سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جنت والوں کا اور دوزخ والوں کا علم ہو گیا ہے (اللہ تعالیٰ کو)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ لوگوں نے کہا: پھر عمل کرنے والے عمل کیوں کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر شخص کے لیے وہی کام آسان کیا گیا ہے جس کے لیے وہ پیدا ہوا۔“ (اب اگر اس کے ہاتھ سے اچھے کام ہو رہے ہیں تو امید ہوتی ہے کہ اس کی تقدیر میں جنتی ہونا لکھا گیا ہے اور جو برے کام ہو رہے ہیں تو خیال ہوتا ہے کہ اس کی تقدیر میں جہنمی ہونا لکھا گیا ہے ہم کو تقدیر کا علم نہیں۔ حاصل یہ ہے کہ ہمارے اعمال کب تقدیر سے خارج ہیں وہ بھی تقدیر الہی ہیں اور عذاب و ثواب اس اختیار پر ہے جو بعالم اسباب ہم کو دیا گیا ہے اور چونکہ تقدیر تک ہمارا علم نہیں پہنچتا اس لیے ہم سارے کام اپنے اختیار سے کرتے ہیں اور اس کی جزا اور سزا پانے کے مستحق ہیں)۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ يَزِيدَ الضُّبَعِيِّ ، حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ : قِيلَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَعُلِمَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مَنْ أَهْلِ النَّارِ ؟ قَالَ : فَقَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : قِيلَ : فَفِيمَ يَعْمَلُ الْعَامِلُونَ ؟ قَالَ : " كُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ " .