ابن انشا

1927 - 1978
کراچی, پاکستان
ممتاز پاکستانی شاعر ، اپنی غزل ’ کل چودھویں کی رات تھی‘ کے لئے مشہور
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا

انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا

شام غم کی سحر نہیں ہوتی

دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے اب آن ملو تو بہتر ہو

کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ کچھ نہ کہو خاموش رہو

اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا

دل عشق میں بے پایاں سودا ہو تو ایسا ہو

جانے تو کیا ڈھونڈ رہا ہے بستی میں ویرانے میں

کس کو پار اتارا تم نے کس کو پار اتارو گے

اور تو کوئی بس نہ چلے گا ہجر کے درد کے ماروں کا

سنتے ہیں پھر چھپ چھپ ان کے گھر میں آتے جاتے ہو

سب کو دل کے داغ دکھائے ایک تجھی کو دکھا نہ سکے

اپنے ہم راہ جو آتے ہو ادھر سے پہلے

رات کے خواب سنائیں کس کو رات کے خواب سہانے تھے

دیکھ ہمارے ماتھے پر یہ دشت طلب کی دھول میاں

دیکھ ہماری دید کے کارن کیسا قابل دید ہوا

ہم جنگل کے جوگی ہم کو ایک جگہ آرام کہاں

جب دہر کے غم سے اماں نہ ملی ہم لوگوں نے عشق ایجاد کیا

دل کس کے تصور میں جانے راتوں کو پریشاں ہوتا ہے

ہم ان سے اگر مل بیٹھے ہیں کیا دوش ہمارا ہوتا ہے

جلوہ نمائی بے پروائی ہاں یہی ریت جہاں کی ہے

اے دل والو گھر سے نکلو دیتا دعوت عام ہے چاند

راز کہاں تک راز رہے گا منظر عام پہ آئے گا

لوگ ہلال شام سے بڑھ کر پل میں ماہ تمام ہوئے

پیت کرنا تو ہم سے نبھانا سجن ہم نے پہلے ہی دن تھا کہا نا سجن

دل سی چیز کے گاہک ہوں گے دو یا ایک ہزار کے بیچ

جنگل جنگل شوق سے گھومو دشت کی سیر مدام کرو

ہمیں تم پہ گمان وحشت تھا ہم لوگوں کو رسوا کیا تم نے

اس شہر کے لوگوں پہ ختم سہی خوش طلعتی و گل پیرہنی

اس حسن کے نام پہ یاد آئے سب منظر فیضؔ کی نظموں کے (ردیف .. ن)

Pakistanify News Subscription

X