سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے چچا جن کے نام پر میرا نام رکھا گیا ہے (یعنی ان کا نام بھی انس تھا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے یہ امر ان پر بہت دشوار گزرا اور انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی لڑائی میں غائب رہا اب اگر اللہ تعالیٰ دوسری کوئی لڑائی میں مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کرے گا تو اللہ تعالیٰ دیکھے گا میں کیا کرتا ہوں اور ڈرے اس کے سوا اور کچھ کہنے سے (یعنی اور کچھ دعویٰ کرنے سے کہ میں ایسا کروں گا ویسا کروں گا کیونکہ شاید نہ ہو سکے اور جھوٹے ہوں) پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے احد کی لڑائی میں تو سعد بن معاذ ان کے سامنے آئے اور انہوں نے کہا: اے ابوعمرو (یہ کنیت تھی انس بن النضر بن ضمضم انصاری کی جو چچا تھے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے) کہاں جاتے ہو؟ انہوں نے کہا: افسوس جنت کی ہوا احد کی طرف سے مجھے آ رہی ہے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر وہ لڑے کافروں سے یہاں تک کہ شہید ہوئے (لڑائی کے بعد دیکھا) تو ان کے بدن پر اسی سے زائد زخم تھے تلوار، برچھی اور تیر کے، ان کی بہن یعنی میری پھوپھی ربیع بنت نضر نے کہا: میں نے اپنے بھائی کو نہیں پہچانا مگر ان کی پوریں انگلیوں کی دیکھ کر (کیونکہ سارا بدن جسم زخموں سے چور چور ہو گیا تھا) اور یہ آیت «رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلاً» (الأحزاب: ۲۳) (یعنی وہ مرد جنہوں نے پورا کیا اپنا اقرار اللہ سے۔۔۔ بعض تو اپنا کام کر چکے اور بعض انتظار کر رہے ہیں) صحابہ کہتے تھے: ان کے اور ان کے ساتھیوں کے باب میں اتری۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ : قَالَ أَنَسٌ : " عَمِّيَ الَّذِي سُمِّيتُ بِهِ لَمْ يَشْهَدْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدْرًا ، قَالَ : فَشَقَّ عَلَيْهِ ، قَالَ : أَوَّلُ مَشْهَدٍ شَهِدَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : غُيِّبْتُ عَنْهُ وَإِنْ أَرَانِيَ اللَّهُ مَشْهَدًا فِيمَا بَعْدُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَرَانِي اللَّهُ مَا أَصْنَعُ ، قَالَ : فَهَابَ أَنْ يَقُولَ غَيْرَهَا ، قَالَ : فَشَهِدَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ ، قَالَ : فَاسْتَقْبَلَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ ، فَقَالَ لَهُ أَنَسٌ : يَا أَبَا عَمْرٍ وَأَيْنَ ؟ ، فَقَالَ : وَاهًا لِرِيحِ الْجَنَّةِ أَجِدُهُ دُونَ أُحُدٍ ، قَالَ : فَقَاتَلَهُمْ حَتَّى قُتِلَ ، قَالَ : فَوُجِدَ فِي جَسَدِهِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ مِنْ بَيْنِ ضَرْبَةٍ وَطَعْنَةٍ وَرَمْيَةٍ ، قَالَ : فَقَالَتْ أُخْتُهُ عَمَّتِيَ الرُّبَيِّعُ بِنْتُ النَّضْرِ : " فَمَا عَرَفْتُ أَخِي إِلَّا بِبَنَانِهِ ، وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلا سورة الأحزاب آية 23 ، قَالَ : فَكَانُوا يُرَوْنَ أَنَّهَا نَزَلَتْ فِيهِ وَفِي أَصْحَابِهِ " .