سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا حر بن قیس رضی اللہ عنہ نے جھگڑا کیا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی میں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: وہ خضر علیہ السلام تھے، پھر وہاں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نکلے تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کو بلایا اور کہا: اے ابوالطفیل! ادھر آؤ میں اور یہ جھگڑ رہے ہیں، موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی میں جن سے انہوں نے ملنا چاہا تو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس باب میں کچھ سنا ہے؟ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”ایک بار موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی جماعت میں بیٹھے ہو ئے تھے، اتنے میں ایک شخص آیا اور پوچھنے لگا: تم کسی شخص کو اپنے سے زیادہ عالم بھی جانتے ہو۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: نہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان کو وحی بھیجی کہ ہمارا بندہ خضر تم سے زیادہ عالم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان سے ملنا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کو نشانی مقرر کیا اور حکم ہوا کہ جب تو مچھلی کو کھو دے تو لوٹ، اس بندے سے ملے گا، پھر موسیٰ علیہ السلام چلے جہاں تک اللہ تعالیٰ کو منظور تھا بعد اس کے اپنے ساتھی سے کہا: ہمارا ناشتہ لاؤ۔ وہ بولا: آپ کو معلوم نہیں جب ہم صخرہ پر پہنچے تو مچھلی بھول گئے اور شیطان نے مجھے اس کی یاد بھلا دی۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: یہی تو ہم چاہتے تھے، پھر دونوں اپنے قدموں پر لوٹے اور خضر علیہ السلام سے ملے۔“ پھر جو حال گزرا وہ اللہ کی کتاب میں موجود ہے۔ یونس کی روایت میں ہے کہ وہ مچھلی کے نشان پر جو سمندر میں تھے لوٹے۔
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : هُوَ الْخَضِرُ فَمَرَّ بِهِمَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ الْأَنْصَارِيُّ ، فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ فَقَالَ : يَا أَبَا الطُّفَيْلِ : هَلُمَّ إِلَيْنَا فَإِنِّي قَدْ تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ ، فَهَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ ؟ فَقَالَ أُبَيٌّ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ ، فَقَالَ لَهُ : هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ ؟ قَالَ مُوسَى : لَا ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى بَلْ عَبْدُنَا الْخَضِرُ ، قَالَ : فَسَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ ، فَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ الْحُوتَ آيَةً ، وَقِيلَ لَهُ إِذَا افْتَقَدْتَ الْحُوتَ ، فَارْجِعْ فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ ، فَسَارَ مُوسَى مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَسِيرَ ، ثُمَّ قَالَ لِفَتَاهُ : آتِنَا غَدَاءَنَا ، فَقَالَ فَتَى مُوسَى حِينَ سَأَلَهُ الْغَدَاءَ : أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ ، فَقَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ : ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي ، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا فَوَجَدَا خَضِرًا ، فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا مَا قَصَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ إِلَّا أَنَّ يُونُسَ ، قَالَ : فَكَانَ يَتَّبِعُ أَثَرَ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ " .