شب غم کو سحر کرنا پڑے گا
شہزاد احمد

شب غم کو سحر کرنا پڑے گا

قیامت تک سفر کرنا پڑے گا

سوا نیزے پہ سورج آ گیا ہے

یہ دن بھی اب بسر کرنا پڑے گا

یہ آنکھیں سیپیاں ہیں اس لئے بھی

ہر آنسو کو گہر کرنا پڑے گا

بہت لوٹا ہے دل کو آگہی نے

اسے اب بے خبر کرنا پڑے گا

کہاں تک در بدر پھرتے رہیں گے

تمہارے دل میں گھر کرنا پڑے گا

ستارے کج روی پر آ گئے ہیں

جہاں زیر و زبر کرنا پڑے گا

محبت کام ہی ایسا ہے شہزادؔ

نہ چاہیں گے مگر کرنا پڑے گا

Pakistanify News Subscription

X