حیدر علی آتش

1778 - 1847
لکھنؤ, انڈیا
مرزا غالب کے ہم عصر، انیسویں صدی کی اردو غزل کا روشن ستارہ
یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو بہ رو کرتے

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا

دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے

اے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے

شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا

نا فہمی اپنی پردہ ہے دیدار کے لیے

ہوائے دور مے خوش گوار راہ میں ہے

فریب حسن سے گبر و مسلماں کا چلن بگڑا

مگر اس کو فریب نرگس مستانہ آتا ہے

وحشی تھے بوئے گل کی طرح اس جہاں میں ہم

آئنہ سینۂ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا

کوئی عشق میں مجھ سے افزوں نہ نکلا

رفتگاں کا بھی خیال اے اہل عالم کیجیے

چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا

حسن پری اک جلوۂ مستانہ ہے اس کا

توڑ کر تار نگہ کا سلسلہ جاتا رہا

کیا کیا نہ رنگ تیرے طلب گار لا چکے

قدرت حق ہے صباحت سے تماشا ہے وہ رخ

تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا

یا علی کہہ کر بت پندار توڑا چاہئے

تصور سے کسی کے میں نے کی ہے گفتگو برسوں

صورت سے اس کی بہتر صورت نہیں ہے کوئی

وہ نازنیں یہ نزاکت میں کچھ یگانہ ہوا

دل لگی اپنی ترے ذکر سے کس رات نہ تھی

یہ کس رشک مسیحا کا مکاں ہے

غیرت مہر رشک ماہ ہو تم

زندے وہی ہیں جو کہ ہیں تم پر مرے ہوے

رخ و زلف پر جان کھویا کیا

طرہ اسے جو حسن دل آزار نے کیا

دوست دشمن نے کئے قتل کے ساماں کیا کیا

وہی چتون کی خوں خواری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

کام ہمت سے جواں مرد اگر لیتا ہے

حباب آسا میں دم بھرتا ہوں تیری آشنائی کا

چمن میں رہنے دے کون آشیاں نہیں معلوم

پیری سے مرا نوع دگر حال ہوا ہے

محبت کا تری بندہ ہر اک کو اے صنم پایا

بلائے جاں مجھے ہر ایک خوش جمال ہوا

دل بہت تنگ رہا کرتا ہے

دیوانگی نے کیا کیا عالم دکھا دیے ہیں

آبلے پاؤں کے کیا تو نے ہمارے توڑے

کوچۂ دلبر میں میں بلبل چمن میں مست ہے

مرے دل کو شوق فغاں نہیں مرے لب تک آتی دعا نہیں

ایسی وحشت نہیں دل کو کہ سنبھل جاؤں گا

یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا

پیمبر میں نہیں عاشق ہوں جانی

حسرت جلوۂ دیدار لیے پھرتی ہے

وحشت دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا

خواہاں ترے ہر رنگ میں اے یار ہمیں تھے

جوہر نہیں ہمارے ہیں صیاد پر کھلے

ہنگام نزع محو ہوں تیرے خیال کا

عاشق ہوں میں نفرت ہے مرے رنگ کو رو سے

جگر کو داغ میں مانند لالہ کیا کرتا

اس شش جہت میں خوب تری جستجو کریں

حسن کس روز ہم سے صاف ہوا

موت مانگوں تو رہے آرزو خواب مجھے

کوئی اچھا نہیں ہوتا ہے بری چالوں سے

تار تار پیرہن میں بھر گئی ہے بوئے دوست

قصۂ سلسلۂ زلف نہ کہنا بہتر

رجوع بندہ کی ہے اس طرح خدا کی طرف

غم نہیں گو اے فلک رتبہ ہے مجھ کو خار کا

چھپ کے رسوا ہوئے انکار ہے سچ بات میں کیا

کون سے دل میں محبت نہیں جانی تیری

اے جنوں ہوتے ہیں صحرا پر اتارے شہر سے

آشنا گوش سے اس گل کے سخن ہے کس کا

ہے جب سے دست یار میں ساغر شراب کا

شب فرقت میں یار جانی کی

آئنہ خانہ کریں گے دل ناکام کو ہم

اس کے کوچے میں مسیحا ہر سحر جاتا رہا

انصاف کی ترازو میں تولا عیاں ہوا

عناب لب کا اپنے مزا کچھ نہ پوچھئے

عارف ہے وہ جو حسن کا جویا جہاں میں ہے

سر کاٹ کے کر دیجئے قاتل کے حوالے

دل کی کدورتیں اگر انساں سے دور ہوں

بلبل کو خار خار دبستاں ہے ان دنوں

خار مطلوب جو ہووے تو گلستاں مانگوں

فرط شوق اس بت کے کوچہ میں لگا لے جائے گا

منتظر تھا وہ تو جست و جو میں یہ آوارہ تھا

بلبل گلوں سے دیکھ کے تجھ کو بگڑ گیا

کعبہ و دیر میں ہے کس کے لیے دل جاتا

بازار دہر میں تری منزل کہاں نہ تھی

شہرۂ آفاق مجھ سا کون سا دیوانہ ہے

لباس یار کو میں پارہ پارہ کیا کرتا

برگشتہ طالعی کا تماشا دکھاؤں میں

دولت حسن کی بھی ہے کیا لوٹ

ناز و ادا ہے تجھ سے دل آرام کے لیے

سبزہ بالائے ذقن دشمن ہے خلق اللہ کا

جوش و خروش پر ہے بہار چمن ہنوز

طاق ابرو ہیں پسند طبع اک دل خواہ کے

سر شمع ساں کٹائیے پر دم نہ ماریے

لخت جگر کو کیونکر مژگان تر سنبھالے

تیری جو یاد اے دل خواہ بھولا

تازہ ہو دماغ اپنا تمنا ہے تو یہ ہے

پسے دل اس کی چتون پر ہزاروں

مئے گل رنگ سے لبریز رہیں جام سفید

روز مولود سے ساتھ اپنے ہوا غم پیدا

برق کو اس پر عبث گرنے کی ہیں تیاریاں

آخر کار چلے تیر کی رفتار قدم

قد صنم سا اگر آفریدہ ہونا تھا

دل شہید رہ داماں نہ ہوا تھا سو ہوا

Pakistanify News Subscription

X