عطاء نے کہا: سنا میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اور میرے ساتھ کئی شخص تھے کہ انہوں نے کہا کہ لبیک پکاری ہم سب اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فقط حج کی اور کہا عطاء نے کہا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے، پھر آئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم چوتھی ذوالحجہ کی صبح کو اور ہم کو حکم فرمایا کہ ہم احرام کھول ڈالیں۔ عطاء نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ احرام کھول ڈالو اور عورتوں کے پاس جاؤ۔“ اور عطاء نے کہا: یہ حکم ان کو وجوب کے طور پر نہیں دیا بلکہ احرام کھولنا ان کو جائز کر دیا، پھر ہم نے کہا کہ اب عرفہ میں پانچ ہی دن باقی ہیں کہ حکم کیا ہم کو کہ ہم صحبت کریں اپنی عورتوں سے اور عرفات میں جائیں اس طرح سے کہ ہمارے آلتوں سے منی ٹپکتی ہو، کہا عطاء نے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے اور گویا کہ اب دیکھ رہا ہوں ان کے ہاتھ جیسے وہ ہلاتے تھے (یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس عذر کی راہ سے احرام کھولنے میں تامل کیا) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بیچ میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: تم بخوبی جان چکے ہو کہ میں تم سے زیادہ نیک ہوں (پھر میرے حکم بجا لانے میں کیا تامل ہے؟) اور اگر میرے ساتھ میری ہدی نہ ہوتی تو میں بھی احرام کھول ڈالتا جیسے تم کھول رہے ہو اور اگر مجھے پہلے سے یہ بات معلوم ہوتی جو بعد کو معلوم ہوئی تو میں ہدی ساتھ نہ لاتا۔“ غرض پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے احرام کھول ڈالا اور ہم سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی اور دل سے مان لی۔ عطاء نے کہا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر آئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ (اموال صدقات کی تحصیل لے کر جس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھیجا تھا یمن کی طرف اور حقیقت میں یہ وہاں امیر ہو کر گئے تھے، نہ صدقات کی تحصیل کے لیے اور شاید عاملوں نے ان کے سپرد کر دئیے ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیں ورنہ اموال صدقات بنی ہاشم کو لینا روا نہیں) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”تم نے کیا احرام باندھا؟“ انہوں نے عرض کی کہ جو اہلال ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا (یعنی میں نے لبیک میں یہی کہا کہ جو لبیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو وہی میری ہے) کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ”قربانی کرو اور محرم رہو۔“ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہدی لائے، سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ۔ اور سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ حکم (یعنی حج کو فسخ کر دینا عمرہ کر کے) ہمارے اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے یہ امر جائز ہو گیا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ ہمیشہ کے لیے ہے۔“
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، قَالَ : سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي نَاسٍ مَعِي ، قَالَ : أَهْلَلْنَا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ خَالِصًا وَحْدَهُ ، قَالَ عَطَاءٌ قَالَ جَابِرٌ : فَقَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صُبْحَ رَابِعَةٍ مَضَتْ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ ، فَأَمَرَنَا أَنْ نَحِلَّ ، قَالَ عَطَاءٌ : قَالَ " حِلُّوا وَأَصِيبُوا النِّسَاءَ " ، قَالَ عَطَاءٌ : وَلَمْ يَعْزِمْ عَلَيْهِمْ وَلَكِنْ أَحَلَّهُنَّ لَهُمْ ، فَقُلْنَا لَمَّا لَمْ يَكُنْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَةَ إِلَّا خَمْسٌ ، أَمَرَنَا أَنْ نُفْضِيَ إِلَى نِسَائِنَا ، فَنَأْتِيَ عرَفَةَ تَقْطُرُ مَذَاكِيرُنَا الْمَنِيَّ ، قَالَ : يَقُولُ جَابِرٌ : بِيَدِهِ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى قَوْلِهِ بِيَدِهِ يُحَرِّكُهَا ، قَالَ : فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا ، فَقَالَ : " قَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي أَتْقَاكُمْ لِلَّهِ وَأَصْدَقُكُمْ وَأَبَرُّكُمْ وَلَوْلَا هَدْيِي لَحَلَلْتُ كَمَا تَحِلُّونَ ، وَلَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أَسُقْ الْهَدْيَ ، فَحِلُّوا " ، فَحَلَلْنَا وَسَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ، قَالَ عَطَاءٌ : قَالَ جَابِرٌ : فَقَدِمَ عَلِيٌّ مِنْ سِعَايَتِهِ ، فَقَالَ : " بِمَ أَهْلَلْتَ ؟ " ، قَالَ : بِمَا أَهَلَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " فَأَهْدِ وَامْكُثْ حَرَامًا " ، قَالَ : وَأَهْدَى لَهُ عَلِيٌّ هَدْيًا ، فَقَالَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِأَبَدٍ ؟ ، فَقَالَ : " لِأَبَدٍ " .