اشفاق حسین

1951
کناڈا
کنیڈا میں مقیم اردو کے ممتاز شاعر
یہ دل بھی تو ڈوبے گا سمندر میں کسی کے

یہ زمیں چاند ستاروں کا بدل کیسے ہو

ذرا ذرا ہی سہی آشنا تو میں بھی ہوں

تیرے پہلو میں ترے دل کے قریں رہنا ہے

پھر یاد اسے کرنے کی فرصت نکل آئی

محبت اور محبت کا شجر باقی رہے گا

وہ دوست ہے اور برا نہیں ہے

اتنا بے نفع نہیں اس سے بچھڑنا میرا

سکون دل کی خاطر اک سہارا ڈھونڈتے ہیں

ابھی اس فکر سے نکلا نہیں ہوں

محبت کس سے کب ہو جائے اندازہ نہیں ہوتا

محبت اور محبت کا شجر باقی رہے گا

یہیں کہیں کوئی آواز دے رہا تھا مجھے

گرتی ہے تو گر جائے یہ دیوار سکوں بھی

وہ تنہا تھا تو پھر تنہائی کا دم ساز ہونا تھا

تو اب کے عجب طرح ملا ہے

کہا کس نے مسلسل کام کرنے کے لیے ہے

خیال و خواب کے دریا کے پار اثر بھی گئے

جب ہوئی اس کی توجہ میں کمی تھوڑی سی

جزیرے کی طرح میری نشانی کس لیے ہے

ہنگام شب و روز میں الجھا ہوا کیوں ہوں

مرے پاؤں کے نیچے بھی زمیں ہے

کسی گلی کسی چھت پر ضرور نکلے گا

نا مہرباں ہے تو تو کوئی مہرباں بھی ہے

کہیں بھی جا کے بسیرا کریں ادھر ہی کے ہیں

شیشۂ دل میں ترے واسطے بال آیا کیوں

جب سے اپنے گھر کے بام و در سے نکلے ہیں

نئی دنیا نئے منظر نئے افکار ملے

اس آنکھ نہ اس دل سے نکالے ہوئے ہم ہیں

اسی زمین اسی آسماں کے ساتھ رہے

تمام رشتے اسی شاخ بے ثمر سے ہیں

دل اجنبی دیس میں لگا ہے

دل اک نئی دنیائے معانی سے ملا ہے

اس زندگی میں کچھ تو تب و تاب چاہیے

بہتا ہوا دریا ہوں کہیں پر تھا کہیں ہوں

لمحۂ تلخیٔ گفتار تلک لے آیا

کچھ نہیں ہونے کے ادراک سے ڈرتا کیوں ہے

سوچ کی موج رواں لے کے کدھر آئی ہے

نئی دنیا نئے منظر نئے افکار ملے

خواہش دیوار و در ہے اپنا گھر ہوتے ہوئے

جزیرے کی طرح میری نشانی کس لیے ہے

دیے جو کر دیے گل عہد شب میں رہتے ہوئے

Pakistanify News Subscription

X