سیدنا ابوقلابہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا انہوں نے اپنا دسترخوان منگوایا، اس پر مرغ کا گوشت تھا ایک شخص آیا بنی تیم اللہ میں سے سرخ رنگ کا جیسے غلام ہوتے ہیں۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: آؤ (یعنی کھانے میں شریک ہو) اس نے تامل کیا پھر سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: آؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے یہ گوشت کھاتے ہوئے۔ وہ مرد بولا: میں نے مرغ کو کچھ کھاتے دیکھا (یعنی نجاست وغیرہ) تو مجھے گھن آئی میں نے قسم کھا لی اب اس کا گوشت نہ کھاؤں گا۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: آ اور شریک ہو میں تجھ سے قسم کے معلق حدیث بھی بیان کرتا ہوں۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا (اپنے چند اشعری یاروں کے ساتھ سواری کو)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس سواری نہیں اور میں اللہ کی قسم تم کو سواری نہیں دوں گا۔“ پھر جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا ہم ٹھہرے رہے بعد اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اونٹوں کی لوٹ آئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو بلا بھیجا اور پانچ اونٹ دلوائے سفید کوہان کے۔ جب ہم چلے تو ایک نے دوسرے سے کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلا دی وہ قسم جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھائی تھی (کہ ہم کو سواری نہ دیں گے اور یاد نہ دلایا ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو) برکت نہ ہو گی ہم کو، پھر ہم لوٹے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم آئے تھے آپ کے پاس سواری مانگنے کو تو آپ نے قسم کھا لی تھی کہ ہم کو سواری نہ دیں گے پھر آپ نے سواری دی ہم کو اور آپ بھول گئے یا رسول اللہ! اپنی قسم کو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تو قسم اللہ کی اگر اللہ تعالیٰ چاہے کوئی قسم نہ کھاؤں گا پھر اس سے بہتر دوسری بات دیکھوں گا جو بہتر بات ہے وہ کروں گا اور قسم کھول ڈالوں گا سو تم جاؤ تم کو اللہ نے سواری دی ہے۔“ (اسی طرح تو بھی اپنی قسم کو توڑ اور مرغ کا گوشت جو حلال ہے اس کو کھا)۔
حَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّاد يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، وَعَنْ الْقَاسِمِ بن عاصم ، عَنْ زَهْدَمٍ الْجَرْمِيِّ ، قَالَ : أَيُّوبُ وَأَنَا لِحَدِيثِ الْقَاسِمِ أَحْفَظُ مِنِّي لِحَدِيثِ أَبِي قِلَابَةَ ، قَالَ : " كُنَّا عِنْدَ أَبِي مُوسَى ، فَدَعَا بِمَائِدَتِهِ وَعَلَيْهَا لَحْمُ دَجَاجٍ ، فَدَخَلَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ أَحْمَرُ شَبِيهٌ بِالْمَوَالِي ، فَقَالَ لَهُ : هَلُمَّ فَتَلَكَّأَ ، فَقَالَ : هَلُمَّ فَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ مِنْهُ ، فَقَالَ : الرَّجُلُ إِنِّي رَأَيْتُهُ يَأْكُلُ شَيْئًا ، فَقَذِرْتُهُ فَحَلَفْتُ أَنْ لَا أَطْعَمَهُ ، فَقَالَ : هَلُمَّ أُحَدِّثْكَ عَنْ ذَلِكَ إِنِّي أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ مِنْ الْأَشْعَرِيِّينَ نَسْتَحْمِلُهُ ، فَقَالَ : وَاللَّهِ لَا أَحْمِلُكُمْ وَمَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ ، فَلَبِثْنَا مَا شَاءَ اللَّهُ ، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَهْبِ إِبِلٍ ، فَدَعَا بِنَا فَأَمَرَ لَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ غُرِّ الذُّرَى ، قَالَ : فَلَمَّا انْطَلَقْنَا ، قَالَ : بَعْضُنَا لِبَعْضٍ أَغْفَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمِينَهُ لَا يُبَارَكُ لَنَا ، فَرَجَعْنَا إِلَيْهِ فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّا أَتَيْنَاكَ نَسْتَحْمِلُكَ وَإِنَّكَ حَلَفْتَ أَنْ لَا تَحْمِلَنَا ، ثُمَّ حَمَلْتَنَا أَفَنَسِيتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : إِنِّي وَاللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ ، فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا ، إِلَّا أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ وَتَحَلَّلْتُهَا ، فَانْطَلِقُوا فَإِنَّمَا حَمَلَكُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ " ،