سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، ابوسفیان نے ان سے منہ در منہ بیان کیا کہ میں اس مدت میں جو میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیچ میں ٹھہری تھی (یعنی صلح حدیبیہ کی مدت جو ۶ ہجری میں ہوئی) روانہ ہوا۔ میں شام کے ملک میں تھا، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب پہنچی ہرقل کو یعنی روم کے بادشاہ کو۔ اور سیدنا وحیہ کلبی رضی اللہ عنہ وہ کتاب لے کر آئے تھے۔ انہوں نے بصریٰ کے رئیس کو دی اور بصریٰ کے رئیس نے ہرقل کو دی۔ ہرقل نے کہا: یہاں کوئی ہے اس شخص کی قوم کا جو پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے۔ لوگوں نے کہا: ہاں! ابوسفیان نے کہا: میں بلایا گیا اور بھی چند آدمی تھے قریش کے۔ ہم ہرقل کے پاس پہنچے، اس نے ہم کو اپنے سامنے بٹھلایا اور پوچھا تم میں سے کون رشتہ میں زیادہ نزدیک ہے اس شخص سے جو اپنے تئیں پیغمبر کہتا ہے۔ ابوسفیان نے کہا: میں۔ (یہ ہرقل نے اس واسطے دریافت کیا کہ جو نسب میں زیادہ نزدیک ہو گا وہ بہ نسبت دوسروں کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال زیادہ جانتا ہو گا) پھر مجھے ہرقل کے سامنے بٹھلایا اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھلایا۔ بعد اس کے اپنے ترجمان کو بلایا (جو زبان دوسرے ملک کے لوگوں کو بادشاہ کو سمجھاتا ہے) اور اس سے کہا، ان لوگوں سے کہہ کہ میں اس شخص سے (یعنی ابوسفیان سے) اس شخص کا حال پوچھوں گا جو اپنے تئیں پیغمبر کہتا ہے پھر اگر وہ جھوٹ بولے تو تم اس کا جھوٹ بیان کر دینا۔ ابوسفیان نے کہا: قسم اللہ تعالیٰ کی اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ یہ لوگ میرا جھوٹ بیان کریں گے (اور میری ذلت ہو گی) تو میں جھوٹ بولتا (کیونکہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت تھی) پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا: اس سے پوچھ کہ اس شخص کا (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا) حسب کیا ہے۔ (یعنی خاندان) ابوسفیان نے کہا: میں نے کہا: ان کا حسب تو ہم میں بہت عمدہ ہے۔ ہرقل نے کہا: ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ ہوا ہے۔ میں نے کہا: نہیں۔ ہرقل نے کہا: کبھی تم نے ان کو جھوٹ بولتے سنا اس دعویٰ سے پہلے (یعنی نبوت کے دعوے سے) میں نے کہا: نہیں۔ ہرقل نے کہا: اچھا ان کی پیروی بڑے بڑے رئیس لوگ کرتے ہیں یا غریب لوگ۔ میں نے کہا: غریب لوگ۔ ہرقل نے کہا: ان کے تابعدار بڑھتے جاتے ہیں یا کم ہوئے جاتے ہیں۔ میں نے کہا: بڑھتے جاتے ہیں، ہرقل نے کہا: ان کے تابعداروں میں سے کوئی ان کے دین میں آنے کے بعد پھر اس دین کو برا جان کر پھر جاتا ہے یا نہیں۔ میں نے کہا: نہیں۔ ہرقل نے کہا: تم نے ان سے لڑائی بھی کی ہے۔ میں نے کہا: ہاں۔ ہرقل نے کہا: ان کی تم سے کیونکر لڑائی ہوئی ہے (یعنی کون غالب رہتا ہے) میں نے کہا: ہماری ان کی لڑائی ڈولوں کی طرح کبھی ادھر کبھی ادھر ہوتی ہے جیسے کنویں میں ڈول پانی کھنچنے میں ایک ادھر آیا ہے اور ایک ادھر اور اسی طرح لڑائی میں کبھی ہماری فتح ہوتی ہے کبھی ان کی فتح ہوتی ہے۔ وہ ہمارا نقصان کرتے ہیں۔ ہم ان کا نقصان کرتے ہیں۔ ہرقل نے کہا: وہ اقرار کو توڑتے ہیں۔ میں نے کہا: نہیں پھر اب ایک مدت کے لیے ہمارے اور ان کے درمیان اقرار ہوا ہے دیکھیے وہ اس میں کیا کرتے ہیں (یعنی آئندہ شاید عہد شکنی کریں) ابوسفیان نے کہا: قسم اللہ کی مجھے اور کسی باب میں اپنی طرف سے کوئی فقرہ لگانے کا موقعہ نہیں ملا۔ سوائے اس بات کے (تو اس میں میں نے عداوت کی راہ سے اتنا بڑھا دیا کہ یہ جو صلح کی مدت اب ٹھہری ہے شاید اس میں وہ دغا کریں) ہرقل نے کہا: ان سے پہلے بھی (ان کی قوم یا ملک میں) کسی نے پیغمبری کا دعوٰی کیا تھا۔ میں نے کہا: نہیں۔ تب ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا: تم اس شخص سے یعنی ابوسفیان سے کہو میں نے تجھ سے ان کا حسب نسب پوچھا ہے تو تُو نے کہا کہ ان کا حسب بہت عمدہ ہے اور پیغمبروں کا یہی قاعدہ ہے، وہ ہمیشہ اپنی قوم کے عمدہ خاندانوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ پھر میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہے تو نے کہا: نہیں، یہ اس لیے میں نے پوچھا کہ اگر ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ ہوتا تو یہ گمان ہو سکتا تھا کہ وہ اپنے بزرگوں کی سلطنت چاہتے ہیں اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان کی پیروی کرنے والے بڑے لوگ ہیں یا غریب لوگ تو تو نے کہا: غریب لوگ اور ہمیشہ (پہلے پہل) پیغمبروں کی پیروی غریب لوگ ہی کرتے ہیں۔ (کیونکہ بڑے آدمیوں کو کسی کی اطاعت کرتے ہوئے شرم آتی ہے اور غریبوں کو نہیں آتی) اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ نبوت کے دعویٰ سے پہلے تم نے کبھی ان کا جھوٹ دیکھا ہے، تو نے کہا: نہیں، اس سے میں نے یہ نکالا کہ جب وہ لوگوں پر طوفان نہیں باندھتے تو اللہ جل جلالہ پر کیوں طوفان جوڑنے لگے (جھوٹا دعویٰ کر کے) اور میں نے تجھ سے پوچھا، کوئی ان کے دین میں آنے کے بعد پھر اس کو برا سمجھ کر پھر جاتا ہے، تو نے کہا: نہیں اور ایمان کا یہی حال ہے جب دل میں آتا ہے تو خوشی سماتی ہے اور میں نے تجھ سے پوچھا، ان کے پیرو بڑھتے جاتے ہیں یا کم ہوتے جاتے ہیں، تو نے کہا: وہ بڑھتے جاتے ہیں یہی ایمان کا حال ہے اس وقت تک کہ پورا ہو (پھر کمال کے بعد اگر گھٹے تو قباحت نہیں) اور میں نے تجھ سے پوچھا، تم ان سے لڑتے ہو تو تو نے کہا: ہم لڑتے ہیں اور ہماری ان کی لڑائی برابر ہے ڈول کی طرح کبھی ادھر کبھی ادھر، تم ان کا نقصان کرتے ہو وہ تمہارا نقصان کرتے ہیں۔ اور اسی طرح آزمائش ہوتی ہے پیغمبروں کی (تاکہ ان کا صبر اور تکلیف کا اجر ملے اور ان کے پیروکاروں کے درجے بڑھیں) پھر آخر میں وہی غالب آتے ہیں، اور میں نے تجھ سے پوچھا، وہ دغا کرتے ہیں تو تو نے کہا: وہ دغا نہیں کرتے اور یہی حال ہے پیغمبروں کا وہ دغا نہیں کرتے (یعنی عہد شکنی) اور میں نے تجھ سے پوچھا: ان سے پہلے بھی کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ تو نے کہا: نہیں۔ یہ میں نے اس لیے پوچھا کہ اگر ان سے پہلے کسی نے یہ دعویٰ کیا ہوتا تو گمان ہوتا کہ اس شخص نے بھی اس کی پیروی کی ہے۔ پھر ہرقل نے کہا: وہ تم کو کن باتوں کا حکم کرتے ہیں۔ میں نے کہا: وہ حکم کرتے ہیں ... نماز پڑھنے کا، زکواۃ دینے کا، ناتواں والوں سے سلوک کا اور بری باتوں سے بچنے کا۔ ہرقل نے کہا: اگر ان کا بھی یہی حال ہے جو تم نے بیان کیا تو بیشک وہ پیغمبر ہیں اور میں جانتا تھا (اگلی کتابوں میں پڑھ کر) کہ یہ پیغمبر پیدا ہوں گے لیکن مجھے یہ خیال نہ تھا کہ وہ تم لوگوں میں پیدا ہوں گے۔ اور اگر میں یہ سمجھتا کہ میں ان تک پہنچ جاؤں گا تو میں میں ان سے ملنا پسند کرتا (بخاری کی روایت میں ہے کہ میں کسی طرح بھی ملتا محنت مشقت اٹھا کر) اور جو میں ان کے پاس ہوتا تو ان کے پاؤں دھوتا اور البتہ ان کی حکومت یہاں تک آ جائے گئی جہاں اب میرے دونوں پاؤں ہیں، پھر ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور اس کو پڑھا، اس میں یہ لکھا تھا۔ ”شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان اور رحم والا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول کی طرف سے ہرقل کو معلوم ہو جو کہ رئیس ہے روم کا۔ سلام اس شخص پر جو پیروی کرے ہدایت کی۔ بعد اس کے میں تجھے ہدایت دیتا ہوں اسلام کی دعوت کہ مسلمان ہو جا تو سلامت رہے گا (یعنی تیری حکومت، جان اور عزت سب سلامت اور محفوظ رہے گی) مسلمان ہو جا اللہ تجھے دوہرا ثواب دے گا۔ اگر تو نہ مانے تو تجھ پر وبال ہو گا ریسین کا۔ ”اے کتاب والو! ایک بات کہ جو سیدھی اور صاف ہے ہمارے اور تمہارے درمیان کہ بندگی نہ کریں سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور کی اور شریک بھی نہ ٹھہرائیں اس کے ساتھ کسی کو۔۔۔۔۔“ اخیر آیت تک۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ : حَدَّثَنَا ، وقَالَ الْآخَرَانِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ أَخْبَرَهُ مِنْ فِيهِ إِلَى فِيهِ ، قَالَ : انْطَلَقْتُ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَبَيْنَا أَنَا بِالشَّأْمِ إِذْ جِيءَ بِكِتَابٍ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هِرَقْلَ يَعْنِي عَظِيمَ الرُّومِ ، قَالَ : وَكَانَ دَحْيَةُ الْكَلْبِيُّ جَاءَ بِهِ فَدَفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى ، فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَى إِلَى هِرَقْلَ ، فَقَالَ هِرَقْلُ : هَلْ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ قَوْمِ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ ؟ ، قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : فَدُعِيتُ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ ، فَدَخَلْنَا عَلَى هِرَقْلَ فَأَجْلَسَنَا بَيْنَ يَدَيْهِ ، فَقَالَ : أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا مِنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ ؟ ، فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ : فَقُلْتُ : أَنَا فَأَجْلَسُونِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَجْلَسُوا أَصْحَابِي خَلْفِي ثُمَّ دَعَا بِتَرْجُمَانِهِ ، فَقَالَ لَهُ : قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنِ الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَإِنْ كَذَبَنِي فَكَذِّبُوهُ ، قَال : فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ : وَايْمُ اللَّهِ لَوْلَا مَخَافَةُ أَنْ يُؤْثَرَ عَلَيَّ الْكَذِبُ لَكَذَبْتُ ثُمَّ ، قَالَ : لِتَرْجُمَانِهِ سَلْهُ كَيْفَ حَسَبُهُ فِيكُمْ ؟ ، قَالَ : قُلْتُ : هُوَ فِينَا ذُو حَسَبٍ ، قَالَ : فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ ؟ ، قُلْتُ : لَا ، قَالَ : فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ ؟ ، قُلْتُ : لَا ، قَالَ : وَمَنْ يَتَّبِعُهُ أَشْرَافُ النَّاسِ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ ، قَالَ : قُلْتُ : بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ ، قَالَ : أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ ؟ ، قَالَ : قُلْتُ : لَا بَلْ يَزِيدُونَ ، قَالَ : هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ ؟ ، قَالَ : قُلْتُ : لَا ، قَالَ : فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ ؟ ، قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ ؟ ، قَالَ : قُلْتُ : تَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالًا يُصِيبُ مِنَّا وَنُصِيبُ مِنْهُ ، قَالَ : فَهَلْ يَغْدِرُ ؟ ، قُلْتُ : لَا وَنَحْنُ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ لَا نَدْرِي مَا هُوَ صَانِعٌ فِيهَا ؟ ، قَالَ : فَوَاللَّهِ مَا أَمْكَنَنِي مِنْ كَلِمَةٍ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرَ هَذِهِ ، قَالَ : فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ ؟ ، قَالَ : قُلْتُ : لَا ، قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ : قُلْ لَهُ إِنِّي سَأَلْتُكَ عَنْ حَسَبِهِ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو حَسَبٍ ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي أَحْسَابِ قَوْمِهَا ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ فِي آبَائِهِ مَلِكٌ ، فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ آبَائِهِ ، وَسَأَلْتُكَ عَنْ أَتْبَاعِهِ أَضُعَفَاؤُهُمْ أَمْ أَشْرَافُهُمْ ، فَقُلْتَ : بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ ، فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ ثُمَّ يَذْهَبَ فَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَهُ سَخْطَةً لَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ إِذَا خَالَطَ بَشَاشَةَ الْقُلُوبِ ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ فَزَعَمْتَ أَنَّكُمْ قَدْ قَاتَلْتُمُوهُ فَتَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ سِجَالًا يَنَالُ مِنْكُمْ وَتَنَالُونَ مِنْهُ وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى ثُمَّ تَكُونُ لَهُمُ الْعَاقِبَةُ ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ لَا يَغْدِرُ وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لَا تَغْدِرُ ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ لَوَ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ قُلْتُ رَجُلٌ ائْتَمَّ بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ ، قَالَ : ثُمَّ قَالَ : بِمَ يَأْمُرُكُمْ ؟ قُلْتُ : يَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَالصِّلَةِ وَالْعَفَافِ ، قَالَ : إِنْ يَكُنْ مَا تَقُولُ فِيهِ حَقًّا فَإِنَّهُ نَبِيٌّ وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ وَلَمْ أَكُنْ أَظُنُّهُ مِنْكُمْ ، وَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَأَحْبَبْتُ لِقَاءَهُ ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ وَلَيَبْلُغَنَّ مُلْكُهُ مَا تَحْتَ قَدَمَيَّ ، قَالَ : ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَرَأَهُ ، فَإِذَا فِيهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ " مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى ، أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ ، وَأَسْلِمْ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ ، وَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ وَيَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لَا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ ارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ عِنْدَهُ وَكَثُرَ اللَّغْطُ ، وَأَمَرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا ، قَالَ : فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ خَرَجْنَا : لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ إِنَّهُ لَيَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ ، قَالَ : فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا بِأَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ "