یزید بن ہرمز سے روایت ہے، نجدہ (حروری خارجیوں کے سردار) نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا اور پانچ باتیں پوچھیں۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اگر علم کے چھپانے کی سزا نہ ہوتی تو میں اس کو جواب نہ لکھتا (کیونکہ وہ مردود خارجی بدعتیوں کا سردار تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مذمت میں فرمایا کہ وہ دین میں سے ایسا نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار ہو جاتا ہے) نجدہ نے یہ لکھا تھا بعد حمد و صلوٰۃ کے۔ تم بتلاؤ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد میں عورتوں کو ساتھ رکھتے تھے اور کیا ان کو کوئی حصہ دیتے تھے (غنیمت کے مال میں سے) اور کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو بھی مارتے تھےاور یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے اور خمس کس کا ہے؟سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب لکھا تو لکھ کر مجھ سے پوچھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد میں عورتوں کو ساتھ رکھتے تھے تو بے شک ساتھ رکھتے تھے، وہ دوا کرتی تھیں زخموں کی، اور ان کو کچھ انعام ملتا اور حصہ تو ان کا نہیں لگایا گیا (ابوحنیفہ، ثوری، لیث، شافعی اور جمہور علماء کا یہی قول ہے لیکن اوزاعی کے نزدیک عورت کا حصہ لگایا جائے گا اگر وہ لڑے یا زخمیوں کا علاج کرے۔ اور مالک کے نزدیک اس کو انعام بھی نہ ملے گا، اور یہ دونوں مذہب مردود ہیں اس حدیث صحیح سے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو (کافروں کے) نہیں مارتے تھے تو بھی بچوں کو مت مارنا (اس طرح عورتوں کو لیکن اگر بچے اور عورتیں لڑیں تو ان کا مارنا جائز ہے) اور تو نے لکھا، مجھ سے پوچھتا ہے کہ یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے تو قسم میری عمر دینے والے کی بعض آدمی ایسا ہوتا ہے کہ اس کی داڑھی نکل آتی ہے بر وہ نہ لینے کا شعور رکھتا ہے نہ دینے کا (وہ یتیم ہے یعنی اس کا حکم یتیموں کا سا ہے) پھر جب اپنے فائدے کے لیے وہ اچھی باتیں کرنے لگے جیسے کہ لوگ کرتے ہیں تو اس کی یتیمی جاتی رہی۔ اور تو نے لکھا مجھ سے پوچھتا ہے خمس کو کس کا ہے؟ تو ہم یہ کہتے تھے کہ خمس ہمارے لیے ہے، پر ہماری قوم نے نہ مانا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ، " أَنَّ نَجْدَةَ كَتَبَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ خَمْسِ خِلَالٍ ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ " لَوْلَا أَنْ أَكْتُمَ عِلْمًا مَا كَتَبْتُ إِلَيْهِ كَتَبَ إِلَيْهِ ، نَجْدَةُ أَمَّا بَعْدُ ، فَأَخْبِرْنِي هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْزُو بِالنِّسَاءِ ؟ ، وَهَلْ كَانَ يَضْرِبُ لَهُنَّ بِسَهْمٍ ؟ ، وَهَلْ كَانَ يَقْتُلُ الصِّبْيَانَ ؟ ، وَمَتَى يَنْقَضِي يُتْمُ الْيَتِيمِ ؟ ، وَعَنِ الْخُمْسِ لِمَنْ هُوَ ؟ ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ ابْنُ عَبَّاسٍ ، كَتَبْتَ تَسْأَلُنِي ، هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْزُو بِالنِّسَاءِ ، وَقَدْ كَانَ يَغْزُو بِهِنَّ فَيُدَاوِينَ الْجَرْحَى وَيُحْذَيْنَ مِنَ الْغَنِيمَةِ ، وَأَمَّا بِسَهْمٍ فَلَمْ يَضْرِبْ لَهُنَّ ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، لَمْ يَكُنْ يَقْتُلُ الصِّبْيَانَ ، فَلَا تَقْتُلِ الصِّبْيَانَ ، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي مَتَى يَنْقَضِي يُتْمُ الْيَتِيمِ ، فَلَعَمْرِي إِنَّ الرَّجُلَ لَتَنْبُتُ لِحْيَتُهُ وَإِنَّهُ لَضَعِيفُ الْأَخْذِ لِنَفْسِهِ ضَعِيفُ الْعَطَاءِ مِنْهَا ، فَإِذَا أَخَذَ لِنَفْسِهِ مِنْ صَالِحِ مَا يَأْخُذُ النَّاسُ ، فَقَدْ ذَهَبَ عَنْهُ الْيُتْمُ ، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنِ الْخُمْسِ لِمَنْ هُوَ ، وَإِنَّا كُنَّا ، نَقُولُ : هُوَ لَنَا ، فَأَبَى عَلَيْنَا قَوْمُنَا ذَاكَ " ،