مجید امجد

1914 - 1974
پنجاب, پاکستان
جدید اردو شاعری کے بنیاد سازوں میں نمایاں
بڑھی جو حد سے تو سارے طلسم توڑ گئی

دل سے ہر گزری بات گزری ہے

روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گلاب کے پھول

صدیوں سے راہ تکتی ہوئی گھاٹیوں میں تم (ردیف .. ا)

بنے یہ زہر ہی وجہ شفا جو تو چاہے

مہکتے میٹھے مستانے زمانے

اور اب یہ کہتا ہوں یہ جرم تو روا رکھتا

ہر وقت فکر مرگ غریبانہ چاہئے

دن کٹ رہے ہیں کشمکش روزگار میں

کیا روپ دوستی کا کیا رنگ دشمنی کا

جو دل نے کہہ دی ہے وہ بات ان کہی بھی نہ تھی

دل نے ایک ایک دکھ سہا تنہا

میری مانند خود نگر تنہا

چہرہ اداس اداس تھا میلا لباس تھا

اپنے دل کی کھوج میں کھو گئے کیا کیا لوگ

گہرے سروں میں عرض نوائے حیات کر

جو ہو سکے تو مرے دل اب اک وہ قصہ بھی

برس گیا بہ خرابات آرزو ترا غم

کیا سوچتے ہو اب پھولوں کی رت بیت گئی رت بیت گئی

جنون عشق کی رسم عجیب کیا کہنا

اس اپنی کرن کو آتی ہوئی صبحوں کے حوالے کرنا ہے

پھر تو سب ہم درد بہت افسوس کے ساتھ یہ کہتے تھے

ایک ایک جھروکا خندہ بہ لب ایک ایک گلی کہرام

چاندنی میں سایہ ہائے کاخ و کو میں گھومیے

سفر کی موج میں تھے وقت کے غبار میں تھے

کبھی تو سوچ ترے سامنے نہیں گزرے

اک عمر دل کی گھات سے تجھ پر نگاہ کی

ترے فرق ناز پہ تاج ہے مرے دوش غم پہ گلیم ہے

عشق کی ٹیسیں جو مضراب رگ جاں ہو گئیں

جب اک چراغ راہ گزر کی کرن پڑے

اک سانس کی مدھم لو تو یہی اک پل تو یہی اک چھن تو یہی

قاصد مست گام موج صبا

ہو کے اس چشم مے پرست سے مست

بچا کے رکھا ہے جس کو غروب جاں کے لئے

قریب دل خروش صد جہاں ہم

جاوداں قدروں کی شمعیں بجھ گئیں تو جل اٹھی تقدیر دل

Pakistanify News Subscription

X