جوش ملیح آبادی

1898 - 1982
اسلام آباد, پاکستان
سب سے شعلہ مزاج ترقی پسند شاعر، شاعر انقلاب کے طور پر معروف
سوز غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا

میری حالت دیکھیے اور ان کی صورت دیکھیے

قدم انساں کا راہ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے

جب سے مرنے کی جی میں ٹھانی ہے

بے ہوشیوں نے اور خبردار کر دیا

وہ صبر دے کہ نہ دے جس نے بیقرار کیا

پھر سر کسی کے در پہ جھکائے ہوئے ہیں ہم

اس بات کی نہیں ہے کوئی انتہا نہ پوچھ

یہ بات یہ تبسم یہ ناز یہ نگاہیں

ساری دنیا ہے ایک پردۂ راز

تبسم ہے وہ ہونٹوں پر جو دل کا کام کر جائے

ادھر مذہب ادھر انساں کی فطرت کا تقاضا ہے

ملا جو موقع تو روک دوں گا جلالؔ روز حساب تیرا

کافر بنوں گا کفر کا ساماں تو کیجئے

نقش خیال دل سے مٹایا نہیں ہنوز

سرشار ہوں سرشار ہے دنیا مرے آگے

عیش کی جانب جو مائل کچھ طبیعت ہو گئی

فکر ہی ٹھہری تو دل کو فکر خوباں کیوں نہ ہو

حیرت ہے آہ صبح کو ساری فضا سنے

آ فصل گل ہے غرق تمنا ترے لیے

دل آزادہ رو میں وہ تمنا تھی بیاباں کی

ظالم یہ خموشی بے جا ہے اقرار نہیں انکار تو ہو

اس قدر ڈوبا ہوا دل درد کی لذت میں ہے

آؤ کعبے سے اٹھیں سوئے صنم خانہ چلیں

گداز دل سے باطن کا تجلی زار ہو جانا

دور اندیش مریضوں کی یہ عادت دیکھی

پھر آشنائے لذت درد جگر ہیں ہم

دوستو وقت ہے پھر زخم جگر تازہ کریں

سبو اٹھا کہ فضا سیم خام ہے ساقی

یوں ڈھل گیا ہے درد میں درماں کبھی کبھی

مجھ سے ساقی نے کہی رات کو کیا بات اے جوشؔ

تجربے کے دشت سے دل کو گزرنے کے لیے

صیاد دام زلف سے مجھ کو رہا کرے

نہ چھیڑ شاعر رباب رنگیں یہ بزم ابھی نکتہ داں نہیں ہے

صبح بالیں پہ یہ کہتا ہوا غم خوار آیا

میں رو رہا ہوں تیری نظر ہے عتاب کی

آزادہ منش رہ دنیا میں پروائے امید و بیم نہ کر

اپنے میں جو اب بھولے سے کبھی راحت کا تقاضا پاتا ہے

للہ الحمد کہ دل شعلہ فشاں ہے اب تک

جی میں آتا ہے کہ پھر مژگاں کو برہم کیجیے

یہ نصیب شاعری ہے زہے شان کبریائی

نمایاں منتہائے سعئ پیہم ہوتی جاتی ہے

گردن میں ہیں وہ باہیں گردش میں ہیں پیمانے

اے بہ رخ مصحف گلزار و چراغ حرم غنچگی و آیۂ گل باری و قرآن بہار

موج دریا پہ چھا رہا ہے یہ کون

اٹھی وہ گھٹا رنگ سامانیاں کر

کوئی دارائے جاں ہے کیا معلوم

Pakistanify News Subscription

X