ، هَذَا حَدِيثُ أَنَسٍ الَّذِي أَنْبَأَنَا بِهِ ، فَخَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِ ، فَلَمَّا كُنَّا بِظَهْرِ الْجَبَّانِ ، قُلْنَا : لَوْ مِلْنَا إِلَى الْحَسَنِ ، فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ وَهُوَ مُسْتَخْفٍ فِي دَارِ أَبِي خَلِيفَةَ ، قَالَ : فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ ، فَقُلْنَا : يَا أَبَا سَعِيدٍ ، جِئْنَا مِنْ عِنْدِ أَخِيكَ أَبِي حَمْزَةَ ، فَلَمْ نَسْمَعْ مِثْلَ حَدِيثٍ حَدَّثَنَاهُ فِي الشَّفَاعَةِ ، قَالَ : هِيَهِ فَحَدَّثْنَاهُ الْحَدِيثَ ، فَقَالَ : هِيَهِ ، قُلْنَا : مَا زَادَنَا ؟ قَالَ : قَدْ حَدَّثَنَا بِهِ مُنْذُ عِشْرِينَ سَنَةً ، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ جَمِيعٌ ، وَلَقَدْ تَرَكَ شَيْئًا مَا أَدْرِي أَنَسِيَ الشَّيْخُ أَوْ كَرِهَ ، أَنْ يُحَدِّثَكُمْ فَتَتَّكِلُوا ، قُلْنَا لَهُ حَدِّثْنَا فَضَحِكَ ، وَقَالَ : خُلِقَ الإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ سورة الأنبياء آية 37 مَا ذَكَرْتُ لَكُمْ هَذَا ، إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ ، ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَى رَبِّي فِي الرَّابِعَةِ ، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا ، فَيُقَالُ لِي : يَا مُحَمَّدُ ، ارْفَعْ رَأْسَكَ ، وَقُلْ : يُسْمَعْ لَكَ ، وَسَلْ تُعْطَ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَقُولُ : يَا رَبِّ ، ائْذَنْ لِي فِيمَنْ ، قَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، قَالَ : لَيْسَ ذَاكَ لَكَ ، أَوَ قَالَ : لَيْسَ ذَاكَ إِلَيْكَ ، وَلَكِنْ ، وَعِزَّتِي ، وَكِبْرِيَائِي ، وَعَظَمَتِي ، وَجِبْرِيَائِي ، لَأُخْرِجَنَّ مَنْ قَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ " ، قَالَ : فَأَشْهَدُ عَلَى الْحَسَنِ ، أَنَّهُ حَدَّثَنَا بِهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ أُرَاهُ ، قَالَ : قَبْلَ عِشْرِينَ سَنَةً ، وَهُوَ يَوْمِئِذٍ جَمِيعٌ .