انور مسعود

1935
اسلام آباد, پاکستان
برصغیر میں طنز و مزاح کے ممتاز شاعر
اب کہاں اور کسی چیز کی جا رکھی ہے

کیوں کسی اور کو دکھ درد سناؤں اپنے

اس ابتدا کی سلیقے سے انتہا کرتے

میں جرم خموشی کی صفائی نہیں دیتا

اگلے دن کچھ ایسے ہوں گے

کب تلک یوں دھوپ چھاؤں کا تماشا دیکھنا

کب ضیا بار ترا چہرۂ زیبا ہوگا

پڑھنے بھی نہ پائے تھے کہ وہ مٹ بھی گئی تھی

شکوۂ گردش حالات لیے پھرتا ہے

درد بڑھتا ہی رہے ایسی دوا دے جاؤ

رات آئی ہے بلاؤں سے رہائی دے گی

جس طرح کی ہیں یہ دیواریں یہ در جیسا بھی ہے

بجٹ میں نے دیکھے ہیں سارے ترے

کیسی کیسی آیتیں مستور ہیں نقطے کے بیچ

بس یوں ہی اک وہم سا ہے واقعہ ایسا نہیں

اشارتوں کی وہ شرحیں وہ تجزیہ بھی گیا

اس حسیں کے خیال میں رہنا

سوچنا روح میں کانٹے سے بچھائے رکھنا

میں دیکھ بھی نہ سکا میرے گرد کیا گیا تھا

اسے تو پاس خلوص وفا ذرا بھی نہیں

بس اب ترک تعلق کے بہت پہلو نکلتے ہیں

مجھے خود سے بھی کھٹکا سا لگا تھا

میری قسمت کہ وہ اب ہیں مرے غم خواروں میں

دنیا بھی عجب قافلۂ تشنہ لباں ہے

جو بارشوں میں جلے تند آندھیوں میں جلے

درمیاں گر نہ ترا وعدۂ فردا ہوتا

Pakistanify News Subscription

X