نذیر قیصر

1945
لاہور, پاکستان
null
میری آنکھوں کو مری شکل دکھا دے کوئی

کیسا تارا ٹوٹا مجھ میں

پیچھے مڑ کے دیکھنا اچھا لگا

آج دریچے میں وہ آنا بھول گیا

چاند کو پورا ہونے دو

رات کنارا دریا دن

کبھی ہنس کر کبھی آنسو بہا کر دیکھ لیتا ہوں

پیالے میں جو پانی ہے

یہ تیرے مرے ہاتھ

نیند جب خواب کو پکارتی ہے

پہلے انکار بہت کرتا ہے

دعا کا پھول پڑا رہ گیا ہے تھالی میں

وہ آیا تو اتنا پیار دے گا

جاگتے ہیں سوتے ہیں

میں راکھ ہوتا گیا اور چراغ جلتا رہا

کون ہوں کیوں زندہ ہوں سوچتا رہتا ہوں

گلیاں اداس کھڑکیاں چپ در کھلے ہوئے

دیا جلایا دونوں نے

مٹی سے کچھ خواب اگانے آیا ہوں

تجھ کو لکھنا ہے تو ایسا کوئی صفحہ لکھ دے

وہ بستر میں پڑی رہی

گھروں میں سبزہ چھتوں پر گل سحاب لیے

ساحل کی ریت چاند کے منہ پر نہ ڈالیے

آنکھیں کس کا کھوج لگاتی رہتی ہیں

شاخ میں سبزہ دھوپ میں سایہ واپس آیا

جب کھلا بادبان ہاتھوں میں

ہر نقش ہے وجود فنا میرے سامنے

تنگ ہوئی جاتی ہے زمیں انسانوں پر

خاک اگاتی ہیں صورتیں کیا کیا

خواب کیا تھا جو مرے سر میں رہا

مٹی پہ کوئی نقش بھی ابھرا نہ رہے گا

دل تنگ ہوں مکان کے اندر پڑا ہوا

پرانی مٹی سے پیکر نیا بناؤں کوئی

موڑ مہاراں آ گھر سائیں

Pakistanify News Subscription

X