مصحفی غلام ہمدانی

1747 - 1824
لکھنؤ, انڈیا
اٹھارہویں صدی کے بڑے شاعروں میں شامل، میرتقی میر کے ہم عصر
آئے ہو تو یہ حجاب کیا ہے

رات پردے سے ذرا منہ جو کسو کا نکلا

خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا

لوگ کہتے ہیں محبت میں اثر ہوتا ہے

جب تک یہ محبت میں بد نام نہیں ہوتا

اس قدر بھی تو مری جان نہ ترسایا کر

آنکھوں کو پھوڑ ڈالوں یا دل کو توڑ ڈالوں

عاشق تو ملیں گے تجھے انساں نہ ملے گا

اول تو ترے کوچے میں آنا نہیں ملتا

عقل گئی ہے سب کی کھوئی کیا یہ خلق دوانی ہے

آساں نہیں ہے تنہا در اس کا باز کرنا

آج خوں ہو کے ٹپک پڑنے کے نزدیک ہے دل

جب کہ بے پردہ تو ہوا ہوگا

گرچہ اے دل عاشق شیدا ہے تو

وعدوں ہی پہ ہر روز مری جان نہ ٹالو

وہ چاندنی رات اور وہ ملاقات کا عالم

آنا ہے یوں محال تو اک شب بہ خواب آ

اب مجھ کو گلے لگاؤ صاحب

جمنا میں کل نہا کر جب اس نے بال باندھے

غم دل کا بیان چھوڑ گئے

رخ زلف میں بے نقاب دیکھا

ترا شوق دیدار پیدا ہوا ہے

کچھ اپنی جو حرمت تجھے منظور ہو اے شیخ

آتا ہے کس انداز سے ٹک ناز تو دیکھو

اہل دل گر جہاں سے اٹھتا ہے

نہ پوچھ عشق کے صدمے اٹھائے ہیں کیا کیا

اس عشق و جنوں میں نہ گریبان کا ڈر ہے

کبھی تو بیٹھوں ہوں جا اور کبھی اٹھ آتا ہوں

آہ ہم راز کون ہے اپنا

کہہ گیا کچھ تو زیر لب کوئی

ہم بھی ہیں ترے حسن کے حیران ادھر دیکھ

پہلو میں رہ گیا یوں یہ دل تڑپ تڑپ کر

اے شب ہجر کہیں تیری سحر ہے کہ نہیں

اے عشق تیری اب کے وہ تاثیر کیا ہوئی

یار ہیں چیں بر جبیں سب مہرباں کوئی نہیں

آج پلکوں کو جاتے ہیں آنسو

دل چرانا یہ کام ہے تیرا

ہم تو اس کوچے میں گھبرا کے چلے آتے ہیں

آہ دیکھی تھی میں جس گھر میں پری کی صورت

یہ آنکھیں ہیں تو سر کٹا کر رہیں گی

دل کو یہ اضطرار کیسا ہے

دیکھ اس کو اک آہ ہم نے کر لی

غصے کو جانے دیجے نہ تیوری چڑھائیے

بیٹھے بیٹھے جو ہم اے یار ہنسے اور روئے

ان آنکھوں سے آب کچھ نہ نکلا

اول تو یہ دھج اور یہ رفتار غضب ہے

ترسا نہ مجھ کو کھینچ کے تلوار مار ڈال

گر اور بھی مری تربت پہ یار ٹھہرے گا

معشوقۂ گل نقاب میں ہے

غزل کہنے کا کس کو ڈھب رہا ہے

کب صبا سوئے اسیران قفس آتی ہے

آتا ہے یہی جی میں فریاد کروں روؤں

بحث اس کی میری وقت ملاقات بڑھ گئی

زلفوں کا بکھرنا اک تو بلا، عارض کی جھلک پھر ویسی ہی

تو دیکھے تو اک نظر بہت ہے

خواریاں بدنامیاں رسوائیاں

تجھ سے گر وہ دلا نہیں ملتا

یوں چلتے ہیں لوگ راہ ظالم

کہتی ہے نماز صبح کی بانگ

سدا فکر روزی ہے تا زندگی ہے

از بس کہ جی ہے تجھ بن بیزار زندگی سے

نہ وہ وعدۂ سر راہ ہے نہ وہ دوستی نہ نباہ ہے

گھر میں باشندے تو اک ناز میں مر جاتے ہیں

ہم دل کو لیے بر سر بازار کھڑے ہیں

ابھی اپنے مرتبۂ حسن سے میاں با خبر تو ہوا نہیں

مذہب کی میرے یار اگر جستجو کریں

آنکھیں ہیں جوش اشک سے پنگھٹ

بعد مردن کی بھی تدبیر کیے جاتا ہوں

مسلخ عشق میں کھنچتی ہے خوش اقبال کی کھال

دل سینے میں بیتاب ہے دل دار کدھر ہے

ٹکڑا جہاں گرا جگر چاک چاک کا

دل خوش نہ ہوا زلف پریشاں سے نکل کر

دریاے عاشقی میں جو تھے گھاٹ گھاٹ سانپ

کھیل جاتے ہیں جان پر عاشق

ہر روز ہمیں گھر سے صحرا کو نکل جانا

جیتا رہوں کہ ہجر میں مر جاؤں کیا کروں

منہ چھپاؤ نہ تم نقاب میں جان

بچا گر ناز سے تو اس کو پھر انداز سے مارا

ہے ماہ کہ آفتاب کیا ہے

اک حرف کن میں جس نے کون و مکاں بنایا

زلف اگر دل کو پھنسا رکھتی ہے

جب گھر سے وہ بعد ماہ نکلے

بلبلو باغباں کو کیوں چھیڑا

ہو چکا ناز منہ دکھائیے بس

کدھر جائیے اور کہاں بیٹھیے

پردہ اٹھا کے مہر کو رخ کی جھلک دکھا کہ یوں

جو دم حقے کا دوں بولے کہ ''میں حقا نہیں پیتا'' (ردیف .. ا)

لگتے ہیں نت جو خوباں شرمانے باؤلے ہیں

حال دل بے قرار ہے اور

بکتے ہیں شہر میں گل بے خار ہر طرف

بات کو میری الگ ہو کے نہ شرماؤ سنو

اس نازنیں کی باتیں کیا پیاری پیاریاں ہیں

چھریاں چلیں شب دل و جگر پر

عاشق کہیں ہیں جن کو وہ بے ننگ لوگ ہیں

کھڑا نہ سن کے صدا میری ایک یار رہا

اس رشک مہ کی یاد دلاتی ہے چاندنی

کیوں کہ کہیے کہ ادا بندی ہے

کبھو تک کے در کو کھڑے رہے کبھو آہ بھر کے چلے گئے

نہیں کرتی اثر فریاد میری

کپڑے بدل کے آئے تھے آگ مجھے لگا گئے

پڑھ نہ اے ہم نشیں وصال کا شعر

میرؔ کیا چیز ہے سوداؔ کیا ہے

بنایا ایک کافر کے تئیں اس دم میں دو کافر

تجھ بن تو کبھی گل کے تئیں بو نہ کروں میں

بے لاگ ہیں ہم ہم کو رکاوٹ نہیں آتی

یا تھی ہوس وصال دن رات

کھا لیتے ہیں غصے میں تلوار کٹاری کیا

کل تو کھیلے تھا وہ گلی ڈنڈا

عمر پس ماندہ کچھ دلیل سی ہے

شعر کیا جس میں نوک جھوک نہ ہو

سو بار تم تو سامنے آ کر چلے گئے

مخلوق ہوں یا خالق مخلوق نما ہوں

کام میں اپنے ظہور حق ہے آپ

کیا چمکے اب فقط مری نالے کی شاعری

رکھیں ہیں جی میں مگر مجھ سے بد گمانی آپ

مدت سے ہوں میں سر خوش صہبائے شاعری

رات کرتا تھا وہ اک مرغ گرفتار سے بحث

کیا کریں جا کے گلستاں میں ہم

تھا جو شعر راست سرو بوستان ریختہ

جب تک کہ تری گالیاں کھانے کے نہیں ہم

ایسے ڈرے ہیں کس کی نگاہ غضب سے ہم

میاں صبر آزمائی ہو چکی بس

اپنا رفیق و آشنا غیر خدا کوئی نہیں

جو پری بھی روبرو ہو تو پری کو میں نہ دیکھوں

سوتے ہیں ہم زمیں پر کیا خاک زندگی ہے

وحشت ہے میرے دل کو تو تدبیر وصل کر

باغ تھا اس میں آشیاں بھی تھا

کبریائی کی ادا تجھ میں ہے

چلے لے کے سر پر گناہوں کی گٹھری

ہوں شیخ مصحفی کا میں حیران شاعری

کیجیے ظلم سزا وار جفا ہم ہی ہیں

غم ترا دل میں مرے پھر آگ سلگانے لگا

جب نبی صاحب میں کوہ و دشت سے آئی بسنت

سر اپنے کو تجھ پر فدا کر چکے ہم

کون اس باغ سے اے باد صبا جاتا ہے

فہمیدہ ہے جو تجھ کو تو فہمید سے نکل

شب ہجراں تھی میں تھا اور تنہائی کا عالم تھا

پانو میں قیس کے زنجیر بھلی لگتی ہے

جلتا ہے جگر تو چشم نم ہے

لیے آدم نے اپنے بیٹے پانچ

موج نکہت کی صبا دیکھ سواری تیار

سینہ ہے پرزے پرزے جائے رفو نہیں یاں

دور سے مجھ کو نہ منہ اپنا دکھاؤ جاؤ

تختۂ آب چمن کیوں نہ نظر آوے سپاٹ

اس نے کر وسمہ جو فندق پہ جمائی مہندی

آتش غم میں بس کہ جلتے ہیں

خریدار اپنا ہم کو جانتے ہو

گریہ دل کو نہ سوے چشم بہاؤ

نسیم صبح چمن سے ادھر نہیں آتی

نظر کیا آئے ذات حق کسی کو

صحبت ہے ترے خیال کے ساتھ

اس بت کو نہیں ہے ڈر خدا سے

خدا کی قسم پھر تو کیا خیر ہووے

شعر دولت ہے کہاں کی دولت

سر شام اس نے منہ سے جو رخ نقاب الٹا

سخن میں کامرانی کر رہا ہوں

مشتاق ہی دل برسوں اس غنچہ دہن کا تھا

غیر کے گھر تو نہ رہ رات کو مہمان کہیں

سراسر خجلت و شرمندگی ہے

جانے دے ٹک چمن میں مجھے اے صبا سرک

جی سے مجھے چاہ ہے کسی کی

وہیں تھے شاخ گل پر گل جہاں جمع

تصور تیری صورت کا مجھے ہر شب ستاتا ہے

دل میں ہے اس کے مدعی کا عشق

شب ہجر صحرائے ظلمات نکلی

دیکھ کر اک جلوے کو تیرے گر ہی پڑا بے خود ہو موسیٰ (ردیف .. ا)

یارب مری اس بت سے ملاقات کہیں ہو

زخم ہے اور نمک فشانی ہے

مکھ پھاٹ منہ پہ کھائیں گے تلوار ہو سو ہو

کب خوں میں بھرا دامن قاتل نہیں معلوم

نصیبوں سے کوئی گر مل گیا ہے

از بس بھلا لگے ہے تو میرے یار مجھ کو

وہ در تلک آوے نہ کبھی بات کی ٹھہرے

کیا دخل کسی سے مرض عشق شفا ہو

گر ابر گھرا ہوا کھڑا ہے

بھری آتی ہیں ہر گھڑی آنکھیں

رو کے ان آنکھوں نے دریا کر دیا

کب لگ سکے جفا کو اس کی وفائے عالم

ترے منہ چھپاتے ہی پھر مجھے خبر اپنی کچھ نہ ذری رہی

برق رخسار یار پھر چمکی

ہر چند کہ ہو مریض محتاط

یہ دل وہ شیشہ ہے جھمکے ہے وہ پری جس میں

کی آہ ہم نے لیکن اس نے ادھر نہ دیکھا

وہ چہچہے نہ وہ تری آہنگ عندلیب

وہی راتیں آئیں وہی زاریاں

شب میں واں جاؤں تو جاؤں کس طرح

دم غنیمت ہے کہ وقت خوش دلی ملتا نہیں

مجھ سے اک بات کیا کیجئے بس

یادگار گزشتگاں ہیں ہم

ادھر سے جھانکتے ہیں گہہ ادھر سے دیکھ لیتے ہیں

ہر چند کہ وہ جواں نہیں ہم

بند بھی آنکھوں کو ذری کیجیے

وہ آرزو نہ رہی اور وہ مدعا نہ رہا

لینے لگے جو چٹکی یک بار بیٹھے بیٹھے

نے بت ہے نہ سجدہ ہے نے بادہ نہ مستی ہے

کیا کھینچے ہے خود کو دور اللہ

کس راہ گیا لیلیٰ کا محمل نہیں معلوم

میری سی تو نے گل سے نہ گر اے صبا کہی

ہمیں نت اسیر بلا چاہتا ہے

کیا میں جاتا ہوں صنم چھٹ ترے در اور کہیں

ظلمات شب ہجر کی آفات ہے اور تو

اس گلی میں جو ہم کو لائے قدم

تم بانکپن یہ اپنا دکھاتے ہو ہم کو کیا

اے غم زدہ ضبط کر کے چلنا

محبت نے کیا کیا نہ آنیں نکالیں

کل پتنگ اس نے جو بازار سے منگوا بھیجا

جاتے جاتے راہ میں اس نے منہ سے اٹھایا جوں ہی پردا

ہر چند امردوں میں ہے اک راہ کا مزا

اس گوشۂ عزلت میں تنہائی ہے اور میں ہوں

تمہاری اور مری کج ادائیاں ہی رہیں

زیر نقاب آب گوں ہائے رے ان کی جالیاں

بس ہم ہیں شب اور کراہنا ہے

چشم نے کی گوہر افشانی صریح

پھر یہ کیسا ادھیڑ بن سا لگا

پریشاں کیوں نہ ہو جاوے نظارا

طور پر اپنے کسی دن بھی خور و خواب ہے یاں

کبھی وفائیں کبھی بے وفائیاں دیکھیں

دلبر کی تمنائے بر دوش میں مر جائے

گر ہو طمنچہ بند وہ رشک فرنگیاں

بزم سرود خوباں میں گو مردنگیں شاہین بجیں

نہ پیارے اوپر اوپر مال ہر صبح مسا چکھو

نہ سمجھو تم کہ میں دیوانہ ویرانے میں رہتا ہوں

پٹرے دھرے ہیں سر پر دریا کے پاٹ والے

رات کے رہنے کا نہ ڈر کیجیے

شب شوق لے گیا تھا ہمیں اس کے گھر تلک

دوکان مے فروش پہ گر آئے محتسب

جب سے صانع نے بنایا ہے جہاں کا بہروپ

نے شہریوں میں ہیں نہ بیابانیوں میں ہم

کہیں مغز اس کے میں صبح دم تری بوئے زلف رسا گئی

اس گلشن پر خار سے مانند صبا بھاگ

ہر چند کہ بات اپنی کب لطف سے خالی ہے

شب ہم کو جو اس کی دھن رہی ہے

اس کے کوچے کی طرف تھا شب جو دنگا آگ کا

دل کے نگر میں چار طرف جب غم کی دہائی بیٹھ گئی

یارب آباد ہوویں گھر سب کے

نے زخم خوں چکاں ہوں نہ حلق بریدہ ہوں

طرح اولے کی جو خلقت میں ہم آبی ہوتے

خوش طالعی میں شمس و قمر دونوں ایک ہیں

ایک تو بیٹھے ہو دل کو مرے کھو اور سنو

تم گرم ملے ہم سے نہ سرما کے دنوں میں

پس قافلہ جو غبار تھا کوئی اس میں ناقہ سوار تھا

سدھاری قوت دل تاب اور طاقت سے کہہ دیجو

سیراب آب جو سے قدح اور قدح سے ہم

چکھی نہ جس نے کبھی لذت سنان نگاہ

در تلک جانے کی ہے اس کے مناہی ہم کو

رحمت تری اے ناقہ کش محمل حاجی

سامنے آنکھوں کے ہر دم تری تمثال ہے آج

ہے تمنائے سیر باغ کسے

تماشے کی شکلیں عیاں ہو گئی ہیں

ہر دم آتے ہیں بھرے دیدۂ گریاں تجھ بن

جوں ہی زنجیر کے پاس آئے پاؤں

تم بھی آؤگے مرے گھر جو صنم کیا ہوگا

بوئیے مزرع دل میں جو عنایات کے بیج

منہ میں جس کے تو شب وصل زباں دیتا ہے

اس مرگ کو کب نہیں میں سمجھا

دل میں مرغان چمن کے تو گماں اور ہی ہے

در تلک آ کے ٹک آواز سنا جاؤ جی

لیکھے کی یاں بہی نہ زر و مال کی کتاب

یک نالۂ عاشقانہ ہے یاں

جلوہ گر اس کا سراپا ہے بدن آئنے میں

نرمیٔ بالش پر ہم کو نہیں بھاتی ہے

نخل لالے جا جب زمیں سے اٹھا

گر ہم سے نہ ہو وہ دل ستاں ایک

ہر چند بہار و باغ ہے یہ

ناتوانی کے سبب یاں کس سے اٹھا جائے ہے

اس کے خط میں جو لکھا غیر کا میں نام الٹا

یہ جو اپنے ہاتھ میں دامن سنبھالے جاتے ہیں

ایسا بھی کوئی کرے ہے خلل ملک دیں میں بت

او میاں بانکے ہے کہاں کی چال

جو پھرا کے اس نے منہ کو بہ قفا نقاب الٹا

یہ دم اس کے وقت رخصت بہ صد اضطراب الٹا

Pakistanify News Subscription

X