سیدنا احنف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں مدینہ میں آیا اور ایک حلقہ میں بیٹھا تھا کہ اس میں قریش کے سردار تھے کہ ایک شخص آیا موٹے کپڑے پہنے ہوئے سخت جسم والا اور سخت چہرے والا اور ان کے پاس کھڑا ہوا اور کہا کہ خوشخبری دے مال جمع کرنے والوں کو گرم پتھر کی جو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس کی چھاتی کی نوک پر رکھا جائے گا یہاں تک کہ شانے کی ہڈی سے پھوٹ نکلے گا اور شانے کی ہڈی پر رکھا جائے گا تو چھاتیوں کی نوک سے پھوٹ نکلے گا، وہ پتھر ایسا ہی ہلتا ہوا آرپار ہوتا رہے گا۔ کہا راوی نے پھر جھکا لیے لوگوں نے سر اور میں نے ان میں سے کسی کو نہ دیکھا کہ ان کو کچھ جواب دیتا اور پھر وہ پھرے اور میں ان کے پیچھے ہوا (کیوں نہ ہوں یہ طالب حدیث ہیں) یہاں کہ ایک کھمبے کے پاس پہنچ گئے اور میں نے کہا کہ میں تو یہی خیال کرتا ہوں۔۔۔ کہ آپ نے جو کچھ کہا ان کو بہت برا لگا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ کچھ عقل نہیں رکھتے (یعنی دین کی) اور میرے دوست ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو بلایا اور میں گیا اور فرمایا: ”کہ تم ... احد کو دیکھتے ہو؟۔“ میں نے اپنے اوپر کی دھوپ کو دیکھا اور یہ سمجھا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے کسی کام کیلئے وہاں بھیجنا چاہتے ہیں اور میں نے عرض کیا کہ ہاں دیکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں یہ نہیں چاہتا کہ اس پہاڑ کے برابر سونا ہو اور اگر ہو بھی تو میں خرچ کر دوں مگر تین دینار (یعنی تین جن کا اوپر ذکر ہوا کہ قرض کے لئے رکھوں) پر یہ لوگ دنیا جمع کرتے ہیں اور کچھ نہیں سمجھتے۔“ پھر میں نے ان نے کہا کہ تمہارا اپنے بھائیوں قریش کے ساتھ کیا حال ہے؟ کہ تم ان کے پاس کسی ضرورت کے لیے نہیں جاتے اور نہ ان سے کچھ لیتے ہو انہوں نے کہا: مجھے قسم ہے تمہارے رب کی کہ نہ میں ان سے دنیا مانگوں گا، نہ دین میں کچھ پوچھوں گا (اس لئے کہ میں ان سے زیادہ جانتا ہوں) یہاں تک کہ ملوں گا میں اللہ سے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ ، عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ : قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَبَيْنَا أَنَا فِي حَلْقَةٍ فِيهَا مَلَأٌ مِنْ قُرَيْشٍ ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ أَخْشَنُ الثِّيَابِ ، أَخْشَنُ الْجَسَدِ ، أَخْشَنُ الْوَجْهِ فَقَامَ عَلَيْهِمْ ، فَقَالَ : بَشِّرِ الْكَانِزِينَ بِرَضْفٍ يُحْمَى عَلَيْهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ ، فَيُوضَعُ عَلَى حَلَمَةِ ثَدْيِ أَحَدِهِمْ ، حَتَّى يَخْرُجَ مِنْ نُغْضِ كَتِفَيْهِ ، وَيُوضَعُ عَلَى نُغْضِ كَتِفَيْهِ ، حَتَّى يَخْرُجَ مِنْ حَلَمَةِ ثَدْيَيْهِ يَتَزَلْزَلُ ، قَالَ : فَوَضَعَ الْقَوْمُ رُءُوسَهُمْ ، فَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْهُمْ رَجَعَ إِلَيْهِ شَيْئًا ، قَالَ : فَأَدْبَرَ ، وَاتَّبَعْتُهُ حَتَّى جَلَسَ إِلَى سَارِيَةٍ ، فَقُلْتُ : مَا رَأَيْتُ هَؤُلَاءِ إِلَّا كَرِهُوا قُلْتَ لَهُمْ ، قَالَ : إِنَّ هَؤُلَاءِ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا ، إِنَّ خَلِيلِي أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَانِي فَأَجَبْتُهُ ، فَقَالَ " أَتَرَى أُحُدًا " ، فَنَظَرْتُ مَا عَلَيَّ مِنَ الشَّمْسِ ، وَأَنَا أَظُنُّ أَنَّهُ يَبْعَثُنِي فِي حَاجَةٍ لَهُ ، فَقُلْتُ : أَرَاهُ ، فَقَالَ : " مَا يَسُرُّنِي أَنَّ لِي مِثْلَهُ ذَهَبًا أُنْفِقُهُ كُلَّهُ ، إِلَّا ثَلَاثَةَ دَنَانِيرَ ، ثُمَّ هَؤُلَاءِ يَجْمَعُونَ الدُّنْيَا لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا " ، قَالَ : قُلْتُ : مَا لَكَ وَلِإِخْوَتِكَ مِنْ قُرَيْشٍ ، لَا تَعْتَرِيهِمْ وَتُصِيبُ مِنْهُمْ ، قَالَ : لَا وَرَبِّكَ لَا أَسْأَلُهُمْ عَنْ دُنْيَا ، وَلَا أَسْتَفْتِيهِمْ عَنْ دِينٍ حَتَّى أَلْحَقَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ .