غلام محمد قاصر

1941 - 1999
ڈیرہ اسمٰعیل خان, پاکستان
پاکستان کے مقبول اور ممتاز شاعر
بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا

کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا

بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو

کہیں لوگ تنہا کہیں گھر اکیلے

شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے

گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے گھر کا سناٹا کہتا ہے

یاد اشکوں میں بہا دی ہم نے

ہم نے تو بے شمار بہانے بنائے ہیں

نظر نظر میں ادائے جمال رکھتے تھے

ہر ایک پل کی اداسی کو جانتا ہے تو آ

محبت کی گواہی اپنے ہونے کی خبر لے جا

پہلے اک شخص میری ذات بنا

بن میں ویراں تھی نظر شہر میں دل روتا ہے

اکیلا دن ہے کوئی اور نہ تنہا رات ہوتی ہے

رات اس کے سامنے میرے سوا بھی میں ہی تھا

عکس کی صورت دکھا کر آپ کا ثانی مجھے

ہجر کے تپتے موسم میں بھی دل ان سے وابستہ ہے

بیاباں دور تک میں نے سجایا تھا

کتاب آرزو کے گم شدہ کچھ باب رکھے ہیں

سوئے ہوئے جذبوں کو جگانا ہی نہیں تھا

آفاق میں پھیلے ہوئے منظر سے نکل کر

لب پہ سرخی کی جگہ جو مسکراہٹ مل رہے ہیں

خاموش تھے تم اور بولتا تھا بس ایک ستارہ آنکھوں میں

آنکھ سے بچھڑے کاجل کو تحریر بنانے والے

ملنے کی ہر آس کے پیچھے ان دیکھی مجبوری تھی

خواب کہاں سے ٹوٹا ہے تعبیر سے پوچھتے ہیں

سوتے ہیں وہ آئینہ لے کر خوابوں میں بال بناتے ہیں

پھر وہی کہنے لگے تو مرے گھر آیا تھا

اپنے اشعار کو رسوا سر بازار کروں

یوں تو صدائے زخم بڑی دور تک گئی

پھر وہ دریا ہے کناروں سے چھلکنے والا

وہ بے دلی میں کبھی ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں

گلابوں کے نشیمن سے مرے محبوب کے سر تک

بن سے فصیل شہر تک کوئی سوار بھی نہیں

یہ جہاں نورد کی داستاں یہ فسانہ ڈولتے سائے کا

ذہن میں دائرے سے بناتا رہا دور ہی دور سے مسکراتا رہا

رات کا ہر اک منظر رنجشوں سے بوجھل تھا

وعدے یخ بستہ کمروں کے اندر گرتے ہیں

پھر تو اس بے نام سفر میں کچھ بھی نہ اپنے پاس رہا

سب رنگ ناتمام ہوں ہلکا لباس ہو

سینہ مدفن بن جاتا ہے جیتے جاگتے رازوں کا

کچھ بے ترتیب ستاروں کو پلکوں نے کیا تسخیر تو کیا

Pakistanify News Subscription

X