سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب لوگوں نے میری نسبت بیان کیا جو بیان کیا اور مجھے خبر نہ ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھنے کو کھڑے ہوئے اور تشہد پڑھا اللہ کی تعریف کی اور اس کی صفت بیان کی جیسی اس کے لائق ہے پھر کہا: ”امابعد! مشورہ دو مجھ کو ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے تہمت لگائی میرے گھر والوں کو، اللہ کی قسم! میں تو اپنی گھر والی پر کوئی برائی کبھی نہیں جانی اور جس شخص سے انہوں نے تہمت لگائی اس کی بھی کوئی برائی میں نے کبھی نہیں دیکھی اور نہ وہ کبھی میرے گھر میں آیا مگر اسی وقت جب میں موجود تھا اور جب میں سفر میں گیا وہ بھی میرے ساتھ گیا“ اور بیان کیا سارا قصہ حدیث کا اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں آئے اور میری لونڈی سے حال پوچھا: اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے عائشہ کا کوئی عیب نہیں دیکھا البتہ یہ عیب تو ہے کہ وہ سو جاتی ہیں پھر بکری آتی ہے اور ان کا آٹا کھا لیتی ہے یا خمیر کھا لیتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب نے اسے جھڑکا اور کہا سچ کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہاں تک کہ صاف کہہ دیا اس سے (یہ واقعہ تہمت کا یا سخت سست کہا اس کو) وہ کہنے لگی: سبحان اللہ، اللہ کی قسم! میں تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایسا جانتی ہوں جیسے سنار خالص سرخ سونے کی ڈلی کو جانتا ہے (یعنی بے عیب) یہ خبر اس مرد کو پہنچی جس سے تہمت کرتے تھے۔ وہ بولا: سبحان اللہ، اللہ کی قسم! میں نے کسی عورت کا کپڑا کبھی نہیں کھولا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: وہ مرد اللہ کی راہ میں شہید ہوا۔ اس روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ تہمت کرنے والوں میں مسطح تھا اور حمنہ تھی اور حسان تھا اور منافق عبداللہ بن ابی وہ تو کھود کھود کر اس بات کو نکالتا پھر اس کو اکٹھا کرتا اور وہی بانی مبانی تھا اور حمنہ (بنت حجش)۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَجُلًا كَانَ يُتَّهَمُ بِأُمِّ وَلَدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لِعَلِيٍّ اذْهَبْ فَاضْرِبْ عُنُقَهُ " ، فَأَتَاهُ عَلِيٌّ ، فَإِذَا هُوَ فِي رَكِيٍّ يَتَبَرَّدُ فِيهَا ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ : اخْرُجْ فَنَاوَلَهُ يَدَهُ فَأَخْرَجَهُ ، فَإِذَا هُوَ مَجْبُوبٌ لَيْسَ لَهُ ذَكَرٌ فَكَفَّ عَلِيٌّ عَنْهُ ، ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّهُ لَمَجْبُوبٌ مَا لَهُ ذَكَرٌ " .