ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب بیبیاں آپ کے صلی اللہ علیہ وسلم پاس تھیں (آپ کی بیماری میں) کوئی باقی نہ تھی جو نہ ہو، اتنے میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اسی طرح چلتی تھیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو دیکھا تو مرحبا کہا اور فرمایا: ”مرحبا میری بیٹی“، پھر ان کو اپنے داہنی طرف بٹھایا یا بائيں طرف اور ان کے کان میں چپکے سے کچھ فرمایا: وہ بہت روئیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا یہ حال دیکھا تو دوبارہ ان کےکان میں کچھ فرمایا وہ ہنسیں میں نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص تم سے راز کی باتیں کیں، پھر تم روئی ہو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو میں نے ان سے پوچھا: کیا فرمایا تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے؟ انہوں نے کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کرنے والی نہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو میں نے ان کو قسم دی اس حق کو جو میرا ان پر تھا اور کہا: بیان کرو مجھ سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے فرمایا تھا۔ انہوں نے کہا: اب البتہ میں بیان کر دوں گی۔ پہلی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرےکان میں یہ فرمایا کہ ”جبرئیل علیہ السلام ہر سال میں ایک بار یا دو بار مجھ سے قرآن کا دور کرتے اس سال انہوں نے دو بار دور کیا اور میں خیال کرتا ہوں کہ میرا وقت قریب آ گیا ہے (دنیا سے جانے کا) تو اللہ سے ڈرتی رہ اور صبر کر میں تیرا بہت اچھا پیش خیمہ ہوں۔“ یہ سن کر میں رونے لگی جیسے تم نے دیکھا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا رونا دیکھا تو دوبارہ مجھ سے سرگوشی کی اور فرمایا: ”اے فاطمہ! تو راضی نہیں ہے اس بات سے کہ مؤمنوں کی عورتوں کی یا اس امت کی عورتوں کی سردار ہو۔“ یہ سن کر میں ہنسی جیسے تم نے دیکھا۔
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : " كُنَّ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهُ ، لَمْ يُغَادِرْ مِنْهُنَّ وَاحِدَةً ، فَأَقْبَلَتْ فَاطِمَةُ تَمْشِي مَا تُخْطِئُ مِشْيَتُهَا مِنْ مِشْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا ، فَلَمَّا رَآهَا رَحَّبَ بِهَا ، فَقَالَ : مَرْحَبًا بِابْنَتِي ، ثُمَّ أَجْلَسَهَا عَنْ يَمِينِهِ ، أَوْ عَنْ شِمَالِهِ ، ثُمَّ سَارَّهَا ، فَبَكَتْ بُكَاءً شَدِيدًا ، فَلَمَّا رَأَى جَزَعَهَا سَارَّهَا الثَّانِيَةَ فَضَحِكَتْ ، فَقُلْتُ لَهَا : خَصَّكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ نِسَائِهِ بِالسِّرَارِ ، ثُمَّ أَنْتِ تَبْكِينَ ، فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، سَأَلْتُهَا : مَا قَالَ لَكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَتْ : مَا كُنْتُ أُفْشِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِرَّهُ ، قَالَتْ : فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قُلْتُ : عَزَمْتُ عَلَيْكِ بِمَا لِي عَلَيْكِ مِنَ الْحَقِّ لَمَا حَدَّثْتِنِي ، مَا قَالَ لَكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَتْ : أَمَّا الْآنَ فَنَعَمْ أَمَّا حِينَ سَارَّنِي فِي الْمَرَّةِ الْأُولَى فَأَخْبَرَنِي ، أَنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُهُ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ سَنَةٍ مَرَّةً ، أَوْ مَرَّتَيْنِ ، وَإِنَّهُ عَارَضَهُ الْآنَ مَرَّتَيْنِ ، وَإِنِّي لَا أُرَى الْأَجَلَ إِلَّا قَدِ اقْتَرَبَ ، فَاتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي ، فَإِنَّهُ نِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَكِ ، قَالَتْ : فَبَكَيْتُ بُكَائِي الَّذِي رَأَيْتِ ، فَلَمَّا رَأَى جَزَعِي سَارَّنِي الثَّانِيَةَ ، فَقَالَ يَا فَاطِمَةُ : أَمَا تَرْضَيْ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ ، أَوْ سَيِّدَةَ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ ، قَالَتْ : فَضَحِكْتُ ضَحِكِي الَّذِي رَأَيْتِ " .