آبرو شاہ مبارک

1685 - 1733
دلی, انڈیا
اردو شاعری کے بنیاد سازوں میں سے ایک، میر تقی میر کے ہم عصر
آج یاروں کو مبارک ہو کہ صبح عید ہے

عشق ہے اختیار کا دشمن

اگر انکھیوں سیں انکھیوں کو ملاؤ گے تو کیا ہوگا

عاشق بپت کے مارے روتے ہوئے جدھر جاں

دلی کے بیچ ہائے اکیلے مریں گے ہم

مت غضب کر چھوڑ دے غصہ سجن

تمہارے لوگ کہتے ہیں کمر ہے

کیا شوخ اچپلے ہیں تیرے نین ممولا

مگر تم سیں ہوا ہے آشنا دل

بڑھے ہے دن بدن تجھ مکھ کی تاب آہستہ آہستہ

اگر دل عشق سیں غافل رہا ہے

دل ہے ترے پیار کرنے کوں

زندگانی سراب کی سی طرح

اور واعظ کے ساتھ مل لے شیخ

آشنائی بزور نئیں ہوتی

قیامت راگ ظالم بھاؤ کافر گت ہے اے پنّا

کس کی رکھتی ہیں یہ مجال انکھیاں

فجر اٹھ خواب سیں گلشن میں جب تم نے ملی انکھیاں

یار روٹھا ہے ہم سیں منتا نہیں

کیوں ملامت اس قدر کرتے ہو بے حاصل ہے یہ

جلتے تھے تم کوں دیکھ کے غیر انجمن میں ہم

گلی اکیلی ہے پیارے اندھیری راتیں ہیں

دل نیں پکڑی ہے یار کی صورت

کہو تم کس سبب روٹھے ہو پیارے بے گنہ ہم سیں

تمہاری جب سیں آئی ہیں سجن دکھنے کو لال انکھیاں

یا سجن ترک ملاقات کرو

اس زلف جاں کوں صنم کی بلا کہو

آیا ہے صبح نیند سوں اٹھ رسمسا ہوا

نپٹ یہ ماجرا یارو کڑا ہے

کوئل نیں آ کے کوک سنائی بسنت رت

نالاں ہوا ہے جل کر سینے میں من ہمارا

یہ تری دشنام کے پیچھے ہنسی گل زار سی

گناہ گاروں کی عذر خواہی ہمارے صاحب قبول کیجے

گرچہ اس بنیاد ہستی کے عناصر چار ہیں

دیکھو تو جان تم کوں مناتے ہیں کب سیتی

سرسوں لگا کے پاؤں تلک دل ہوا ہوں میں

پلنگ کوں چھوڑ خالی گود سیں جب اٹھ گیا میتا

شوق بڑھتا ہے مرے دل کا دل افگاروں کے بیچ

کیا بری طرح بھوں مٹکتی ہے

کماں ہوا ہے قد ابرو کے گوشہ گیروں کا

محبت سحر ہے یارو اگر حاصل ہو یک روئی

دشمن جاں ہے تشنۂ خوں ہے

دیکھ تو بے رحم عاشق نیں تجھے چھوڑا نہیں

ہمارے سانولے کوں دیکھ کر جی میں جلی جامن

چنچلاہٹ میں تو ممولا ہے

کنھیا کی طرح پیارے تری انکھیاں یہ سانوریاں

انسان ہے تو کبر سیں کہتا ہے کیوں انا

نگہ تیری کا اک زخمی نہ تنہا دل ہمارا ہے

یہ باؤ کیا پھری کہ تری لٹ پلٹ گئی

یاد خدا کر بندے یوں ناحق عمر کوں کھونا کیا

ہے ہمن کا شام کوئی لے جا

نہ پاوے چال تیرے کی پیارے یہ ڈھلک دریا

یہ سبزہ اور یہ آب رواں اور ابر یہ گہرا

خدا کے واسطے اے یار ہم سیں آ مل جا

ہم نیں سجن سنا ہے اس شوخ کے دہاں ہے

بہار آئی گلی کی طرح دل کھول

کہیں کیا تم سوں بے درد لوگو کسی سے جی کا مرم نہ پایا

رتا ہے ابرواں پر ہاتھ اکثر لاوبالی کا

کیوں بند سب کھلے ہیں کیوں چیر اٹپٹا ہے

تیرہ رنگوں کے ہوا حق میں یہ تپ کرنا دوا

رکھے کوئی اس طرح کے لالچی کو کب تلک بہلا

شب سیاہ ہوا روز اے سجن تجھ بن

مت مہر سیتی ہاتھ میں لے دل ہمارے کوں

طوفاں ہے شیخ قہریا ہے

جال میں جس کے شوق آئی ہے

ہوا ہوں دل سیتی بندا پیا کی مہربانی کا

نہیں گھر میں فلک کے دل کشائی

حسن پر ہے خوب رویاں میں وفا کی خو نہیں

خورشید رو کے آگے ہو نور کا سوالی

سیر بہار حسن ہی انکھیوں کا کام جان

سانپ سر مار اگر جو جاوے مر

جلتے ہیں اور ہم سیں جب مانگتے ہو پیالہ (ردیف .. ا)

Pakistanify News Subscription

X