Chapter 116, Jild 116 of Muslim in Urdu & English translation. In this chapter, Imam Bukhari has discussed the Revelation related Hadees. There are total 607 Hadith in this chapter, all hadees are given by the hadees numbers and proper reference to keep it authentic. You can search the hadees of this Jild or other chapters easily in Arabic, Urdu or English text.
حدیث نمبر 1
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ محرم کیا پہنے کپڑوں کی قسم سے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کرتے نہ پہنو، نہ عمامے باندھو، نہ پاجامے پہنو، نہ باران کوٹ اوڑھو، نہ موزے پہنو، مگر جو چپل نہ پائے وہ موزہ پہنے مگر ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ ڈالے۔ اور نہ پہنو وہ کپڑے جو زعفران لگی ہو یا ورس میں رنگا ہوا ہو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 2
سالم نے اپنے باپ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ محرم کیا پہنے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کرتا اور عمامہ اور باران کوٹ اور پاجامہ نہ پہنے۔ نہ وہ کپڑا جس میں ورس اور زعفران لگی ہو نہ موزے اور اگر جوتے نہ ہوں تو موزے پہنے اور اس کو ٹخنوں تک کاٹ دے۔“ (کہ جوتی کی طرح ہو جائے)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 3
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا محرم کو کہ زعفران اور ورس کا رنگا ہوا کپڑا پہنے اور فرمایا: ”جو نعلین نہ پائے وہ موزے پہن لے ٹخنوں سے نیچے کاٹ کر۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 4
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پاجامہ اس کے لیے ہے جو تہبند نہ پائے اور موزہ اس کے لیے جو نعلین نہ پائے۔ یعنی محرم ہو۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 5
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 6
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے لیکن اس میں یہ ذکر نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں خطبہ دے رہے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 7
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو نعلین نہ پائے، موزے پہنے اور جو ازار یعنی تہبند نہ پائے وہ سراویل یعنی پاجامہ پہنے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 8
سیدنا یعلیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں تھے اور وہ ایک جبہ پہنے ہوئے تھا اور اس پر کچھ خوشبو لگی ہوئی تھی یا کہا کہ کچھ اثر زردی کا تھا اور اس نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے عمرے میں کیا حکم فرماتے ہیں؟ اور اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترنے لگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑا اوڑھ لیا اور یعلیٰ کہتے تھے کہ مجھے آرزو تھی کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھوں جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی ہو، پھر کہا سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے کہ کیا تم چاہتے ہو کہ دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی ہو، پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کپڑے کا کونہ اٹھا دیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ ہانپتے اور خراٹے لیتے تھے۔ راوی نے کہا: میں گمان کرتا ہوں کہ انہوں نے کہا: جیسے جوان اونٹ ہانپتا ہو پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی تمام ہو چکی تو فرمایا: ”کہاں ہے وہ سائل عمرہ کا۔“ اور فرمایا: ”دھو ڈالو اثر زردی کا اپنے کپڑے وغیرہ سے۔ یا فرمایا: ”اثر خوشبو وغیرہ کا اور اتار ڈالو اپنا کرتہ اور عمرہ میں وہی کرو جو حج میں کرتے ہو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 9
سیدنا یعلیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں تھے اور یعلیٰ کہتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا اور وہ سائل جو آیا تھا کرتا پہنے ہوئے تھا اور اس میں خوشبو لگی ہوئی تھی یا ورس، اس نے عرض کیا کہ میں نے احرام باندھا ہے عمرہ کا اور اس پر بھی میں خوشبو لگائے ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم حج میں کیا کرتے ہو؟۔“ تو اس نے کہا کہ میں یہ کپڑے اتار ڈالتا ہوں اور یہ خوشبو دھو ڈالتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو تم حج میں کرتے ہو وہی عمرہ میں کرو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 10
سیدنا یعلیٰ رضی اللہ عنہ ہمیشہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا کرتے تھے کہ کبھی میں دیکھتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر وحی اترتی ہے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ایک کپڑے کا سایہ کیا گیا تھا اور آپ کے ساتھ چند صحابہ تھے کہ ان میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے کہ ایک شخص آیا ایک کرتا پہنے ہوئے کہ اس میں خوشبو لگی ہوئی تھی اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کا حکم کیا ہے؟ اس کے لیے جو احرام باندھے عمرہ کا ایک کرتے میں کہ اس میں خوشبو لگی ہو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف نظر کی تھوڑی دیر اور چپ ہو رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آئی اور اشارہ کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے ہاتھ سے سیدنا یعلیٰ رضی اللہ عنہ کو کہ آؤ اور یعلیٰ آئے اور اپنا سر اندر کپڑے کے ڈالا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہو رہا ہے اور آپ لمبے لمبے سانس لے رہے ہیں پھر وہ کیفیت کھل گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہاں ہے وہ سائل جو مجھ سے عمرہ کا حکم ابھی پوچھتا تھا۔“ پھر وہ ڈھونڈا گیا اور اس کو لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خوشبو تو دھو ڈالو تین بار (کہ اثر نہ رہے) اور جبہ اتار دے اور باقی وہی کر اپنے عمرہ میں جو حج میں کرتا ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 11
سیدنا یعلیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے اہلال کیا تھا ساتھ عمرہ کے اور اس کی داڑھی اور سر میں زردی لگی تھی یعنی خوشبو کی اور اس پر ایک کرتا تھا پھر اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس نے احرام باندھا ہے عمرہ کا اور میں اس حال میں ہوں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی حکم دیا جو پہلے مذکور ہوا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 12
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 13
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میقات مقرر کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ اور اہل شام کے لیے حجفہ اور اہل نجد والوں کے لیے قرن اور اہل یمن کے لیے یلملم اور فر مایا:"یہ سب مقاتیں ان لوگوں کے لیے بھی ہیں جو ان ملکوں میں رہتے ہیں اور ان کے لیے بھی ہیں جو اور ملکوں سے وہاں آئیں جو حج کا ارادہ رکھتے ہوں یا عمرہ کا پھر جو ان میقاتوں کے اندر رہنے والے ہوں یعنی مکہ سے قریب تو وہ وہیں سے احرام باندھیں یہاں تک کہ اہل مکہ، مکہ سے اہلال پکاریں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 14
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 15
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے تین میقاتوں کا بیان ویسا ہی کیا اور کہا کہ مجھے پہنچا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ اہل یمن یلملم سے اہلال کریں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 16
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ اور شام اور نجد والوں کی میقات ویسی ہی روایت کی اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ لوگوں نے ذکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میقات اہل یمن کی یلملم ہے۔“ مگر میں نے خود ان سے نہیں سنا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 17
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ والے ذی الحلیفہ سے اور شام والے جحفہ سے اور نجد والے قرن سے احرام باندھیں۔“ اور کہا سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہ مجھے خبر لگی کہ ”یمن والے یلملم سے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 18
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے سوال کیا گیا احرام باندھنے والے کے بارے میں تو آپ نے کہا: میں نے ان سے سنا۔ پھر راوی ابوزبیر خاموش ہو گئے اور کہا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ انہوں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 19
سالم نے اپنے باپ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ والے ذوالحلیفہ سے اور شام والے جحفہ سے، نجد والے قرن سے اہلال کریں۔“ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مجھے پہنچا ہے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہلال کریں یمن والے یلملم سے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 20
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے وہی مواقیت مرفوعاً بیان کیے اور مدینہ کی ایک میقات ذوالحلیفہ کہی۔ دوسری راہ سے جحفہ کہی باقی وہی ہیں جو اوپر مذکور ہوئیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 21
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ لبیک پکارنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تھا «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ» تک یعنی ”حاضر ہوں میں تیری خدمت میں، یا اللہ! حاضر ہوں میں تیری خدمت میں، حاضر ہوں میں، کوئی شریک نہیں تیرا، حاضر ہوں میں، بیشک سب تعریف اور نعمت تیرے لیے ہے اور ملک تیرا ہی ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں۔“ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ان میں کلمات زیادہ پڑھتے تھے «لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ بِيَدَيْكَ لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ» تک یعنی ”میں حاضر ہوں تیری خدمت میں اور حاضر ہوں تیری خدمت میں اور سعادت سب تیری ہی طرف سے ہے اور خیر تیرے ہی دونوں ہاتھوں میں ہے حاضر ہوں میں تیرے آگے اور رغبت کرتا ہوں میں تیری ہی طرف اور عمل تیرے لیے ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 22
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سوار ہوئے اونٹنی پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر مسجد ذوالحلیفہ کے نزدیک سیدھی کھڑی ہو گئی تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک پکار دی پھر لبیک ذکر کی «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ» اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ یہ لبیک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور اس میں وہی الفاظ بڑھاتے تھے جو اوپر ہو چکے مگر اس میں لبیک کا لفظ ابتداء میں دوبار تھا اور اس میں تین بار ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 23
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تلبیبہ سیکھا ہے۔ پھر اسی طرح حدیث ذکر فرمائی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 24
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ لبیک پکارتے تھے تلبید کئے ہوئے سر میں اور کہتے تھے لبیک سے آخر تک اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ میں دو رکعت پڑھیں پھر جب ان کی اونٹنی ان کو لے کر سیدھی کھڑی ہوئی مسجد ذوالحلیفہ کے پاس تو انہی کلمات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک پکاری اور عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات لبیک پکارتے تھے اور اس کے بعد یہ کلمات زیادہ کرتے تھے لبیک سے آخر تک اور معنی ان سب کے اوپر گزر گئے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 25
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مشرکین مکہ کہتے تھے «لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ» تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”خرابی ہو تمہاری یہیں تک رہنے دو۔“ (یعنی آگے نہ کہو) اور وہ اس کے آگے کہتے تھے کہ مگر ایک شریک ہے تیرا کہ یا اللہ! تو اس کا مالک ہے اور وہ کسی شئے کا مالک نہیں۔ غرض یہی کہتے جاتے تھے اور بیت اللہ کا طواف کرتے جاتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 26
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ یہ بیداء تمہارا وہی مقام ہے جہاں جھوٹ باندھتے ہو تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک نہیں پکاری مگر مسجد ذوالحلیفہ کے نزدیک سے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 27
سالم نے کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جب کہا جاتا کہ احرام بیداء سے ہے تو وہ فرماتے کہ وہی بیداء جس پر تم جھوٹ باندھتے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو لبیک پکاری ہے اس درخت کے پاس جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اونٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر سیدھا کھڑا ہوا ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 28
عبید بن جریج نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ اے ابو عبدالرحمٰن! میں نے تم کو چار باتیں کرتے دیکھا ہے کہ تمہارے اور یاروں میں سے کسی کو کرتے نہیں دیکھا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ”وہ کیا ہیں؟“ اے بیٹے جریج کے!“ انہوں نے کہا: اول تو میں تم کو دیکھتا ہوں کہ تم کعبہ کے کونوں میں سے طواف کے وقت ہاتھ نہیں لگاتے ہو مگر دو کونوں میں جو یمن کی طرف ہیں دوسرے تم نعال سبتی پہنتے ہو، تیسرے داڑھی رنگتے ہو زردی سے (یعنی زعفران و ورس وغیرہ سے) چوتھے جب تم مکہ میں ہوتے ہو تو لوگ چاند دیکھ کر لبیک پکارتے ہیں اور تم یوم الترویہ یعنی آٹھویں تاریخ ذی الحجہ کی لبیک پکارتے ہو۔ پس سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ سنو ارکان کو تو میں نے نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھوتے ہوں سوا ان کے جو یمن کی طرف ہیں اور نعال سبتی تو میں نے دیکھا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ ایسی نعل پہنتے تھے جس میں بال نہ ہوں اور اسی میں وضو کرتے تھے (یعنی وضو کر کے گیلے پیر میں اسی کو پہن لیتے تھے) سو میں بھی دوست رکھتا ہوں کہ اس کو پہنوں، رہی زردی تو میں نے دیکھا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ اس سے رنگتے تھے (یعنی بالوں کو یا کپڑوں کو) تو میں دوست رکھتا ہوں کہ اس سے رنگوں اور لبیک سو میں نے نہیں دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک پکاری ہو مگر جب کہ اونٹنی آپ کو سوار کر کے اٹھی (یعنی مسجد ذوالحلیفہ کے پاس)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 29
عبید بن جریج نے کہا: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ساتھ دیا حج میں قریب بارہ حج و عمرے کے اور میں نے ان سے اسی چار باتوں کا ذکر کیا اور وہی مضمون روایت کیا جو اوپر گزرا مگر اہلال کے بارے میں انہوں نے مقبری کے خلاف روایت کی اور مضمون روایت کیا سوا اس مضون کے جو اوپر گزرا تھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 30
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب رکاب میں پیر رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی اٹھی ذوالحلیفہ میں تب لبیک پکارا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 31
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خبر دیتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک پکاری جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر کھڑی ہوئی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 32
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 33
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شب کو ذوالحلیفہ میں رہے حج کے ابتداء میں اور نماز پڑھی اس کی مسجد میں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 34
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے خوشبو لگائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام کے لیے جب احرام باندھا اور اس کے حلال کے لیے قبل طواف افاضہ کے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 35
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 36
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 37
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ خوشبو لگائی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام کھولنے کے لیے بھی اور باندھنے کے لیے بھی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 38
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاتھوں سے خوشبو لگائی ذریرہ سے (اور وہ ایک قسم کی خوشبو ہے نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ہند سے آتی ہے) حجتہ الودع میں احرام اور حل کے لیے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 39
عروہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آپ نے کون سی خوشبو لگائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام کے وقت؟ تو انہوں نے فرمایا: سب سے عمدہ خوشبو (یعنی مسک جیسے آگے آتا ہے)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 40
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں جس قدر اچھی خوشبو ممکن ہو سکتی تھی لگاتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبل احرام کے پھر احرام باندھتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 41
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے خوشبو لگائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام کے قبل اور ان کے احرام کھولنے کے وقت قبل اس کے وہ طواف افاضہ کریں عمدہ خوشبو جو پائی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 42
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: گویا میں ابھی دیکھ رہی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ میں چمک خوشبو کی اور وہ احرام باندھے ہوئے تھے اور خلف جو راوی ہیں انہوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ احرام باندھے ہوئے تھے مگر یہ کہ وہ خوشبو تھی ان کے احرام کی (یعنی جو احرام کے قبل لگائی تھی)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 43
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں گویا دیکھ رہی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ میں چمک خوشبو کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم لبیک پکار رہے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 44
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 45
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں گویا کہ میں دیکھ رہی ہوں۔ آگے حدیث اسی طرح ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 46
ترجمہ وہی جو اوپر گزرا لیکن اس میں لبیک پکارنے کے بجائے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالت احرام میں تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 47
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ گویا میں دیکھتی ہوں چمک مشک کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام میں ہیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 48
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ارادہ کرتے احرام کا تو عمدہ سے عمدہ خوشبو لگاتے جو پاتے، پھر میں دیکھتی تھی چمک تیل کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اور داڑھی میں احرام باندھنے کے بعد۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 49
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ گویا میں دیکھتی ہوں چمک مشک کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام میں ہیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 50
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 51
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں خوشبو لگاتی تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قبل احرام کے اور نحر کے دن (یعنی بعد رمی جمرہ عقبہ کے) قبل اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طواف افاضہ کریں بیت اللہ کا اور اس خوشبو میں مسک ہوتا تھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 52
محمد منتشر کے بیٹے نے کہا: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ جو شخص خوشبو لگائے اور صبح کو احرام باندے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں خوب نہیں جانتا کہ صبح کو احرام باندھوں ایسے حال میں کہ خوشبو جھاڑتا ہوں اور اگر میں ڈانبر اپنے اوپر مل لوں تو مجھے اس سے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ میں خوشبو لگاؤں پھر میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور ان سے یہ سب کہا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ”میں نے خوشبو لگائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے احرام کے قریب اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سب بیبیوں سے صحبت کی پھر صبح احرام باندھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 53
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں خوشبو لگاتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں رضی اللہ عنہن پر طواف کرتے تھے (یعنی سب سے صحبت کرتے تھے) پھر صبح کو احرام باندھتے اور خوشبو جھڑتی تھی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 54
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں ڈانبر لگانے کو زیادہ پسند کرتا ہوں اس بات سے کہ میں خوشبو جھاڑوں صبح کو محرم ہونے کی حالت میں۔ آپ نے کہا: میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور ان سے یہ بات پوچھی تو انہوں نے فرمایا: میں خوشبو لگاتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے پاس جاتے اور آپ صبح کرتے محرم ہونے کی حالت میں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 55
سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جنگلی گدھا ہدیہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابواء یا ودان میں تھے (کہ مقام کا نام ہے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھیر دیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا ان کے چہرے کا ملال تو فرمایا: ”ہم نے کسی اور وجہ سے نہیں پھیرا اتنا ہے کہ ہم لوگ احرام باندھے ہوئے تھے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 56
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 57
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 58
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا ہے۔ مگر اس میں ہے کہ ”اگر ہم احرام باندھے ہوئے نہ ہوتے تو آپ کا ہدیہ قبول کرتے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 59
حکم نے کہا: سیدنا صعب رضی اللہ عنہ نے حمار وحشی کا پیر ہدیہ دیا اور شعبہ نے حکم سے روایت کیا کہ سرین حمار وحش کی، اس میں خون ٹپکتا تھا اور شعبہ کی روایت حبیب سے یوں ہے کہ ایک ٹکڑا حمار وحش کا ہدیہ دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھیر دیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 60
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ آئے اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان کو یاد دلا کر کہا کہ تم نے کیونکر خبر دی تھی لحم صید کی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ دیا گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھے ہوئے تھے؟ انہوں نے کہا: ہدیہ دیا گیا ایک عضو شکار کے گوشت کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھیر دیا اور فرمایا: ”ہم لوگ احرام باندھے ہوئے ہیں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 61
ابومحمد ابوقتادہ کے آزاد کردہ غلام کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ کہتے تھے کہ نکلے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہاں تک کہ جب پہنچے ہم قاحہ میں (اور وہ ایک میدان ہے سقیا سے ایک منزل پر اور مدینہ سے تین منزل پر) اور بعض لوگ ہم میں سے محرم تھے اور بعض غیر محرم کہ اتنے میں میں نے اپنے یاورں کو دیکھا کہ وہ کسی چیز کو دیکھ رہے ہیں، جب میں نے نظر کی تو ایک گدھا وحشی تھا اور میں نے اپنے گھوڑے پر زین رکھا اور اپنا نیزہ لیا اور سوار ہوا اور میرا کوڑا گر پڑا اور میں نے اپنے یاروں سے کہا اور وہ محرم تھے کہ میرا کوڑا اٹھا دو۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم تمہاری کچھ مدد نہ کریں گے پھر میں نے اتر کر کوڑا لیا اور سوار ہوا اور اس گدھے تک اس کے پیچھے سے پہنچا اور وہ ٹیلے کے پیچھے تھا پھر اس کو نیزہ مارا اور اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور اپنے یاروں کے پاس لایا اور کسی نے کہا: کھاؤ اور کسی نے کہا: مت کھاؤ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے آگے تھے، سو میں نے اپنا گھوڑا بڑھایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ حلال ہے پس کھاؤ۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 62
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کسی راہ میں مکہ کے اور وہ چند یاروں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے رہ گئے اور وہ غیر محرم تھے اور یار ان کے محرم پھر ایک وحشی گدھا دیکھا اور اپنے گھوڑے پر چڑھے اور یاروں سے کوڑا مانگا کسی نے نہ دیا، نیزہ مانگا کسی نے نہ دیا پھر انہوں نے آپ لے لیا اور گھوڑے کو دوڑایا اور گدھے کو مار لیا اور اصحاب میں سے کسی نے کھایا کسی نے نہیں پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو ایک خوراک ہے کہ اللہ عزوجل نے تم کو دی۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 63
عطاء نے سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ سے جنگلی گدھے کے بارہ میں وہی مضمون روایت کیا جو ابوالنضر سے اس کے اوپر گزرا مگر زید بن اسلم کی روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کہ اس کے گوشت میں سے کچھ ہے تمہارے پاس؟۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 64
سیدنا عبداللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے حدیبیہ کے سال اور اصحاب رضی اللہ عنہم نے احرام باندھا تھا اور انہوں نے نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر لگی کہ دشمن غیقہ میں ہے اور آپ چلے اور سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اپنے یاروں کے ساتھ تھا کہ بعض لوگ میری طرف دیکھ کر ہنسنے لگے اور میں نے جو نظر کی تو میرے آگے ایک وحشی گدھا تھا اور میں نے اس پر حملہ کیا اور اس کو نیزہ مار کر روک دیا اور اپنے لوگوں سے مدد چاہی اور کسی نے (بسبب احرام کے) میری مدد نہ کہ پھر ہم نے اس کا گوشت کھایا اور خوف ہوا کہ ہم راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھوٹ نہ جائیں اس لیے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈتا چلا اور کبھی اپنے گھوڑے کو دوڑاتا اور کبھی قدم قدم چلاتا کہ ایک آدمی بنی غفار کا ملا اندھیری رات میں اور میں نے اس سے پوچھا کہ تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ملے؟ اس نے کہا کہ میں نے آپ کو (تعہن) میں چھوڑا ہے (نام ہے ایک مقام کا اور وہ پانی کی ایک نہر ہے سنتیا سے تین میل پر اور سقیا ایک گاؤں ہے مدینہ سے تین منزل مکہ کی راہ میں) اور وہ سقیا میں دوپہر کو ٹھہرنا چاہتے تھے غرض میں آپ سے ملا اور میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کے اصحاب، آپ پر سلام اور رحمت بھیجتے ہیں اور ان کو خوف ہے کہ دشمن ان کو آپ سے دور کر کے کاٹ نہ ڈالے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا انتظار کیجئے، سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا انتظار کیا پھر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے شکار کیا ہے اور اس میں سے کچھ میرے پاس بچا ہوا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھاؤ۔“ اور وہ سب احرام باندھے ہوئے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 65
سیدنا عبداللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی اپنے باپ سے کہ انہوں نے کہا کہ نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کو اور ہم نکلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور کہا سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور راہ لی اور اپنے بعض اصحاب سے فرمایا: اور انہیں میں ابوقتادہ بھی تھے: ”تم ساحل بحر کی راہ لو یہاں تک کہ ملو مجھ سے۔“ اور ان لوگوں نے ساحل بحر کی راہ لی پھر جب پھرے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تو ان تمام لوگوں نے احرام باندھ لیا سوائے ابوسیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ کے کہ انہوں نے احرام نہیں باندھا، غرض وہ راہ میں چلے جاتے تھے کہ انہوں نے چند وحشی گدھوں کو دیکھا اور سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے ان پر حملہ کیا اور ایک گدھے کی ان میں سے کونچیں کاٹیں اور سب یار ان کے اترے اس کا گوشت کھایا اور پھر کہا انہوں نے کہ ہم نے گوشت کھایا اور ہم محرم تھے اور باقی گوشت اس کا ساتھ لے لیا پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم نے احرام باندھ لیا ہے تھا اور ابوقتادہ نے احرام نہیں باندھا تھا پھر ہم نے چند وحشی گدھے دیکھے اور ابوقتادہ نے ان پر حملہ کر کے ایک کی کونچیں کاٹیں پھر ہم اترے اور ہم سب نے اس کا گوشت کھایا اور پھر کہا: ہم شکار کا گوشت کھا رہے ہیں اور احرام باندھے ہوئے ہیں اور باقی گوشت اس کا ہم لیتے آئے ہیں تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی نے تم سے اس کا حکم کیا تھا اس کی طرف اشارہ کیا تھا۔“ تو انہوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کھاؤ جو گوشت اس کا باقی ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 66
سیدنا عثمان بن عبداللہ سے اسی اسناد سے یہی مضمون مروی ہوا اور شیبان کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی نے اس کے شکار کا حکم کیا کہ اس پر حملہ کیا جائے یا اس کی طرف اشارہ کیا۔“ اور شعبہ کی روایت میں ہے کہ ”تم نے اشارہ کیا یا مدد کی یا تم نے شکار کیا؟“ شعبہ نے کہا: میں نہیں جانتا کہ ”مدد کی فرمایا یا شکار کیا۔“ باقی مضمون وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 67
سیدنا عبداللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان کے باپ نے خبر دی کہ انہوں نے جہاد کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ حدیبیہ میں تو اور لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھ لیا سوا میرے اور میں نے ایک وحشی گدھا شکار کیا اور اپنے یاروں کو کھلایا اور وہ احرام باندھے ہوئے تھے، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور ان کو خبر دی کہ ہمارے پاس اس کا گوشت بچا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھاؤ۔“ اور وہ لوگ احرام باندھے ہوئے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 68
سیدنا عبداللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ سے روایت کی کہ وہ نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ سب لوگ محرم تھے اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہ غیر محرم اور بیان کی حدیث اور اس میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس اس میں سے کچھ ہے؟“ انہوں نے کہا: ہمارے پاس اس کا پیر ہے پھر لیا اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور کھایا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 69
سیدنا عبداللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا ابوقتادہ چند محرم لوگوں میں تھے اور وہ احرام باندھے ہوئے نہ تھے اور وہ حدیث بیان کی اور اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آیا اشارہ کیا تم میں سے کسی نے اس کی طرف یا حکم کیا کسی طرح کا؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کھاؤ اس کو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 70
عبدالرحمٰن نے کہا کہ ہم طلحہ کے ساتھ تھے احرام باندھے ہوئے اور ایک پرندہ شکار کا ان کو ہدیہ دیا گیا (یعنی پکا ہوا) سو بعضوں نے ہم میں سے کھایا اور بعض نے پرہیز کیا پھر جب طلحہ سو رہے تھے، جاگے تو ان لوگوں کے موافق ہوئے جنہوں نے کھایا تھا اور کہا انہوں نے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ ایسا گوشت کھایا ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 71
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بی بی صاحبہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”چار چیزیں شریر ہیں کہ قتل کی جاتی ہیں حل و حرم میں چیل اور کوا اور چوہا اور کٹ کھنا کتا۔“ (راوی نے) کہا: میں نے اپنے شیخ قاسم سے پوچھا کہ بھلا فرمائیے سانپ کو، تو انہوں نے کہا: مارا جائے ذلت سے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 72
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ جانور ایذاء دینے والے ہیں، انہیں حرم اور غیر حرم میں قتل کیا جا سکتا ہے: سانپ، سیاہ و سفید کوا، چوہا، کٹ کھنا کتا اور چیل۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 73
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 74
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 75
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 76
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ان کو قتل کرنے کا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 77
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 78
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 79
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 80
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ کسی نے پوچھا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بی بی صاحبہ رضی اللہ عنہا سے یہی مضمون بیان کیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 81
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بی بی صاحبہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”چار چیزیں شریر ہیں کہ قتل کی جاتی ہیں حل و حرم میں چیل اور کوا اور چوہا اور کٹ کھنا کتا۔“ (راوی نے) کہا: میں نے اپنے شیخ قاسم سے پوچھا کہ بھلا فرمائیے سانپ کو، تو انہوں نے کہا: مارا جائے ذلت سے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 82
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ جانور ایذاء دینے والے ہیں انہیں حرم اور غیر حرم میں قتل کیا جا سکتا ہے: سانپ، سیاہ و سفید کوا، چوہا، کٹ کھنا کتا اور چیل۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 83
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 84
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 85
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 86
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ان کو قتل کرنے کا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 87
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 88
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 89
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 90
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ کسی نے پوچھا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بی بی صاحبہ رضی اللہ عنہا سے یہی مضمون بیان کیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 91
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی آدمی نے پوچھا کہ محرم کون کون سے جانور قتل کر سکتا ہے؟ تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بی بی صاحبہ رضی اللہ عنہا نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، مارنے کے لئے ارشاد فرماتے تھے کٹ کھنا کتا اور چوہا اور بچھو اور کوا اور سانپ کے اور کہا کہ نماز میں بھی (مارے جائیں)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 92
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 93
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 94
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی مضمون مثل حدیث مالک اور ابن جریج کے روایت کیا اور ان راویوں میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ روایت ہے نافع سے وہ راوی ہیں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ کہا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے، سنا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، مگر ابن جریج نے اکیلے اور ابن جریج کی اتباع کی ہے اس بیان میں ابن اسحاق نے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 95
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”کچھ حرج نہیں پانچ جانوروں کے قتل میں پھر مثل اسی کے بیان کیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 96
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد ہوا کہ ”پانچ جانور ہیں کہ ان کو جس نے حالت احرام میں مارا اس پر کچھ گناہ نہیں ان کے قتل میں بچھو اور چوہا اور کٹ کھنا کتا اور کوا اور چیل۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 97
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے پاس آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سال حدیبیہ میں اور میں اپنی ہانڈی کے نیچے آگ پھونک رہا تھا اور جوئیں میرے منہ پر چلی آتی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے سر کے کیڑوں نے بہت ستایا ہے۔“ میں نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سر منڈا دو اور تین روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ یا ایک قربانی کرو۔“ ایوب نے کہا: مجھے یاد نہیں کہ پہلے کیا چیز فرمائی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 98
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 99
سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا یہ آیت «فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ» (۲/البقرۃ:۱۹۶) میرے ہی حق میں اتری اور میں آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نزدیک آؤ۔“ میں نزدیک آیا۔ پھر فرمایا: ”تم کو تمہاری جوئیں بہت ستاتی ہیں۔“ ابن عون نے کہا کہ میں گمان کرتا ہوں کہ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر مجھے حکم فرمایا فدیہ کا روزہ ہو، خواہ صدقہ ہو، خواہ قربانی ہو۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 100
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس کھڑے تھے اور میرے سر میں سے جو ئیں گر رہی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کو جو ئیں ستاتی ہیں؟ میں نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سر منڈا ڈالو۔“ اور یہ آیت «فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ» میرے حق میں اتری پھر مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین روزے رکھو یا ایک ٹوکرا خیرات دو یعنی غلہ بھر کر چھ مساکین کو یا قربانی کرو جو میسر ہو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 101
سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے وہی مضمون اوپر کا بیان کر کے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سر منڈا ڈالو اور ایک ٹوکرا غلہ چھ مسکینوں کو بانٹ دو (اور ٹوکرا تین صاع ہے اور صاع کی تحقیق کتاب الزکوٰۃ میں گزری) یا تین دن روزے رکھو یا ایک قربانی کرو ابن ابی نجیح کی روایت میں ہے کہ”ایک بکری ذبح کرو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 102
سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے وہی مضمون اوپر کا بیان کر کے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سر منڈا ڈالو اور ایک ٹوکرا غلہ چھ مسکیینوں کو بانٹ دو۔“ اور ٹوکرا تین صاع کا ہے (اور صاع کی تحقیق کتاب الزکوٰۃ میں گزری ہے) یا تین روزے رکھو یا ایک قربانی کرو (ابن ابی نجیح کی روایت میں ہے کہ ایک بکری ذبح کرو)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 103
سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کے پاس عبداللہ بن معقل بیٹھے اور کعب مسجد میں تھے اور یہ آیت بیان کی «فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ» (۲/البقرۃ: ۱۹۶) تو کہا: یہ میرے لیے اتری ہے، پھر سارا قصہ بیان کیا جو کئی بار گزرا آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزے تین دن کے یا کھانا چھ مسکینوں کا ہر مسکین کو نصف صاع۔“ پھر کہا کعب نے یہ آیت اتری ہے خاص میرے لیے اور (باعتبار لفظ کے) عام ہے تم سب کے لیے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 104
اس حد یث کا ترجمہ و مفہوم کچھ کمی و بیشی کے ساتھ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 105
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگائے مکہ کی راہ میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام باند ھے ہوۓ تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 106
سیدنا ابن بحینہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگائے مکہ کی راہ میں اپنے سر کے بیچ میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام سے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 107
وہب کے بیٹے نبیہ نے کہا کہ ہم نکلے ابان بن عثمان کے ساتھ اور جب ملل میں پہنچے(نام ہے ایک موضع کا کہ مدینہ سے اٹھائیس میل ہے مکہ کی راہ میں) تو عمر بن عبیداللہ کی آنکھیں دکھنے لگیں پھر جب روحاء میں آئے بہت درد ہوا تو ابان بن عثمان سے کہلا بھیجا انہوں نے کہا کہ ایلوے کا لیپ کرو اس لیے کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ جب مرد کی آنکھیں دکھنے لگیں اور وہ احرام باندھے ہوئے ہو تو آپ نے فرمایا کہ ان پر ایلوے کا لیپ کر لے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 108
نبیہ نے کہا: عمر بن عبید اللہ کی آنکھیں دکھیں اور سرمہ لگانا چاہا تو ابان نے منع کیا اور صبر کے لگانے کو بتایا اور روایت کی سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 109
ابراہیم نے اپنے باپ سے روایت کی کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور مسور بن محزمہ رضی اللہ عنہ میں تکرار ہوئی ابواء میں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: محرم سر دھوئے اور مسور نے کہا: نہیں تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ کے پاس مجھے بھیجا کہ ان سے پوچھیں تو میں نے ان کو پایا کہ وہ کنوئیں کی دو لکڑیوں کے بیچ میں نہا رہے تھے اور وہ ایک کپڑے کی آڑ میں تھے اور میں نے ان سے سلام علیک کی اور انہوں نے پوچھا کہ کون ہے؟ میں نے کہا کہ میں عبداللہ بن حنین ہوں اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے کہ میں پوچھوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام میں کیسے سر دھوتے تھے؟ پس سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ کپڑے پر رکھے اور سر جھکایا یہاں تک کہ مجھے نظر آیا اور اس آدمی سے کہا جو ان پر پانی ڈالتا تھا کہ ڈالو پھر وہ اپنے سر کو ہلاتے تھے اور اپنے ہاتھ سے ملتے تھے آگے اور پیچھے، پھر کہا میں نے ایسے ہی دیکھا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 110
زید بن اسلم نے اس اسناد سے یہی روایت کی اور کہا کہ سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ پھیرے اپنے سارے سر پر آگے اور پیچھے اور سیدنا مسور رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ میں آج سے آپ سے تکرار نہ کروں گا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 111
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 112
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ضباعہ بنت زبیر کے پاس اور فرمایا: ”کہ تم نے ارادہ کیا ہے حج کا؟“ انہوں نے کہا کہ ہاں قسم ہے اللہ کی اور میں اکثر بیمار ہو جاتی ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ حج کرو اور شرط کرو اور یوں کہو کہ اے اللہ! احرام کھولنا میرا وہیں ہے جہاں تو مجھے روک دے۔“ اور وہ مقداد کے نکاح میں تھیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 113
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے وہی مضمون مروی ہوا اس میں ضباعہ نے عرض کی کہ میں حج کا ارادہ کرتی ہوں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 114
وہی مضمون ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 115
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے وہی مضمون روایت کیا اس میں ہے کہ میں بھاری بوجھل ہوں اور آخر میں یہ ہے کہ انہوں نے حج پا لیا احرام کھولنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 116
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنمہا نے کہا کہ ضباعہ رضی اللہ عنہا نے حج کا ارادہ کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ان کو کہ اپنے احرام میں شرط کر لیں اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ایسا ہی کیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 117
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا لیکن اسحاق کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضباعہ کو حکم دیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 118
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نفاس ہوا، سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بیٹی عمیس کو محمد بن ابوبکر کے پیدا ہونے کا ذوالحلیفہ کے سفر میں، سو حکم کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہ ان سے کہیں کہ نہائیں اور لبیک پکاریں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 119
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 120
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نکلے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجتہ الوداع کے سال میں اور لبیک پکاری ہم نے عمرہ کی۔ پھر فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”جس کے پاس ہدی ہے وہ حج اور عمرہ دونوں کا لبیک پکارے اور بیچ میں احرام نہ کھولے یہاں تک کہ دونوں سے فارغ ہو کر حلال ہو۔“ فرمایا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ پھر جب میں مکہ کو آئی تو حائضہ تھی اور نہ طواف کیا بیت اللہ کا، نہ صفا مروہ پھری اور اس کی شکایت کی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے سر کے بال کھول ڈالو اور کنگھی کرو اور حج کا احرام باندھ لو اور عمرہ چھوڑ دو۔“ فرماتی ہیں کہ پھر میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر جب ہم حج سے فارغ ہوئے بھیجا مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تنعیم کی طرف اور میں نے وہاں سے عمرہ کیا اور فرمایا: ”یہ تمہارے عمرہ کی جگہ ہے۔“ پھر طواف کیا ان لوگوں نے کہ اہلال کیا تھا عمرہ کا بیت اللہ کے گرد اور پھرے صفا اور مروہ پر پھر احرام کھول ڈالا پھر طواف کیا دوبارہ۔ اس کے بعد کہ لوٹ کر آئیں منیٰ سے حج کر کے اور جن لوگوں نے کہ حج اور عمرہ کو جمع کیا تھا (یعنی قارن تھے) انہوں نے ایک ہی طواف کیا (عمرہ و حج دونوں کی طرف سے)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 121
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نکلے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجتہ الوداع میں اور کسی نے عمرہ کا، کسی نے حج کا اہلال کیا جب مکہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے عمرہ کا اہلال کیا اور قربانی نہیں لایا وہ احرام کھول ڈالے اور جس نے عمرہ کا احرام کیا اور قربانی لایا وہ نہ کھولے جب تک قربانی نحر نہ کر لے اور جس نے حج کا اہلال کیا وہ حج پورا کرے۔“ سيده عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: مجھے حیض ہو گیا اور میں عرفہ کے دن تک حائضہ رہی اور میں نے عمرہ کا اہلال کیا تھا پھر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا: ”چوٹی کھول ڈالو، کنگھی کرو اور حج کا اہلال کرو عمرہ چھوڑ دو۔“ میں نے ایسا ہی کیا جب حج کر چکے تو میرے ساتھ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ میں تنعیم سے عمرہ لاؤں وہ عمرہ جس کو میں نے پورا نہیں کیا تھا اور حج کا احرام باندھ لیا تھا اس کا احرام کھولنے کے قبل۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 122
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نکلے ہم حجتہ الواداع میں اور میں نے عمرہ کا اہلال کیا اور ہدی نہیں لائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے ساتھ ہدی ہو وہ حج و عمرہ دونوں کا اہلال کرے اور احرام نہ کھولے جب تک دونوں سے فارغ نہ ہو۔“ اور میں حائضہ ہو گئی پھر جب شب عرفہ ہوئی تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے عمرہ کا اہلال کیا تھا تو اب حج کیوں کر کروں؟ فرمایا: ”سر کھول ڈالو، کنگھی کرو عمرہ کے افعال سے باز رہو، حج کا اہلال کرو۔“ پھر جب میں حج کر چکی، عبدالرحمٰن کو حکم فرمایا وہ مجھے پیچھے بٹھا لے گئے یعنی اونٹ پر اور عمرہ کروا لائے اس عمرہ کی جگہ جس کی بجا آوری افعال سے میں باز رہی تھی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 123
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہم نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو چاہے حج و عمرہ دونوں کا اہلال کرے جو چاہے حج کا جو چاہے عمرہ کا۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا اہلال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور لوگوں نے بھی اور بعض نے حج و عمرہ دونوں کا اور بعض نے فقط عمرہ کا اور میں انہی میں تھی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 124
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نکلے ہم حجتہ الوادع میں ہلال ذی الحجہ کے قریب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ارادہ کرے عمرہ کا اہلال کرے اور اگر میں ہدی نہ کرتا تو عمرہ ہی کا اہلال کرتا۔“ اور کسی نے عمرہ کا، کسی نے حج کا اہلال کیا اور میں انہی میں تھی جنہوں نے عمرہ کا اہلال کیا تھا پھر جب مکہ آئے اور عرفہ کا دن ہوا میں حائضہ ہو گئی اور ابھی میں نے عمرہ سے احرام نہیں کھولا تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمرہ چھوڑ دو اور حج کا اہلال کرو۔“ پھر میں نے ایسا ہی کیا، پھر جب شب محصب ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ہمارا حج پورا کیا۔ میرے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو بھیجا انہوں نے مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیا اور وہ مجھے تنعیم لے گئے اور میں نے اہلال عمرہ کا کیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے حج اور عمرہ دونوں پورے کیے اور نہ اس میں قربانی واجب ہوئی، نہ صدقہ، نہ روزہ۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 125
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 126
اس حدیث کا مضمون وہی ہے جو اوپر گزرا۔ عروہ کی روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا حج پورا کیا اور ہشام کی روایت میں ہے کہ اس میں کوئی قربانی، روزہ یا صدقہ واجب نہیں ہوا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 127
وہی مضمون ہے آخر میں یہ ہے کہ جس نے حج کا احرام باندھا تھا یا حج و عمرہ دونوں کا انہوں نے احرام نہیں کھولا مگر نحر کا دن ہوا (یعنی دسویں تاریخ ذوالحجہ کی)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 128
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہم نکلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور خیال کرتے تھے مگر حج کا (اس لیے عمرہ، ایام حج میں برا جانتے تھے جہالت کے دونوں میں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال کو مٹایا) جب سرف میں آئی میں حائضہ ہو گئی اور رونے لگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر پوچھا: ”کیا تم کو حیض ہوا ہے؟“ میں نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو آدم کی بیٹیوں کے لیے اللہ نے لکھ دیا ہے سو اب تم حج کے کام کرو سوائے طواف کے کہ وہ غسل کے بعد کرنا۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیبیوں کی طرف سے قربانی کی گائے کی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 129
ام المؤمنین مبراۃ من فوق السماء سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں خیال کرتے تھے ہم مگر حج کا، پھر جب سرف میں آئی میں حائضہ ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور میں رو رہی تھی آپ نے پوچھا: ”تم کیوں رو رہی ہو۔“ میں نے عرض کیا کہ کاش اس سال نہ آتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید تم کو حیض ہوا۔“ میں نے عرض کیا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بلا تو اللہ پاک نے آدم کی سب لڑکیوں کے لیے لکھی ہے۔ اب تم وہی کرو جو حاجی کرتا ہے بجز اس کے کہ طواف نہ کرو بیت اللہ کا جب تک پاک نہ ہو جاؤ۔“ فرماتی ہیں کہ پھر جب ہم مکہ میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: ”کہ اس احرام کو عمرہ کر ڈالو۔“ سو لوگوں نے احرام کھول ڈالا (یعنی عمرہ کر کے) مگر جس کے ساتھ ہدی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہدی تھی اور سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اور مالداروں کے ساتھ بھی پھر احرام باندھا انہوں نے (یعنی جنہوں نے کھول ڈالا تھا) جب چلے یعنی حج کو فرمایا سيده عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جب دن ہوا نحر کا تو میں پاک ہوئی اور مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا سو میں نے طواف افاضہ کیا اور ہمارے پاس گائے کا گوشت آیا میں نے کہا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیبیوں رضی اللہ عنہن کی طرف سے گائے کی ہے پھر جب شب محصب ہوئی میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! لوگ حج اور عمرہ کر کے لوٹتے ہیں اور میں صرف حج کر کے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو انہوں نے مجھے اپنے اونٹ پر پیچھے بٹھا لیا اور فرماتی ہیں کہ مجھے خوب یاد ہے اور میں ان دنوں کمسن لڑکی تھی اور اونگھ جاتی تھی اور میرے منہ میں کجاوہ کے پیچھے کی لکڑی لگ جاتی تھی یہاں تک کہ تنعیم پہنچے اور وہاں سے میں نے عمرہ کا احرام باندھا اس عمرہ کے بدلے میں جو اور لوگوں نے کیا تھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 130
اس سند سے وہی مضمون مروى ہوا مگر اس میں یہ نہیں ہے کہ ہدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور مالداروں کے ساتھ بھی پھر ان لوگوں نے اہلال کیا جب چلے اور نہ یہ ذکر ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہو کہ میں کم سن لڑکی تھی اونگھتی تھی اور میرے منہ میں کجاوے کی لکڑی لگ جاتی تھی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 131
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افراد کیا حج کا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 132
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نکلے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لبیک پکارتے ہوئے حج کی حج کے مہینوں میں اوقات و مواضع حج میں (یا ممنوعات شرعیہ حج سے بچتے ہوئے) اور حج کی راتوں میں (مراد اس سے یہ قول ہے اللہ تعالیٰ کا «الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ» (۲-البقرة:۱۹۷) اور امام شافعی اور جماہیر علماء رحمہ اللہ علیہم کے نزدیک صحابہ و تابعین سے اور اسلاف صالحین سے حج کے مہینے شوال اور ذیقعدہ اور دس راتیں ہیں ذی الحجہ کی کہ تمام ہوتی ہیں نحر کی رات کی صبح تک یعنی دسویں تاریخ کی صبح تک اور امام مالک رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے اور مشہور روایت مالک رحمہ اللہ کی یہ ہے کہ وہ شوال اور ذیقعدہ اور ذی الحجہ کا سارا مہینہ ہے اور یہی مروی ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اور مشہور روایت ان دونوں کی وہی ہے جو ہم نے اوپر جماہیر سے نقل کی) یہاں تک کہ سرف میں اترے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب کی طرف نکلے اور فرمایا کہ: ”جس کے پاس ہدی نہ ہو تو میرے نزدیک بہتر ہے کہ وہ اس احرام کو عمرہ کر لے اور جس کے ساتھ ہدی ہو وہ نہ کرے۔“ سو بعض لوگوں نے اس پر عمل کیا اور بعضوں نے نہیں (اس لیے کہ امر و جوب کے طور پر نہ تھا بلکہ استحباب کے طور پر تھا) حالانکہ ان کے ساتھ ہدی نہ تھی (مگر تاہم وہ احرام حج ہی کا باندھے رہے اور نیت حج ہی کی رہی) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تو ہدی تھی اور ان لوگوں کے ساتھ بھی جن کو طاقت تھی ہدی کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میں رو رہی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم روتی کیوں ہو؟“ میں نے عرض کیا کہ آپ نے جو یاروں سے فرمایا میں نے سنا کہ آپ نے عمرہ کا حکم دیا (اور میں اس کی بجا آوری سے بہ سبب حیض کے مجبور ہوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں؟“ میں نے عرض کی کہ میں نماز نہیں پڑھتی۔ (یہاں سے معلوم ہوا کہ حائضہ کو بے نمازی آ گئی بولنا مستحب ہے کہ اس میں حیا اور تہذیب ہے اور یہ اصطلاح گویا اسی حدیث سے نکلی ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کیا نقصان ہے؟ تم حج میں مشغول رہو (یعنی ابھی افعال عمرہ میں تاخیر کرو اگرچہ احرام عمرہ کا ہے) تو اللہ سے امید ہے کہ تم کو وہ بھی عنایت فرما دے اور بات تو یہ ہے کہ آخر تم آدم کی اولاد ہو اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر بھی لکھا ہے جو ان سب پر لکھا ہے۔“ (اس سے معلوم ہوا کہ تخصیص حیض اور ابتدا اس کی بنی اسرائیل سے باطل ہے) پھر فرماتی ہیں کہ میں حج میں نکلی اور ہم منٰی میں اترے اور میں پاک ہوئی اور طواف کیا بیت اللہ کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محصب میں اترے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا ”کہ اپنی ہمشیرہ کو حرم سے باہر لے جاؤ اور وہ عمرہ کا احرام باندھے۔ (اس سے استدلال کیا ہے ان لوگوں نے جو اس بات کے قائل ہیں کہ مکہ والا جب عمرہ کرے تو حل میں یعنی حرم سے باہر جا کر احرام باندھے اور روا نہیں ہے کہ حرم ہی سے احرام باندھ لے اور اگر اس نے حرم ہی میں احرام باندھا اور پھر حل میں گیا طواف سے پہلے تو بھی کافی ہے اور اس پر دم واجب نہیں اور اگر حرم میں احرام باندھ کر بھی حل میں نہ نکلا اور طواف و سعی اور حلق کیا تو اس میں دو قول ہیں: ایک یہ کہ عمرہ اس کا صحیح نہیں جب تک کہ حل کی طرف نہ نکلے پھر طواف و سعی کرے اور حلق اور دوسرا یہ ہے کہ عمرہ صحیح ہے مگر اس کا دم لازم آتا ہے یعنی ایک بکری۔ اس لیے کہ اس نے میقات کو ترک کیا اور علما نے کہا ہے کہ واجب ہے حل کی طرف نکلنا تاکہ نسک اس کا حل و حرم دونوں میں ہو جائے جیسے حاجی دونوں میں جاتا ہے اور عرفات میں وقوف کرتا ہے اور وہ حل میں ہے پھر مکہ میں داخل ہوتا ہے طواف وغیرہ کے لیے یہ تفصیل ہے مذہب شافعی رحمہ اللہ کی اور یہی کہا ہے جمہور علما نے کہ واجب ہے نکلنا حل کی طرف عمرہ کے احرام کے لیے جدھر سے حل قریب ہو اور امام مالک رحمہ اللہ ہی کا مذہب ہے کہ احرام عمرہ کا تنعیم سے ہے اور معتمرین کی میقات وہی ہے۔ مگر یہ قول شاذ و مردود ہے اور جماہیر کا وہی قول ہے کہ تمام جوانب حل کے برابر ہیں خواہ تنعیم ہو یا اور کوئی) (نووی رحمه الله) اور طواف کرے بیت اللہ کا اور فرمایا آپ نے کہ میں تم دونوں کا منتظر ہوں یہیں۔“ سيده عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پھر دونوں نکلے اور میں نے لبیک پکاری اور بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کی سعی کی اور ہم آۓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی منزل میں تھے رات میں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”تم فارغ ہو گئیں۔“ میں نے عرض کی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب میں کوچ پکار دی اور نکلے اور بیت اللہ پر سے گزرے اور طواف کیا (یہ طواف وداع کیا) نماز صبح سے پہلے پھر مدینہ کو چلے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 133
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بعض لوگوں نے ہم میں سے اہلال کیا تھا حج مفرد کا اور بعض نے قران کیا تھا اور بعض نے تمتع۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 134
قاسم نے کہا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حج کا احرام باندھ کر آئی تھیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 135
عمرہ نے کہا: میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا کہ فرماتی تھیں ہم نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جب پانچ تاریخیں ذی قعدہ کی باقی رہ گئیں اور ہم خیال حج ہی کا کرتے تھے یہاں تک کہ جب مکہ کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ طواف و سعی کے بعد احرام کھول ڈالے۔ (یعنی حج کو عمرہ کر دے) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پھر ہمارے پاس نحر کے دن (یعنی دسویں تاریخ) گائے کا گوشت آیا میں نے کہا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیبیوں کی طرف سے ذبح کیا ہے۔ پھر میں نے یہ حدیث قاسم بن محمد سے ذکر کی (یہ قول یحییٰ کا ہے) انہوں نے کہا: تم نے خوب برابر جیسے تھی ویسے ہی روایت کی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 136
یحییٰ سے بھی اس کی مثل حدیث موجود ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 137
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! لوگ مکہ سے لوٹتے ہیں دو عبادتوں کے ساتھ (یعنی حج اور عمرہ جداگانہ کے ساتھ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ٹھہرو جب تم پاک ہو گئی تو تنعیم کو جانا اور لبیک پکارنا اور پھر ہم سے فلاں فلاں مقام میں ملنا، گمان کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کل کے روز اور ثواب تمہارے اس عمرہ کا تمہاری تکلیف اور خرچ کے موافق ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 138
ابن عون سے روایت ہے کہ ان دونوں کی حدیث مجھ پر خلط ملط ہو گئی حدیث یہ ہے کہ بے شک ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اے اللہ کے رسول! لوگ لوٹتے ہیں دو عبادتوں کے ساتھ آگے وہی حدیث ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 139
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں اور سب لوگ نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور ہمارا حج کے سوا اور کچھ ارادہ نہ تھا پھر جب سب لوگ مکہ میں آئے طواف کیا بیت اللہ کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے غرض ان لوگوں نے کھول ڈالا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیاں ہدی نہیں لائی تھیں سو انہوں نے بھی احرام کھول ڈالا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے حیض ہوا اور میں نے طواف نہیں کیا پھر جب شب حصبہ ہوئی تو میں نے عرض کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ لوگ تو حج و عمرہ کر کے لوٹتے ہیں اور میں صرف حج کر کے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا جن راتوں کو ہم مکہ آئے تھے تم نے طواف نہیں کیا تھا؟“ میں نے عرض کی کہ نہیں۔ فرمایا: ”اچھا تم! اپنے بھائی کے ساتھ تنعیم جاؤ اور عمرہ کا احرام باندھو اور پھر ہمارے تمہارے ملنے کی فلاں جگہ ہے۔“ اتنے میں سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں خیال کرتی ہوں کہ شاید میں تم سب کو روکوں (یعنی مجھے بھی حیض عارض ہو) اور طواف وداع کے انتظار میں میرے لیے ٹھہرنا پڑے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نگوڑی سرمنڈی کیا تو نے نحر کے دن طواف نہیں کیا؟ (یعنی طواف افاضہ) انہوں نے عرض کی کیوں نہیں (اور یہ فرمانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بطور روز مرہ عرب کے اور بول چال کے تھا جیسے زبان میں مستعمل ہے نہ کہ بطریق بددعا کے اور نہ اس راہ سے کہ معنٰی اصلی اس کے مراد ہوں جیسے «تربت يداك» اور «قاتله الله» مستعمل ہے اور براہ بے تکلفی اور اختلاط کے تھا اور بی بی صاحبہ رضی اللہ عنہا نے یہ خیال فرمایا کہ شاید طواف وداع کے لیے ہم کو انتظار کرنا پڑے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب کچھ مضائقہ نہیں کوچ کرو۔“ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: پھر ملے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلندی پر چڑھتے ہوئے مکہ سے اور میں اترتی تھی اس پر سے یا میں چڑھتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 140
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہم نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لبیک پکارتے ہوئے، نہ ارادہ خاص حج کا رکھتے تھے نہ خاص عمرہ کا اور بیان کی راوی نے باقی حدیث مثل روایت منصور کے جو اوپر گزری۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 141
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کی چوتھی یا پانچویں کو آئے اور میرے پاس تشریف لائے غصہ میں بھرے ہوئے تھے میں نے عرض کی آپ کو کس نے غصہ دلایا؟ اے اللہ کے رسول! اس کو اللہ تعالیٰ دوزخ میں ڈالے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نہیں جانتی ہو کہ میں نے لوگوں کو ایک کام کا حکم دیا ہے اور وہ تردد کرتے ہیں۔“ حکم (راوی) نے کہا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گویا وہ تامل کرتے ہیں“ اور فرمایا: ”اگر میں پہلے سے جانتا ہوتا اپنے کام کو جو میں نے بعد میں جانا تو ہدی کو اپنے ساتھ نہ لاتا (اس قول سے معلوم ہوا کہ انیاء علیہم السلام کو علم غیب نہیں) اور یہاں مکہ میں خرید لیتا اور ان لوگوں نے جیسا احرام کھول ڈالا ہے ویسا ہی میں بھی کھول ڈالتا۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 142
وہی مضمون ہے مگر اس میں حکم راوی کا شک مذکور نہیں تامل کے ذکر میں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 143
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ انہوں نے احرام باندھا عمرہ کا اور آئیں اور طواف نہیں کیا تھا کہ حائضہ ہو گئیں۔ پھر سب مناسک حج ادا کیے حج کا احرام باندھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منٰی سے کوچ کے دن کہ ”تمہارا طواف حج اور عمرہ دونوں کو کافی ہو جائے گا۔“ انہوں نے اس بات سے اپنی خوشی ظاہر نہ کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن کے ساتھ بھیج دیا تنعیم کو کہ بعد حج کے عمرہ لائیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 144
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو حیض ہوا سرف (مقام کا نام ہے) میں اور طہارت کی انہوں نے (یعنی غسل کیا وقوف کے لیے) عرفہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کو طواف تمہارا صفا اور مروہ کا حج اور عمرہ دونوں کو کافی ہے۔“ (طواف سے سعی مراد ہے)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 145
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عرض کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ یا رسول اللہ! لوگ دو ثواب لے کر لوٹتے ہیں اور میں ایک لے کر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کو کہ ان کو لے جاؤ تنعیم تک اور وہ مجھے لے گئے اور اپنے اونٹ پر لے گئے اور مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیا اور میں اپنی اوڑھنی سے اپنی گردن کھول دیتی تھی اور عبدالرحمٰن (اس خیال سے کہ بے پردگی کیوں کرتی ہے) میرے پیر پر مارتے تھے، اس ڈھب سے کہ کوئی جانے اونٹ کو مارتے ہیں اور میں ان سے کہتی تھی کہ یہاں تم کسی کو دیکھتے بھی ہو (یعنی یہاں کوئی نہیں ہے اس لیے میں نے اپنا سر کھول دیا ہے) پھر فرماتی ہیں کہ میں نے احرام باندھا عمرے کا اور پھر ہم لوٹ کر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حصبہ میں تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 146
سیدنا عبدالرحمٰن بن ابی بکررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ان کو کہ اپنے پیچھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بٹھا کر لے جائیں اور تنعیم سے عمرہ لے آئیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 147
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آئے ہم احرام باندھے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج مفرد میں (شاید ان کا اور بعض صحابہ کا احرام ایسا ہی ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو قارن تھے) اور آئیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا عمرہ کے احرام کے ساتھ یہاں تک کہ جب سرف میں پہنچے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حائضہ ہو گئیں۔ پھر جب ہم مکہ میں آئے طواف کیا کعبہ کا اور صفا اور مروہ کا اور حکم کیا ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس کے ساتھ ہدی (قربانی) نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے ہم نے کہا: کیسا حلال ہونا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بالکل حلال ہو جانا۔“ تو پھر ہم نے احرام بالکل کھول دیا۔ کہا راوی نے کہ پھر ہم پڑ گئے عورتوں کے پاس (یعنی دھڑلے سے جماع کرنے لگے) اور خوشبو لگائی اور کپڑے پہنے اور ہمارے اور عرفہ میں چار شب کا فرق باقی تھا۔ پھر ترویہ کے دن (یعنی آٹھویں تاریخ کی ذوالحجہ کی احرام باندھا یعنی حج کا) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس اور ان کو روتے ہوئے پایا۔ پوچھا: ”کیوں کیا حال ہے تمہارا؟“ انہوں نے عرض کی کہ میں حائضہ ہو گئی اور لوگ احرام کھول چکے اور میں نے نہ کھولا، نہ طواف کیا بیت اللہ کا اور لوگ اب حج کو چلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو ایک چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی سب لڑکیوں پر لکھ دی ہے سو تم غسل کرو (یعنی احرام کے لیے) اور احرام باندھو حج کا اور انہوں نے وہی کیا اور وقوف کیا وقوف کی جگہوں میں یہاں تک کہ جب طاہرہ ہوئیں تو طواف کیا بیت اللہ کا، صفا اور مروہ کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا احرام پورا ہو گیا حج اور عمرہ دونوں کا۔“ تو انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں اپنے دل میں ایک بات پاتی ہوں کہ میں نے طواف نہیں کیا جب تک حج سے فارغ نہ ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عبدالرحمٰن! ان کو تنعیم میں لے جا کر عمرہ کرا لاؤ۔“ اور یہ معاملہ اس شب ہوا جب محصب میں ٹھہرے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 148
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اسی مضمون کی جو اوپر بیان ہوا لیکن اس میں «دَخَلَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- عَلَى عَائِشَةَ» سے اوپر کے الفاظ نہیں ہیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 149
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حج میں احرام عمرہ کا باندھا تھا اور حدیث روایت ہے مانند حدیث لیث کے اور اتنا زائد بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نرم دل تھے، جب ان سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کچھ فرمائش کرتی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مان لیتے تھے (یہ کمال اخلاق تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ اپنی بیبیوں کی خاطر داری فرماتے تھے اور ان کی فرمائشیں پوری کر دیتے تھے جب تک اللہ پاک کی نافرمانی نہ ہو اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خاطر تو سب سے زیادہ تھی اللہ پاک ان کا درجہ بلند کرے اعلیٰ علیین میں اور ان سے راضی ہو اور ہم کو ان کی کفش برداری میں قبول فرمائے آمین یا رب العالمین) غرض بھیج دیا ان کو عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کے ساتھ اور وہ تنعیم سے عمرہ لائیں مطر جو راوی ہیں انہوں نے ابوالزبیر سے روایت کی کہ انہوں نے کہا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حج کرتی تھیں تو ویسا ہی کرتی تھیں جیسا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج میں کیا تھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 150
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا لبیک پکارتے ہوئے ہمارے ساتھ عورتیں اور بچے بھی تھے، پھر جب مکہ آئے طواف کیا بیت اللہ کا اور سعی کی صفا اور مروہ کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: ”جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے اور حلال ہو جائے۔“ ہم نے کہا: کیسا حلال ہونا؟ انہوں نے کہا: ”پورا۔“ پھر ہم عورتوں کے پاس آئے (یعنی جماع کیا) اور کپڑے پہنے اور خوشبو لگائی پھر جب آٹھویں تاریخ ہوئی۔ حج کی لبیک پکاری اور کفایت کر گئی ہم کو سعی صفا اور مروہ کی جو کہ پہلے کی تھی اور حکم کیا ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ شریک ہو جائیں اونٹ اور گائے میں سات سات آدمی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 151
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: حکم کیا ہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہم نے احرام کھول ڈالا کہ جب ہم منیٰ کو چلیں (یعنی آٹھویں تاریخ) تو احرام باندھ لیں تو لبیک پکاری ہم نے حج کی ابطح سے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 152
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ طواف نہیں کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے صفا اور مروہ میں مگر ایک بار۔ زیادہ کیا محمد بن بکر کی روایت میں کہ وہی طواف اول۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 153
عطاء نے کہا: سنا میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اور میرے ساتھ کئی شخص تھے کہ انہوں نے کہا کہ لبیک پکاری ہم سب اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فقط حج کی اور کہا عطاء نے کہا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے، پھر آئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم چوتھی ذوالحجہ کی صبح کو اور ہم کو حکم فرمایا کہ ہم احرام کھول ڈالیں۔ عطاء نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ احرام کھول ڈالو اور عورتوں کے پاس جاؤ۔“ اور عطاء نے کہا: یہ حکم ان کو وجوب کے طور پر نہیں دیا بلکہ احرام کھولنا ان کو جائز کر دیا، پھر ہم نے کہا کہ اب عرفہ میں پانچ ہی دن باقی ہیں کہ حکم کیا ہم کو کہ ہم صحبت کریں اپنی عورتوں سے اور عرفات میں جائیں اس طرح سے کہ ہمارے آلتوں سے منی ٹپکتی ہو، کہا عطاء نے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے اور گویا کہ اب دیکھ رہا ہوں ان کے ہاتھ جیسے وہ ہلاتے تھے (یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس عذر کی راہ سے احرام کھولنے میں تامل کیا) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بیچ میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: تم بخوبی جان چکے ہو کہ میں تم سے زیادہ نیک ہوں (پھر میرے حکم بجا لانے میں کیا تامل ہے؟) اور اگر میرے ساتھ میری ہدی نہ ہوتی تو میں بھی احرام کھول ڈالتا جیسے تم کھول رہے ہو اور اگر مجھے پہلے سے یہ بات معلوم ہوتی جو بعد کو معلوم ہوئی تو میں ہدی ساتھ نہ لاتا۔“ غرض پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے احرام کھول ڈالا اور ہم سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی اور دل سے مان لی۔ عطاء نے کہا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر آئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ (اموال صدقات کی تحصیل لے کر جس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھیجا تھا یمن کی طرف اور حقیقت میں یہ وہاں امیر ہو کر گئے تھے، نہ صدقات کی تحصیل کے لیے اور شاید عاملوں نے ان کے سپرد کر دئیے ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیں ورنہ اموال صدقات بنی ہاشم کو لینا روا نہیں) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”تم نے کیا احرام باندھا؟“ انہوں نے عرض کی کہ جو اہلال ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا (یعنی میں نے لبیک میں یہی کہا کہ جو لبیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو وہی میری ہے) کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ”قربانی کرو اور محرم رہو۔“ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہدی لائے، سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ۔ اور سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ حکم (یعنی حج کو فسخ کر دینا عمرہ کر کے) ہمارے اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے یہ امر جائز ہو گیا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ ہمیشہ کے لیے ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 154
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لبیک پکاری ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کی، پھر جب ہم مکہ میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ احرام کھول ڈالیں اور اس احرام کو عمرہ کر ڈالیں (یعنی حج کو عمرہ کر کے فسخ کریں) اور یہ بات ہم پر گراں گزری اور ہمارے سینے اس سے تنگ ہوئے اور یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی، پھر ہم نہیں جانتے کہ آیا ان کو کوئی حکم آسمان سے آیا یا کوئی بات لوگوں سے پہنچی۔ غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لوگو! احرام کھول ڈالو اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں بھی وہی کرتا جو تم نے کیا ہے۔“ (یعنی عمرہ کر کے حج کو فسخ کرتا اور احرام کھول ڈالتا) تب تو ہم نے احرام کھول ڈالا یہاں تک کہ صحبت کی ہم نے عورتوں سے اور سب کام کیے جو بغیر احرام والے کرتے ہیں (یعنی خوشبو لگائی، سئیے ہوئے کپڑے پہنے، جماع کیا) پھر جب آٹھویں تاریخ ہوئی اور مکہ سے ہم نے پیٹھ موڑی (یعنی منیٰ کو چلے) حج کا لبیک پکارا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 155
سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے حج کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جس سال کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہدی تھی (یعنی حجتہ الوداع میں اس لیے کہ ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی حج کیا ہے) اور بعض لوگوں نے صرف حج مفرد کا احرام باندھا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم احرام کھول ڈالو اور طواف کرو بیت اللہ کا اور سعی کرو صفا اور مروہ کی اور بال کم کرا لو اور حلال رہو پھر جب ترویہ کا دن ہو (یعنی آٹھویں تاریخ ذی الحجہ کی) تو لبیک پکارو حج کی اور تم جو احرام لے کر آئے ہو اس کو متعہ کر ڈالو۔“ (یعنی اگرچہ وہ احرام حج کا ہے مگر عمرہ کر کے کھول لو اور پھر حج کر لینا تو یہ متعہ ہو جائے گا) لوگوں نے عرض کی کہ ہم کیونکر اسے متعہ کریں۔ حالانکہ ہم نے نام لیا ہے حج کا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہی کرو جس کا میں تمہیں حکم دیتا ہوں اس لیے کہ میں اگر ہدی کو ساتھ نہ لاتا تو میں بھی ویسا ہی کرتا جیسا تم کو حکم دیتا ہوں مگر یہ کہ میرا احرام کھل نہیں سکتا جب تک کہ قربانی اپنے محل تک نہ پہنچ لے۔“ (یعنی ذبح نہ ہو لے) پھر لوگوں نے کیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 156
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کی لبیک پکارتے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہم کو کہ ہم اس کو عمرہ کر ڈالیں اور احرام کھول لیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ نہ کر سکے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 157
ابونضرہ نے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تو ہم کو حکم کرتے تھے متعہ کا اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ اس سے منع کرتے تھے اور میں نے اس کا ذکر کیا سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے تو انہوں نے کہا: یہ حدیث تو میرے ہاتھ سے لوگوں میں پھیلی ہے اور ہم نے تمتع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ۔ پھر جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلافت پر قائم ہوئے تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے جو چاہتا تھا حلال کر دیتا تھا جس سبب سے کہ وہ چاہتا تھا اور قرآن کا ہر ایک حکم اپنی اپنی جگہ میں اترا ہے تو پورا کرو تم حج اور عمرہ کو اللہ کے واسطے جیسا کہ تم کو اللہ پاک نے حکم دیا ہے اور قطعی اور دائمی ٹھہرا دو ہمیشہ کے لیے نکاح ان عورتوں کا (یعنی جن سے متعہ کیا گیا ہے یعنی ایک مدت معین کی شرط سے نکاح کیا گیا ہے) اور میرے پاس جو آئے گا ایسا کوئی شخص کہ اس نے نکاح کیا ہو گا ایک مدت معین تک تو میں اس کو ضرور پتھر سے ماروں گا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 158
قتادہ سے اسی اسناد سے یہی حدیث مروی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جدا کر دو حج کو اپنے عمرے سے اس لیے کہ اس میں حج بھی پورا ہوا اور تمہارا عمرہ بھی پورا ہوا (یعنی ہر ایک کو سفر میں الگ الگ بجا لاؤ)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 159
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آئے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور ہم لبیک پکارتے تھے حج کی اور حکم کیا ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ہم اس احرام حج کو عمرہ کر ڈالیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 160
جعفر بن محمد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے گھر گئے اور انہوں نے سب لوگوں کو پوچھا یہاں تک کہ جب میری باری آئی تو میں نے کہا کہ میں محمد بن علی ہوں۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا پوتا۔ سو انہوں نے میری طرف (شفقت سے) ہاتھ بڑھایا اور میرے سر پر ہاتھ رکھا اور میرے اوپر کی گھنڈی کھولی پھر نیچے کی گھنڈی کھولی (یعنی شلوکے وغیرہ کی) اور پھر اپنی ہتھیلی رکھی میرے سینے پر دونوں چھاتیوں کے بیچ میں اور میں ان دنوں جوان لڑکا تھا، پھر کہا: شاباش خوش رہو۔ اے میرے بھتیجے اور پوچھو مجھ سے جو چاہو۔ پھر میں نے ان سے پوچھا اور وہ نابینا تھے اور اتنے میں نماز کا وقت آ گیا اور وہ کھڑے ہوئے ایک چادر اوڑھ کر کہ جب اس کے دونوں کناروں کو دونوں کندھوں پر رکھتے تھے تو وہ نیچے گر جاتے تھے اس چادر کے چھوٹے ہونے کے سبب سے اور ان کی چادر بڑی تپائی پر رکھی تھی۔ پھر نماز پڑھائی انہوں نے ہم کو (یعنی امامت کی) اور میں نے کہا کہ خبر دیجئے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج سے (یعنی حجۃ الوداع سے) تو جابر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا ٹوکا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو برس تک مدینہ منورہ میں رہے اور حج نہیں کیا، پھر لوگوں میں پکارا گیا دسویں سال کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کو جانے والے ہیں، پھر جمع ہو گئے مدینہ میں بہت سے لوگ اور سب چاہتے تھے کہ پیروی کریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور ویسا ہی کام کریں (حج کرنے میں) جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کریں غرض ہم لوگ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، یہاں تک کہ ذوالحلیفہ پہنچے اور وہاں اسماء بنت عمیس جنیں اور محمد، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیٹا پیدا ہوئے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلا بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غسل کر لو اور لنگوٹ باندھ لو ایک کپڑے کا اور احرام باندھ لو۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت پڑھیں مسجد میں اور سوار ہوئے قصواء اونٹنی پر یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر وہ سیدھی ہوئی بیداء پر (وہ ایک مقام ہے مثل ٹیلہ کے) تو میں نے دیکھا آگے کی طرف جہاں تک کہ میری نظر گئی کہ سوار اور پیادے ہی نظر آتے تھے اور اپنے داہنی طرف بھی ایسی ہی بھیڑ تھی اور بائیں طرف بھی ایسی ہی بھیر تھی اور پیچھے بھی ایسی ہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بیچ میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن شریف اترتا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حقیقت کو خوب جانتے تھے اور جو کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا وہی ہم نے بھی کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کے ساتھ لبیک پکاری اور کہا «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ، لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ، وَالْمُلْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ» اور لوگوں نے بھی یہی لبیک پکاری جو اب لوگ پکارتے ہیں (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لبیک میں کچھ لفظ بڑھا کر پکارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو روکا نہیں) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم لبیک ہی پکارتے رہے اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم حج کے سوا اور کچھ ارادہ نہیں رکھتے تھے اور عمرہ کو پہجانتے ہی نہ تھے (بلکہ ایام حج میں عمرہ بجا لانا ایام جاہلیت سے برا جانتے تھے) یہاں تک کہ جب ہم بیت اللہ میں آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوا رکن کو (یعنی حجر اسود کو) اور طواف میں تین بار اچھل اچھل کر چھوٹے ڈگ رکھ کے شانے اچھال اچھال کر چلے اور چار بار عادت کے موافق چلے پھر مقام ابراہیم پر آئے اور یہ آیت پڑھی «وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى» یعنی (مقرر کرو مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ) اور مقام کو اپنے اور بیت اللہ کے بیچ میں کیا، پھر میرے باپ کہتے تھے اور میں نہیں جانتا کہ انہوں نے ذکر کیا ہو مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے ذکر کیا ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھیں دو رکعتیں اور ان میں «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» اور «قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ» پڑھی۔ پھر لوٹ کر گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کے پاس اور اس کو بوسہ دیا اور نکلے اس دروازہ سے جو صفا کی طرف ہے پھر جب صفا کے قریب پہنچے (وہ ایک پہاڑ کا نام ہے جو کعبہ کے دروازے سے بیس پچیس قدم پر ہے) تو یہ آیت پڑھی «ِنَّ الصَّفَا والْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ» یعنی ”صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں“ اور فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ”ہم شروع کرتے ہیں جس سے شروع کیا اللہ تعالیٰ نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پر چڑھے یہاں تک کہ بیت اللہ کو دیکھا اور قبلہ کی طرف دیکھا اور اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کی اور اس کی بڑائی بیان کی (یعنی «لاالٰه الا الله» اور «الله اكبر» کہا اور کہا «لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الأَحْزَابَ») یعنی کوئی معبود لائق عبادت نہیں سوا اللہ تعالیٰ کے، اکیلا ہے وہ، پورا کیا اس نے اپنا وعدہ (یعنی دین کے پھیلانے کا اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کا) اور مدد کی اس نے اپنے غلام کی (یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی) اور شکست دی اس نے اکیلے سب لشکروں کو۔“ پھر اس کے بعد دعا کی، پھر ایسا ہی کہا، پھر دعا کی غرض تین بار ایسا ہی کیا پھر اترے اور مروہ کی طرف چلے یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم میدان کے بیچ میں اترے تو دوڑے یہاں تک کہ مروہ پر پہنچے پھر مروہ پر بھی ویسا ہی کیا جیسے کہ صفا پر کیا تھا یعنی وہ کلمات کہے اور دعا کی قبلہ رخ کھڑے ہو کر یہاں تک کہ جب طواف تمام ہوا مردہ پر (یعنی سات شوط ہو چکے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اگر پہلے سے معلوم ہوتا اپنا کام جو بعد معلوم ہوا تو میں ہدی ساتھ نہ لاتا (اور مکہ ہی میں خرید لیتا) اور اپنے اس احرام حج کو عمرہ کر ڈالتا اب تم میں سے جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے (یعنی طواف و سعی تو ہو چکی اور عمرہ کے افعال پورے ہو گئے) اور اس کو عمرہ کر لے۔“ پھر سراقہ بن مالک جعشم کھڑے ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! یہ حج کو عمرہ کر ڈالنا ہمارے اسی سال کے لیے خاص ہے یا ہمیشہ کے لیے اس کی اجازت ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمیشہ کے لیے اجازت ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے۔“ اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یمن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ لے کر آئے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ ان میں ہیں جنہوں نے احرام کھول ڈالا اور رنگین کپڑے پہنے ہوئی ہیں اور سرمہ لگائے ہوئی ہیں تو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے برا مانا تو انہوں نے فرمایا کہ میرے باپ نے حکم فرمایا اس کا۔ پھر راوی نے کہا کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ عراق میں فرماتے تھے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا غصہ کرتا ہوا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر اس کے احرام کھولنے کے سبب سے جو انہوں نے کیا تھا پوچھنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی بات کو جو اس نے ذکر کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی میں نے کہ برا جانا اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فاطمہ نے سچ کہا سچ کہا۔“ (یعنی میں نے ہی ان کو احرام کھولنے کا حکم دیا ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے کیا کہا جب حج کا قصد کیا؟“ تو میں نے عرض کی کہ میں نے کہا: یااللہ! میں اہلال کرتا ہوں اس کا جس کا اہلال کیا ہے تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے ساتھ ہدی ہے (اس لیے میں نے احرام نہیں کھولا) اب تم بھی احرام نہ کھولو۔“ کہا جابر رضی اللہ عنہ نے کہ پھر وہ اونٹ جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ یمن سے ساتھ لائے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ لائے سب مل کر سو اونٹ ہو گئے، کہا سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہ پھر سب لوگوں نے احرام کھول ڈالا اور بال کترائے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور جن کے ساتھ قربانی تھی (کہ وہ محرم ہی رہے) پھر جب ترویہ کا دن ہوا (یعنی آٹھویں تاریخ ذی الحجہ کی) تو سب لوگ منیٰ کو چلے اور حج کی لبیک پکاری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سوار ہوئے اور منیٰ میں ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء اور فجر (پانچ نمازیں) پڑھیں۔ پھر تھوڑی دیر ٹھہرے یہاں تک کہ آفتاب نکل آیا اور حکم فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیمہ کا جو بالوں کا بنا ہوا تھا کہ لگایا جائے نمرہ میں (کہ نام ہے ایک مقام کا) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور قریش یقین کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم المشعر الحرام میں وقوف کریں گے جیسے سب قریش کے لوگوں کی عادت تھی ایام جاہلیت میں اور آپ وہاں سے آگے بڑھ گئے یہاں تک عرفات پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمہ اپنا نمرہ میں لگایا اور اس میں اترے یہاں تک کہ جب آفتاب ڈھل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا: قصواء اونٹنی کسی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وادی کے بیچ میں پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا لوگوں پر اور فرمایا: تمہارے خون اور اموال ایک دوسرے پر حرام ہیں جیسے آج کے دن کی حرمت ہے، اس مہینے کے اندر اس شہر کے اندر اور ہر چیز زمانہ جاہلیت کی میرے دونوں پیروں کے نیچے رکھ دی گئی (یعنی ان چیزوں کا اعتبار نہ رہا) اور جاہلیت کے خون بے اعتبار ہو گئے اور پہلا وہ خون جو میں اپنے خونوں میں سے معاف کئے دیتا ہوں۔ ابن ربیعہ کا خون کہ وہ دودھ پیتا تھا بنی سعد میں اور اس کو ہذیل نے قتل کر ڈالا (غرض میں اس کا بدلہ نہیں لیتا) اور اسی طرح زمانہ جاہلیت کا سود سب چھوڑ دیا گیا۔ (یعنی کوئی اس وقت کا چڑھا سود نہ لے) اور پہلے جو سود کہ ہم نے اپنے یہاں کے سود میں سے چھوڑ دیتے (اور طلب نہیں کرتے) عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے اس لیے وہ سب معاف کر دیا گیا اور تم لوگ اب ڈرو اللہ سے کہ عورتوں پر زیادتی نہ کرو اس لیے کہ ان کو تم نے اللہ پاک کی امان سے لیا ہے اور حلال کیا ہے تم نے ان کے ستر کو اللہ تعالیٰ کے کلمہ سے اور تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ تمہارے بچھونے پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں (یعنی تمہارے گھر میں) جس کا آنا تم کو ناگوار ہو۔ پھر اگر وہ ایسا کریں تو ان کو ایسا مارو کہ ان کو سخت چوٹ نہ لگے (یعنی ہڈی وغیرہ نہ ٹوٹے، کوئی عضو ضائع نہ ہو۔ حسن صورت میں فرق نہ آئے کہ تمہاری کھیتی اجڑ جائے) اور ان کا حق تمہارے اوپر اتنا ہے کہ روٹی ان کی اور کپڑا ان کا دستور کے موافق تمہارے ذمہ ہے اور تمہارے درمیان چھوڑے جاتا ہوں میں ایسی چیز کہ اگر تم اسے مضبوط پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو اللہ کی کتاب اور تم سے سوال ہو گا (قیامت میں) اور میرا حال پوچھا جائے گا پھر تم کیا کہو گے؟“ تو ان سب نے عرض کی کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا پیغام پہنچایا اور رسالت کا حق ادا کیا اور امت کی خیر خواہی کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا اپنی انگشت شہادت (کلمہ کی انگلی) سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اور لوگوں کی طرف جھکاتے تھے اور فرماتے تھے: ”یا اللہ! گواہ رہو، یا اللہ! گواہ رہو، یا اللہ! گواہ رہو۔“ تین بار یہی فرمایا اور یونہی اشارہ کیا پھر اذان اور تکبیر ہوئی اور ظہر کی نماز پڑھی اور پھر اقامت کہی اور عصر پڑھی اور ان دونوں کے بیچ کچھ نہیں پڑھا۔ (یعنی سنت وغیرہ) پھر سوار ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تک کہ آئے کھڑے ہونے کی جگہ میں۔ پھر اونٹنی کا پیٹ کر دیا پتھروں کی طرف اور پگڈنڈی کو اپنے آگے کر لیا اور قبلہ کی طرف منہ کیا اور کھڑے رہے یہاں تک کہ آفتاب ڈوب گیا اور زردی تھوڑی تھوڑی جاتی رہی اور سورج کی ٹکیا ڈوب گئی اور اسامہ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا اور لوٹے اور مہار قصواء کی اس قدر کھینچی ہوئی تھی کہ سر اس کا کجاوہ کے آگے مورک میں لگ گیا تھا (مورک وہ جگہ ہے جہاں سوار بعض وقت تھک کر اپنا پیر جو لٹکا ہوا رہتا ہے اس جگہ رکھتا ہے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے کہ ”اے لوگو! رساں رساں چلو آرام سے۔“ اور جب کسی ریت کی ڈھیری پر آ جاتے (جہاں بھیڑ کم پاتے) تو ذرا مہار ڈھیلی کر دیتے یہاں تک کہ اونٹنی چڑھ جاتی آخر مزدلفہ پہنچ گئے اور وہاں مغرب اور عشاء پڑھی ایک اذان سے (جو مغرب سے پہلے کہی) اور دو تکبیروں سے اور ان دونوں فرضوں کے بیچ میں نفل کچھ نہیں پڑھے (یعنی سنت وغیرہ نہیں پڑھی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ رہے یہاں تک کہ صبح برآمد ہوئی پھر فجر کی نماز ادا کی (سبحان اللہ! کیسے کیسے خادم ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ رات دن، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سونے بیٹھنے، اٹھنے جاگنے، کھانے پینے پر نظر ہے اور ہر فعل مبارک کی یاد داشت و حفاظت ہے اللہ تعالیٰ رحمت کرے ان پر) جب فجر خوب ظاہر ہو گئی اذان اور تکبیر کے ساتھ نماز پڑھی، پھر قصواء اونٹنی پر سوار ہوئے یہاں تک کہ المشعر الحرام میں آئے اور وہاں قبلہ کی طرف منہ کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اللہ اکبر کہا اور لاالٰہ الااللہ کہا اور اس کی توحید پکاری اور وہاں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ روشنی ہو گئی بخوبی اور لوٹے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے قبل طلوع آفتاب کے اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا اور فضل ایک نوجوان اچھے بالوں والا گورا چٹا خوبصورت جوان تھا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے تو ایک گروہ عورتوں کا ایسا چلا جاتا تھا کہ ایک ایک اونٹ پر ایک عورت سوار تھی اور سب چلی چاتی تھیں اور فضل ان کی طرف دیکھنے لگے سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا (اور زبان سے کچھ نہ فرمایا سبحان اللہ! یہ اخلاق کی بات تھی اور نہی عن المنکر کس خوبی سے ادا کیا) اور فضل نے منہ اپنا دوسری جانب پھیر لیا اور دیکھنے لگے (یہ ان کے کمال اطمینان کی وجہ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اپنا ہاتھ ادھر پھیر کر ان کے منہ پر رکھ دیا تو فضل پھر دوسری طرف منہ پھیر کر پھر دیکھنے لگے یہاں تک کہ بطن محسر میں پہنچے تب اونٹنی کو ذرا چلایا اور بیچ کی راہ لی جو جمرہ کبریٰ پر جا نکلی ہے یہاں تک کہ اس جمرہ کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے (اور اسی کو جمرہ عقبہ کہتے ہیں) اور سات کنکریاں اس کو ماریں اور ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے ایسی کنکریں جو چٹکی سے ماری جاتی ہیں (اور دانہ باقلا کے برابر ہوں) اور وادی کے بیچ میں کھڑے ہو کر ماریں (کہ منٰی اور عرفات اور مزدلفہ داہنی طرف اور مکہ بائیں طرف رہا) پھر نحر کی جگہ آئے اور تریسٹھ اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر کئیے (قربان دست و باز دیت شوم) باقی سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دئیے کہ انہوں نے نحر کئیے اور شریک کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی ہدی میں پھر حکم فرمایا کہ ہر اونٹ میں سے ایک ٹکڑا لیں اور ایک ہانڈی میں ڈالا اور پکایا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دونوں نے اس میں سے گوشت کھایا اور اس کا شوربہ پیا پھر سوار ہوئے اور بیت اللہ کی طرف آئے اور طواف افاضہ کیا اور ظہر مکہ میں پڑھی اور بنی عبدالمطلب کے پاس آئے کہ وہ لوگ زمزم پر پانی پلا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی بھرو اے اولاد عبدالمطلب کی اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ لوگ بھیڑ کر کے تمہیں پانی نہ بھرنے دیں گے تو میں بھی تمہارا شریک ہو کر پانی بھرتا۔“ (یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھرتے سنت ہو جاتا تو پھر ساری امت بھرنے لگتی) اور ان کی سقایت جاتی رہتی، پھر ان لوگوں نے ایک ڈول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے پیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 161
جعفر بن محمد نے کہا: میرے باپ نے مجھ سے بیان کیا کہ میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا حال پوچھا اور انہوں نے بیان کی حدیث جیسے حاتم بن اسماعیل نے بیان کی تھی اور اس میں اتنا زیادہ کیا کہ عرب کا قاعدہ تھا (یعنی ایام جاہلیت میں) کہ ابوسیارہ (ایک شخص کی کنیت ہے) ان کو مزدلفہ سے لوٹا لاتا تھا (اور عرفات کو لے جاتا تھا) پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ سے آگے بڑھے تو قریش نے یقین کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم المشعر الحرام میں ٹھہریں گے اور وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منزل ہو گی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے بھی آگے بڑھ گئے اور اس سے کچھ تعرض نہ کیا یہاں تک کہ عرفات پہنچے (یعنی قریب عرفات) اور وہاں اترے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 162
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے اسی حدیث میں یہ زیادہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے یہاں نحر کیا اور منیٰ ساری نحر کی جگہ ہے تو تم اپنے اترنے کی جگہ میں نحر کرو اور میں نے یہاں وقوف کیا اور عرفہ سارا وقوف کی جگہ ہے اور المشعر الحرام اور مزدلفہ سب وقوف کی جگہ ہے اور میں نے یہاں وقوف کیا۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 163
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے اسی میں حدیث یوں مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں آئے حجر اسود کو چوما اور تین پھیروں میں رمل کیا اور چار میں عادت کے موافق چلے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 164
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ قریش اور جو لوگ ان کی چال پر تھے مزدلفہ میں وقوف کرتے تھے اور اپنے کو حمس نام رکھتے تھے (ابوالہثیم نے کہا کہ یہ نام ہے قریش کا اور ان کی اولاد کا اور کنانہ اور جدیلہ قیس کا اس لیے کہ حمس رکھتے تھے اپنے دین میں یعنی تشدد اور سختی کرتے تھے) اور باقی عرب کے لوگ عرفہ میں وقوف کرتے تھے جب اسلام آیا اللہ پاک نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا کہ عرفات میں آئیں اور وقوف فرمائیں اور وہیں سے لوٹیں اور یہی مطلب ہے اس آیت کا «ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ» یعنی ”لوٹو وہیں سے جہاں سے اور لوگ لوٹتے ہیں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 165
ہشام نے اپنے باپ سے روایت کی کہ عرب طواف کرتے تھے بیت اللہ کا ننگے مگر حمس اور حمس قریش ہیں اور ان کی اولاد، غرض لوگ ننگے طواف کرتے تھے مگر جب کہ قریش ان کو کپڑے دے دیتے تھے سو مرد مردوں کو اور عورتیں عورتوں کو کپڑے دیا کرتی تھیں اور حمس مزدلفہ سے باہر نہ جاتے اور سب لوگ عرفات تک جاتے۔ ہشام نے کہا: میرے باپ نے مجھے خبر دی کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے وہی مضمون فرمایا جو ابھی اوپر گزرا اتنی بات زیادہ ہے کہ جب آیت مذکورہ اتری تو سب عرفات جانے لگے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 166
جبیر بن مطعم نے کہا کہ میرا ایک اونٹ کھو گیا اور اس کی تلاش کو نکلا عرفہ کے دن تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں عرفات میں، تو میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! یہ تو حمس کے لوگ ہیں ان کو کیا ہوا جو یہاں تک آ گئے (یعنی قریش تو مزدلفہ سے آگے نہیں آتے تھے) اور قریش حمس میں شمار کیے جاتے تھے (جو لوگ مزدلفہ سے باہر نہ جاتے تھے)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 167
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ بٹھائے ہوئے بطحائے مکہ میں تھے اور مجھ سے فرمایا: ”تم نے حج کی نیت کی؟“ میں نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا احرام باندھا؟“ میں نے عرض کی کہ میں نے کہا: لبیک مانند لبیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا خوب کیا، اب بیت اللہ کا طواف کرو اور صفا اور مروہ کا اور احرام کھول ڈالو۔“ اس لیے کہ ان کے ساتھ ہدی تو تھی ہی نہیں، پھر میں نے طواف کیا بیت اللہ اور صفا اور مروہ کا اور قبیلہ بنی قیس کی ایک عورت کے پاس آیا اس نے میرے سر کی جوئیں دیکھ دیں، پھر میں نے حج کی لبیک پکاری اور میں لوگوں کو بھی فتویٰ دیتا تھا (کہ جو حج کو آئے بے ہدی کے وہ عمرہ کر کے احرام کھول ڈالے پھر یوم الترویہ میں حج کا احرام باندھ لے) یہاں تک کہ جب خلافت ہوئی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی تو ایک شخص نے مجھ سے کہا: اے ابوموسیٰ! یا کہا اے عبداللہ بن قیس! تم اپنے بعض فتوے کو روک رکھو اس لیے کہ تم کو معلوم نہیں کہ امیرالمؤمنین نے کون سی نئی بات نکالی نسک میں تمہارے پیچھے (معلوم ہوا کہ صحابہ کا عقیدہ تھا کہ خلفا کی بات کو بھی احداث جانتے تھے اور نو پیدا خیال کرتے تھے اور سنت میں داخل نہ جانتے تھے اسی وجہ سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی جماعت تراویح جس کو آپ نے مقرر فرمایا تھا «نِعْمَتِ الْبِدْعَتهُ ھٰذهٖ» فرمایا اور یہ نہ کہا «نِعْمَتِ السُّنَةُ ھٰذهٖ» حالانکہ اصل تراویح کی سنت سے ثابت تھی بلکہ اصل جماعت کی بھی ثابت تھی مگر صرف دوام اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تھا اور دوام کا حکم سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے دیا اتنے سے تغیر کو جو ان کی جانب سے تھا آپ کو پسند نہ آیا کہ اس کو سنت میں داخل کریں۔ سبحان اللہ! کیا ادب تھا صحابہ کو جناب راست مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا اور اسی سے معلوم ہوا کہ قول صحابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں حجت نہیں ورنہ خلفاء کی بات کو احداث نہ کہتے) تب ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے لوگو! جن کو میں نے فتویٰ دیا ہے (یعنی احرام کھولنے کا) تو وہ تامل کریں اس لیے کہ امیرالمؤمنین آنے والے ہیں سو تم ان کی پیروی کرو، کہا راوی نے پھر آئے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور میں نے ان سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا: اگر ہم اللہ کی کتاب پر چلیں تو وہ حکم فرماتی ہے پورا حج و عمرہ بجا لانے کا اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام نہیں کھولا جب تک قربانی نہ پہنچ گئی اپنی جگہ پر۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 168
شعبہ سے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 169
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی کنکریلی زمین میں اونٹ بٹھائے ہوئے تھے (یعنی وہاں منزل کی ہوئی تھی) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: ”کیا اہلال کیا تم نے؟“ میں نے عرض کی جو اہلال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم قربانی ساتھ لائے ہو؟“ میں نے کہا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف کر کے احرام کھول ڈالو۔“ اور میں نے طواف کیا ویسا ہی پھر میں ایک عورت کے پاس آیا اپنی قوم کی اس نے میرے سر میں کنگھی کر دی اور میرا سر دھویا غرض میں لوگوں کو یہی فتویٰ دینے لگا آگے وہی مضمون ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 170
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے وہی مضمون مروی ہوا اتنی بات زیادہ ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کو بھیجا تھا اور میں اس سال آیا جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا آگے وہی مطلب ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 171
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ فتویٰ دیتے تھے متعہ کا (جیسا اوپر گزرا کہ حج کو عمرہ کر کے فسخ کر ڈالنا اور پھر یوم الترویہ میں حج کا احرام باندھنا) تو ایک شخص نے کہا: تم اپنے بعض فتوے کو روک رکھو اس لیے کہ تم کو معلوم نہیں کہ امیر المؤمنین نے کون سی نئی بات نکالی نسک میں۔ پھر وہ ملے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اور ان سے پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ تم جانتے ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کیا اور ان کے اصحاب نے ایام حج میں مطلق عمرہ بجا لانے کو اور پھر اس سال حج کرنے کو بھی متعہ کہتے ہیں۔ مگر میں جو منع کرتا ہوں تو اس لیے کہ مجھے برا معلوم ہوتا ہے کہ ہم لوگ عورتوں کے ساتھ شب باشی پیلو کے درختوں میں کریں۔ پھر حج کو جائیں کہ ان کے سر سے پانی ٹپکتا ہو (اور اس حال میں عرفات کو جائیں)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 172
عبداللہ بن شقیق نے کہا کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے منع کیا تمتع سے اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اس کا حکم کرتے تھے تو سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو کچھ کہا تب سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ جانتے ہیں کہ ہم نے متعہ کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (یعنی تمتع حج کا) تو انہوں نے کہا ہاں مگر ہم اس وقت ڈرتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 173
شعبہ سے ان اسناد کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 174
سعید بن مسیّب رحمہ اللہ نے کہا کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ دونوں عسفان (کہ نام ہے ایک مقام کا) میں جمع ہوئے اور سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ متعہ سے منع کرتے تھے (یعنی ایام حج میں کہ وہ تمتع ہے) تو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا اراداہ ہے تمہارا اس کام کے ساتھ جو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اور تم اس سے منع کرتے ہو؟ تو سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کہا: تم ہمیں چھوڑ دو ہمارے حال پر۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہیں نہیں چھوڑ سکتا۔ پھر جب سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے یہ حال دیکھا تو حج اور عمرہ دونوں کا لبیک پکارا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 175
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: تمتع حج کا خاص تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم کے لیے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 176
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: تمتع حج میں ہمارے ہی لیے خاص تھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 177
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: دو متعے ایسے ہیں کہ ہمارے لیے خاص تھے۔ یعنی متعہ عورتوں کا یعنی نکاح کرنا ایک وقت مقررہ تک اور متعہ حج کا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 178
عبدالرحمٰن بن ابی الشعثاء نے کہا کہ آیا میں ابراہیم نخفی اور ابراہیم تیمی کے پاس اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ جمع کروں حج اور عمرہ دونوں کو اس سال میں سو ابراہیم نخعی نے کہا کہ تمہارے والد تو کبھی ایسا ارادہ نہ کرتے تھے۔ اور قتیبہ نے کہا کہ روایت کی ہم سے سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے، ان سے بیان نے، ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے باپ نے کہ وہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ربذہ کو گئے اور ان سے حج و عمرہ جمع کرنے کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم لوگوں کے لیے خاص تھا اور تمہارے واسطے نہیں ہے یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم کے سوا اوروں کو روا نہیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 179
فزاری نے روایت کی کہ سعید نے کہا کہ روایت کی مجھ سے مروان نے جو فرزند ہیں معاویہ کے کہ خبر دی ہم کو سلیمان تیمی نے غنیم بن قیس سے کہ انہوں نے کہا: میں نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا متعہ کے بارے میں تو انہوں نے فرمایا کہ ہم نے متعہ کیا ہے اور معاویہ اس دن کافر تھے مکہ کے گھروں میں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 180
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 181
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث روایت کی گئی ہے اور سفیان کی روایت میں حج تمتع کے الفاظ ہیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 182
مطرف نے کہا کہ مجھ سے سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تم سے آج ایک حدیث بیان کروں کہ اللہ تعالیٰ تم کو آج کے بعد اس کا نفع دے اور جان لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھروالوں سے ایک گروہ کو عمرہ کروایا عشرہ ذی الحجہ میں اور پھر اس پر کوئی آیت نہ اتری کہ اس کو منسوخ کرتی اور نہ ان دونوں میں عمرہ سے منع فرمایا یہاں تک کہ دنیا سے چلے گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس کا جو جی چاہے، اپنی رائے سے کہا کرے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 183
جریری سے اسی سند سے یہی حدیث مروی ہے اور ابن حاتم کی روایت میں یہ ہے کہ پھر ایک شخص نے اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 184
مطرف نے کہا کہ مجھ سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تم سے ایک حدیث بیان کروں شاید اللہ عزوجل تم کو فائدہ بخشے اور وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ جمع کیا اور پھر اس سے منع نہ فرمایا یہاں تک کہ آپ فوت ہو گئے اور نہ اس میں کوئی قرآن کی آیت اتری جس سے ان کا جمع کرنا حرام ہوتا اور ہمیشہ میرے لیے سلام فرمایا جاتا تھا جب تک میں نے داغ نہیں لیا تھا پھر جب داغ لیا تو سلام موقوف ہو گیا پھر میں نے داغ لینا چھوڑ دیا تو پھر سلام ہونے لگا مجھ سے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 185
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 186
مطرف نے کہا: مجھے پیغام بھیج کر سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے بلا بھیجا اس بیماری میں جس ان کی وفات ہوئی تھی اور کہا: میں تم سے کئی حدیثیں بیان کرتا ہوں شاید اللہ تعالیٰ میرے بعد تم کو اس سے نفع دے پھر اگر میں جیتا رہا (یعنی اس مرض سے اچھا ہو کر) تو تم اس کو میرے نام سے بیان نہ کرنا اور پوشیدہ رکھنا اور اگر میں مر گیا تو چاہنا تو بیان کرنا۔ اول بات یہ ہے کہ مجھ پر سلام کیا گیا (یعنی فرشتوں کا) دوسرے یہ کہ میں خوب جانتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ دونوں کو جمع کیا (یعنی ایام حج میں) اور پھر اس میں نہ تو قرآن اترا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جمع سے منع فرمایا اور اس شخص نے جو چاہا سو اپنی رائے سے کہہ دیا (یعنی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 187
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جان لو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ کو اکھٹا کیا، پھر نہ تو اس بارے میں قرآن اترا اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا اور ایک شخص نے اس بارے میں اپنی رائے سے جو جی چاہا کہہ دیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 188
مطرف سے مروی ہے کہ عمران نے ان سے کہا کہ معتہ کیا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور نہ اترا اس میں قرآن (یعنی اس سے نہی میں) پھر فلاں شخص نے اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 189
اور کہا امام مسلم رحمہ اللہ نے کہ روایت کی مجھ سے حجاج بن شاعر نے ان سے عبیداللہ بن عبدالمجید نے، ان سے اسماعیل بن مسلم نے، ان سے محمد بن واسع نے، ان سے مطرف بن عبداللہ بن شخیر نے، ان سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے یہی حدیث کہ متعہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور متعہ کیا ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 190
وہی مضمون ہے جو اوپر مذکور ہوا کہا مسلم نے کہ روایت کی کہ مجھ سے محمد بن حاتم نے، ان سے یحییٰ نے، ان سے عمران قیصر نے، ان سے ابورجاء نے، ان سے عمران بن حصین نے مثل اسی روایت کے مگر اتنا فرق ہے کہ انہوں نے کہا کہ کیا ہم نے یہ (یعنی متعہ حج کا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور یہ نہیں کہا کہ حکم کیا ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا یعنی جیسے اوپر کی روایت میں حکم کا ذکر تھا ویسا اس میں نہیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 191
ابورجاء سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں اسی طرح سوائے اس کے کہ انہوں نے کہا کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی طرح کیا اور «اَمَرََنَا» کے الفاظ نہیں بولے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 192
سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ متعہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع میں عمرہ کے ساتھ حج میں ملا کر اور قربانی کی اور قربانی کے جانور اپنے ساتھ لے گئے ذی الحلیفہ سے اور شروع میں آپ نے لبیک پکاری عمرہ کی پھر لبیک پکاری حج کی اور اسی طرح لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لبیک پکاری عمرہ اور حج کے ساتھ اور لوگوں میں کسی کے پاس قربانی تھی کہ وہ قربانی کا جانور اپنے ساتھ لایا تھا اور کسی کے پاس قربانی نہ تھی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنچے لوگوں سے فرمایا: ”جو قربانی لایا ہو وہ کسی چیز سے حلال نہ ہو جس سے حالت میں حرام میں دور رہا ہے جب تک اپنے حج سے فارغ نہ ہو اور جو قربانی نہ لایا ہو تو وہ بیت اللہ کا طواف کرے اور صفا اور مروہ میں سعی کر کے اپنے بال کتر ڈالے اور احرام کھول ڈالے پھر حج کی لبیک پکارے یعنی آٹھویں تاریخ اور چاہئیے کہ بعد حج کے قربانی کرے، پھر جس کو قربانی میسر نہ ہو تو وہ تین روزے رکھے حج میں اور سات روزے رکھے جب اپنے گھر پہنچے۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں آئے تو پہلے پہل حجر اسود کو بوسہ دیا، پھر تین بار کو کود کود کر شانہ اچھال کر طواف بیت اللہ کیا (یعنی جسے رمل کہتے ہیں) اور چار بار چل کر طواف کیا (جیسے عادت کے موافق چلتے ہیں) پھر دو رکعات پڑھیں جب طواف سے فارغ ہو چکے اور دو رکعت مقام ابراہیم کے پاس ادا کیں پھر سلام پھیرا اور صفا پر تشریف فرما ہوئے اور صفا اور مروہ کے بیچ میں سات بار طواف کیا اور پھر کسی چیز کو اپنے اوپر حلال نہیں کیا ان چیزوں میں سے جن کو بہ سبب احرام کے اپنے اوپر حرام کیا تھا یہاں تک کہ حج سے بالکل فارغ ہو گئے اور قربانی اپنی ذبح کی یوم النحر یعنی دسویں تاریخ اور پھر مکہ کو لوٹ آئے اور طواف افاضہ کیا بیت اللہ کا، پھر ہر چیز کو اپنے اوپر حلال کر لیا جن کو احرام سے حرام کیا تھا اور جو لوگ قربانی اپنے ساتھ لائے تھے انہوں نے بھی ویسا ہی کیا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 193
یہ حدیث چند الفاظ کے اختلاف سے اس سند کے ساتھ بھی آئی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 194
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی اے االلہ کے رسول! لوگوں نے اپنا احرام کھول ڈالا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کر کے احرام کیوں نہیں کھولا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ””میں نے اپنے سر کے بالوں کو خطمی وغیرہ سے جمایا ہے اور اپنی قربانی کے گلوں میں ہارڈالے ہیں سو میں احرام نہ کھولوں گا جب تک کہ قربانی ذبح نہ کر لوں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 195
کہا مسلم نے اور روایت کی ہم سے یہی حدیث ابن نمیر نے، ان سے خالد بن مخلد نے، ان سے مالک نے، ان سے نافع نے، ان سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہ انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! کیا سبب ہے کہ آپ نے احرام نہ کھولا مانند اوپر کی روایت کے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 196
سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے وہی مضمون مروی ہے مگر اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں احرام نہ کھولوں گا جب تک حج کا احرام نہ کھولوں۔“ اور کہا مسلم رحمہ اللہ نے کہ روایت کی ہم سے ابوبکر بن ابوشیبہ نے، ان سے ابواسامہ نے، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے، ان سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! اور روایت کی مثل حدیث مالک رحمہ اللہ کے اور اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں احرام نہ کھولوں گا جب تک کہ قربانی ذبح نہ کر لوں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 197
مذکورہ بالا حدیث ایک اور سند سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 198
عبداللہ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لخت جگر نے کہا کہ بیان کیا مجھ سے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا اپنی بیبیوں کو کہ احرام کھول ڈالیں حجتہ الوداع کے سال میں، تو بی بی سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کون روکتا ہے احرام کھولنے سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ میں نے اپنے سر کے بالوں کو خطمی وغیرہ سے جمایا ہے اور اپنی قربانی کے گلے میں ہار ڈالا ہے سو میں احرام نہ کھولوں گا جب تک اپنی قربانی ذبح نہ کر لوں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 199
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نکلے ایام فتنہ میں عمرے کو اور کہا: اگر میں روکا گیا بیت اللہ سے تو ویسا ہی کریں گے جیسا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میں کیا تھا، پھر نکلے عمرہ کا احرام کر کے یہاں تک کہ بیداء پہنچے (جہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لبیک اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم نے سنی تھی حجتہ الوداع میں) اپنے یاروں سے کہا کہ حج اور عمرہ کا حکم ایک ہی ہے کہ دونوں سے اہلال کر سکتے ہیں تو میں تم کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر حج بھی عمرہ کے ساتھ واجب کر لیا اور چلے یہاں تک کہ بیت اللہ پہنچے اور وہاں سات بار طواف کیا اور سات بار صفا اور مروہ کے بیچ میں سعی کی اور اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ اور اسی کو کافی سمجھا اور قربانی کی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 200
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عبداللہ اور سالم بن عبداللہ ان دونوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا جن دنوں حجاج بن یوسف، سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے لڑنے آیا تھا کہ اگر آپ اس سال حج نہ کریں تو کیا ضرر ہے اس لیے کہ ہم کو خوف ہے کہ ایسا نہ ہو کہ لوگوں میں لڑائی ہو اور آپ بیت اللہ نہ جا سکیں تو انہوں نے کہا: اگر میں نہ جا سکوں تو ویسا ہی کروں گا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے جب کفار قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا تھا بیت اللہ سے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، پھر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ گواہ رہو میں نے عمرہ اپنے اوپر واجب کیا اور چلے یہاں تک کہ ذوالحلیفہ پہنچے اور عمرہ کی لبیک پکاری پھر کہا: اگر میری راہ کھل گئی تو میں عمرہ بجا لاؤں گا اور اگر میرے اور بیت اللہ میں کوئی حائل ہو گیا تو ویسا ہی کروں گا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا پھر یہ آیت پڑھی کہ «لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ» (۳۳-الاحزاب:۲۱) یعنی ”تم کو اچھی پیروی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں۔“ پھر چلے یہاں تک کہ جب بیداء کی پیٹھ پر پہنچے تو کہا کہ حج اور عمرہ دونوں کا ایک ہی حکم ہے کہ اگر میں اپنے سے عمرہ سے روکا گیا تو حج سے بھی روکا جاؤں گا میں تم کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے حج بھی اپنے عمرہ کے ساتھ واجب کیا پھر چلے یہاں تک کہ قدید سے قربانی خریدی اور حج اور عمرہ دونوں کے لیے ایک طواف اور ایک سعی کی بیت اللہ اور صفا مروہ کی اور احرام نہ کھولا یہاں تک کہ حج سے فارغ ہوئے اور قربانی کے دن دونوں سے احرام کھولا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 201
نافع سے وہی قصہ مذکور ہے مگر اخیر میں یہ ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ جو حج و عمرہ جمع کرے اس کو ایک طواف کافی ہے اور احرام نہ کھولے یہاں تک کہ دونوں سے فارغ ہو کر احرام کھولے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 202
نافع سے وہی مضمون مروی ہوا جو کئی بار اوپر گزرا اتنی بات زیادہ ہے کہ جب سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما مکہ میں آئے تو حج اور عمرہ دونوں کی لبیک پکارتے تھے اور بیت اللہ اور صفا مروہ کا ایک ہی بار طواف کیا۔ اور نہ قربانی کی اور نہ سر منڈایا، نہ بال کترائے اور نہ کسی چیز کو حلال کیا جن کو احرام کے سبب سے حرام کیا تھا۔ یہاں تک کہ نحر کا دن ہوا (یعنی دسویں تاریخ ذی الحجہ کی) اور قربانی کی اور سر منڈایا۔ اور خیال کیا کہ حج اور عمرہ کو وہی طواف اول کافی ہو گیا۔ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ایسا ہی کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 203
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ قصہ اسی طرح بیان کیا گیا ہے آپ نے سوائے حدیث کے آغاز کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا۔ جب ان سے کہا گیا کہ لوگ آپ کو بیت اللہ سے روک دیں گے تو آپ نے فرمایا کہ تب میں وہی کروں گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور حدیث کے آخر میں یہ نہیں کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 204
سیدنا عبداللہ، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے فرزند سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا لبیک پکاری ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اکیلے حج کی اور ابن عون کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیلے حج کی لبیک پکاری۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 205
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لبیک پکارتے تھے حج اور عمرہ دونوں کی۔ بکر نے کہا کہ میں نے یہی حدیث سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کی تو انہوں نے کہا: فقط حج کی لبیک پکاری۔ سو میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے کہا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما تو یوں کہتے ہیں۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم لوگ ہم کو بچہ جانتے ہو۔ میں نے بخوبی سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”لبیک ہے عمرہ کی اور حج کی۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 206
مضمون وہی ہے صرف الفاظ میں یہ فرق ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا گویا ہم بچے تھے (یعنی سمجھے نہیں)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 207
وبرہ نے کہا کہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص آیا اور کہا کہ مجھے طواف کرنا قبل عرفات میں جانے کے درست ہے؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا ہاں۔ اس نے کہا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تو کہتے ہیں کہ جب تک عرفات میں نہ جائے تب تک طواف نہ کرے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا اور بیت اللہ کا طواف کیا عرفات میں جانے سے پہلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول لینا بہتر ہے یا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اگر سچا ہے تو۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 208
وبرہ نے کہا کہ ایک شخص نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ میں طواف کروں بیت اللہ کا اور میں نے حج کا احرام باندھا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ طواف سے تم کو کون روک سکتا ہے انہوں نے کہا کہ میں نے فلانے کے فرزند کو دیکھا (یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما کو) کہ وہ اس کو مکروہ جانتے ہیں اور آپ ان سے زیادہ ہمارے پیارے ہیں اور میں ان کو دیکھتا ہوں کہ دنیا نے ان کو غافل کر دیا ہے تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہم میں اور تم میں کون ایسا ہے جس کو دنیا نے غافل نہیں کیا۔ پھر کہا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ انہوں نے حج کا احرام باندھا اور بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا مروہ میں سعی کی اور سنت اللہ کی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہتر ہے تابعداری کے لیے فلانے کی سنت سے اگر تو سچا ایمان دار ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 209
عمرو بن دینار نے کہا کہ ہم نے پوچھا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ ایک شخص عمرہ لایا اور بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کے بیچ میں نہیں پھرا کیا وہ اپنی بی بی سے صحبت کرے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں آئے اور بیت اللہ کا طواف کیا سات بار اور مقام ابراھیم کے پیچھے نماز پڑھی دو رکعت اور صفا اور مروہ کے بیچ میں سعی کی سات بار اور تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی خوب ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 210
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ابن عیینہ کی طرح روایت کی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 211
محمد جو فرزند ہیں عبدالرحمٰن کے روایت ہے کہ ایک شخص نے عراق والوں سے ان سے کہا کہ سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے میرے لیے یہ پوچھ دو کہ جو شخص لبیک پکارے حج کی اور طواف کر چکے بیت اللہ کا تو وہ حلال ہو چکا یا یا نہیں؟ (یعنی احرام اس کا کھل گیا یا نہیں؟) پھر اگر وہ تم سے کہیں کہ نہیں حلال ہوا تو ان سے کہو کہ ایک شخص کہتا ہے کہ وہ حلال ہو گیا۔ محمد نے کہا کہ پھر میں نے عروہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نہیں حلال ہوا وہ شخص جس نے لبیک حج کی پکاری ہے جب تک کہ حج پورا نہ کرے۔ میں نے کہا کہ ایک شخص کہتا ہے حلال ہو گیا، تو انہوں نے فرمایا: بہت برا کہتا ہے پھر وہ عراقی مجھے ملا اور مجھ سے پوچھا تو میں نے اس سے بیان کر دیا (یعنی جواب عروہ کا) تو اس نے کہا کہ ان سے کہو وہ یہ کہتا ہے کہ ایک شخص نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا اور اسماء اور زبیر نے بھی دونوں نے ایسا کیوں کیا؟ محمد نے کہا: میں پھر عروہ کے پاس گیا اور ان سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ کون شخص ہے؟ میں نے کہا: میں اس کا حال نہیں جانتا۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ میرے پاس آ کر کیوں نہیں پوچھ لیتا میں اس کو عراق والا جانتا ہوں، میں نے کہا میں نہیں جانتا (اس وقت تک شاید ان کو بھی معلوم نہ ہو کہ یہ عراقی ہے بعد میں معلوم ہوا ہو) تب عروہ نے کہا کہ اس نے جھوٹ کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حج کیا تو اس کی خبر دی مجھ کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ پہلے پہل جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو وضو کیا اور بیت اللہ کا طواف کیا (اس سے ثابت ہوا وضو کرنا اور امت کا اجماع ہے کہ وضو طواف کے لیے مشروع ہے مگر اس میں اختلاف ہے کہ واجب ہے یا شرط صحت طواف کی۔ امام مالک اور شافعی اور جمہور اور امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ شرط ہے یعنی بغیر وضو طواف صحیح نہیں اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ مستحب ہے اور شرط نہیں اور جمہور کی دلیل یہی حدیث ہے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول یہی اس کی دلیل ہے جو ترمذی رحمہ اللہ وغیرہ نے روایت کی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ طواف بیت اللہ کا نماز ہے مگر االلہ تعالیٰ نے اس میں کلام روا کر دیا اور اگرچہ صحیح یہی ہے کہ یہ روایت موقوف ہے اور قول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ہی ہے مگر جب قول صحابی مشہور ہو جائے اور کوئی اس پر انکار نہ کرے تو حجت ہے علی الخصوص جب فعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس پر دال ہو، پھر اس کی حجت ہونے میں کیا مقال ہے) پھر حج کیا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اور انہوں نے بھی پہلے طواف کیا۔ بیت اللہ کا اور نہ تھا کچھ سوا اس کے یہاں پر جو متن میں «لَمْ يَكُنْ غَيْرُهُ» ہے اور آگے بھی کئی جگہ یہی لفط آیا ہے اس کو قاضی عیاض رحمہ اللہ نے کہا کہ کہ کاتب کی غلطی ہے صحیح یہ ہے کہ «لَمْ يَكُنْ عُمْرَةٍ» یعنی پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے طواف کر کے اپنے حج کو عمرہ نہیں کر ڈالا کہ عمرہ کر کے احرام کھول دیتے ہوں اور حج کا احرام پھر دوبارہ مکہ سے باندھے ہوں جیسا مذہب ہے بعض کا اور یہی قول ہے ابن قیم رحمہ اللہ کا اور دلائل اس کے ہم اوپر بیان کر چکے ہیں اور اس سائل کا بھی مذہب یہی تھا اور نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ «غيره» کا لفظ غلط نہیں ہے بلکہ لفظ اور معنی دونوں صحیح ہیں یعنی «لم يكن غيره» تشدید یاء ہے یعنی پھر طواف کر کے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کو بدل نہیں ڈالا کہ حج کو عمرہ کر دیا ہو یا قران کر دیا ہو) پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی اس کی مثل کیا پھر حج کیا سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اور ان کو بھی میں نے دیکھا کہ پہلے طواف بیت اللہ کیا اور اس کو بدلا نہیں، پھر سیدنا معاویہ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم نے بھی، پھر حج کیا میں نے اپنے باپ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ سو انہوں نے بھی پہلے طواف کیا بیت اللہ کا اور پھر اس کو بدلا نہیں، پھر میں نے مہاجرین اور انصار کو بھی یہی کرتے دیکھا، پھر میں نے سب کے اخیر میں جس کو ایسا کرتے دیکھا وہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہیں کہ انہوں نے بھی حج کو عمرہ کر کے توڑ نہیں ڈالا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما تو ان کے پاس موجود ہیں یہ لوگ ان سے کیوں نہیں پوچھ لیتے اور اسی طرح جتنے لوگ گزر چکے ہیں سب لوگ جب مکہ میں قدم رکھتے تھے تو پہلے طواف کرتے تھے بیت اللہ کا اور پھر احرام نہیں کھولتے تھے (اس سے معلوم ہوا کہ طواف قدوم سے احرام نہیں کھلتا اور معلوم ہوا کہ باہر کا آدمی جب حرم میں داخل ہو تو پہلے طواف کرے۔ تحیتہ المسجد نہ پڑھے اور یہ سب باتیں متفق علیہ ہیں) اور میں نے اپنی والدہ اور خالہ کو دیکھا کہ جب یہ تشریف لاتیں۔ (یعنی جب تک حج اور عمرہ سے فارغ نہ ہو لیتیں) اور میری ماں نے مجھے خبر دی ہے کہ وہ آئیں اور ان کی بہن (یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور فلانے فلانے عمرہ لے کر پھر جب حجر اسود کو چھوا حلال ہو گئیں (یعنی بعد اتمام طواف اور سعی کے) اور اس عراقی نے جو کہا جھوٹ کہا (اس مسئلہ میں)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 212
سیدہ اسماءرضی اللہ عنہا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ہم احرام باندھ کر نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے ساتھ ہدی ہو وہ تو اپنے احرام پر قائم رہے اور جس کے ساتھ نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے۔“ اور میرے ساتھ ہدی نہ تھی سو میں نے احرام کھول ڈالا اور زبیر کے ساتھ ہدی تھی (یہ ان کے شوہر تھے) سو انہوں نے احرام نہ کھولا اسماء کہتی ہیں کہ پھر میں نے اپنے کپڑے پہنے اور نکلی اور زبیر کے پاس جا بیٹھی تو انہوں نے کہا کہ تم میرے پاس سے اٹھ جاؤ (اس لیے میں احرام ہوں اور یہ احتیاط اور تقویٰ کی بات ہے کہ شاید بی بی کی طرف مائل ہوں اور شہوت سے چھیڑ چھاڑ ہو) تو میں نے ان سے کہا کہ کیا تم ڈرتے ہو کہ میں تمہارے اوپر کود پڑوں گی؟ (یہ انہوں نے ظرافت سے کہا کہ مرد ہو کر عورتوں سے کیا ڈرتے ہو)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 213
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے وہی مضمون مروی ہے اور اس میں یہ ہے کہ جب سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کپڑے بدل کر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں تو انہوں نے فرمایا: تم مجھ سے دور ہو جاؤ، تم مجھ سے دور ہو جاؤ، تو انہوں نے کہا کہ کیا تم ڈرتے ہو کہ میں تم پر کود پڑوں گی؟ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 214
ابوالاسود سے روایت ہے کہ عبداللہ نے جو کہ مولیٰ ہیں سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا کے ان سے بیان کیا کہ اسماء ہمیشہ جب حجون کے اوپر گزرتیں (حجون بفتح قریب مکہ کی بلندی کی طرف اور جب جانے والا محصب پر چڑھتا ہے تو وہ داہنی طرف پڑتا ہے) فرماتیں کہ اللہ تعالیٰ رحمت کرے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ ہم ان کے ساتھ یہاں اترے ہیں اور ہمارے پاس ان دنوں بوجھے کم تھے اور سواریاں تھوڑی تھیں اور توشہ قلیل تھا (یعنی عرب کی سادگی اور دنیا سے آزادگی تھی) اور میں نے اور میری بہن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے اور فلانے فلانے شخصوں نے عمرہ کیا تھا، پھر جب ہم نے بیت اللہ کو چھوا (یعنی طواف اور سعی پوری کی) تو حلال ہو گئی، پھر تیسرے پہر کو حج کا احرام باندھا اور ہارون نے اپنی روایت میں کہا کہ روایت کی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے مولیٰ نے اور ان کا نام عبداللہ نہیں لیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 215
مسلم قری نے کہا کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حج کے تمتع کو پوچھا تو انہوں نے اجازت دی اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ اس سے منع کرتے تھے تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی ماں موجود ہیں، روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ہے سو تم لوگ ان کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو، کہا انہوں نے کہ پھر ہم ان کے پاس گئے اور ان کو دیکھا کہ وہ ایک فربہ عورت ہیں اور نابینا۔ سو انہوں نے کہا کہ بے شک اجازت دی ہے تمتع کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 216
شعبہ نے اسی اسناد سے یہی مضمون روایت کیا اور عبدالرحمٰن کی روایت میں صرف متعہ کا لفظ ہے اور معتہ حج مذکور نہیں اور ابن جعفر کی روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا کہ شعبہ نے کہا کہ مسلم نے کہا: میں نہیں جانتا کہ یہ متعہ حج کا ہے یا متعہ عورتوں کا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 217
مسلم نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ کہتے تھے کہ لبیک پکاری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ ے بعد، احرام نہیں کھولا اور نہ ان لوگوں نے جو قربانی لائے تھے اور باقی لوگوں نے عمرہ کر کے احرام کھول ڈالا اور طلحہ بن عبیداللہ ان میں تھے جو قربانی لائے تھے سو انہوں نے احرام نہیں کھولا۔ مسلم نے کہا کہ روایت کی ہم سے یہی حدیث محمد بن بشار نے، ان سے محمد نے یعنی ابن جعفر نے، ان سے شعبہ نے اسی اسناد سے مگر اس میں یہ ہے کہ طلحہ بن عبیداللہ ان لوگوں میں تھےجوقربانی نہیں لائے تھےاور ایک اورشخص بھی انہی میں تھے سو ان دونوں نے احرام کھول ڈالا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 218
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے لیکن اس میں ہے کہ طلحہ بن عبیداللہ اور ایک شخص جن کے پاس قربانی نہیں تھی وہ دونوں حلال ہو گئے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 219
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ لوگ جاہلیت میں (یعنی اسلام کے زمانہ سے پہلے) حج کے دونوں میں عمرہ لانے کو زمین کے اوپر بڑا گناہ جانتے تھے اور محرم کے مہینہ کو صفر کر دیا کرتے تھے (یعنی اس لیے کہ تین مہینے برابر ماہ حرام کے جو آتے ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم تو وہ گھبرا جاتے اور لوٹ پوٹ نہ کر سکتے اس لیے یہ شرارت نکالی کہ محرم کی جگہ صفر کو لکھ دیا اور خوب لوٹ پاٹ کی اور جب صفر کا مہینہ آیا تو محرم کی طرح اس کا ادب کیا اور یہی نسئی تھی جس کو قرآن میں اللہ تعالیٰ مشرکوں کی عادت فرماتا ہے) کہتے تھے: جب اونٹوں کی پیٹھیں اچھی ہو جائیں (یعنی جو سفر حج کے سبب سے لگ گئی ہیں اور زخمی ہو گئیں ہیں) اور راستوں سے حاجیوں کے اونٹوں کے نشان قدم مٹ جائیں اور صفر کا مہینہ تمام ہو جائے تب عمرہ جائز ہے عمرہ کرنے والے کو پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ چوتھی ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم فرمایا کہ اس حج کے احرام کو عمرہ بنا دیں (جیسے مذہب ابن قیم رحمہ اللہ وغیرہ کا ہے کہ اوپر بدلائل گزر چکا) سو یہ لوگوں کو بڑی انوکھی بات لگی اور عرض کی: یا رسول اللہ! ہم کیسے حلال ہوں! (یعنی پورے یا ادھورے کہ بعض چیز سے بچتے رہیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پورے حلال ہو۔“ یعنی کسی چیز سے پرہیز کی ضرورت نہیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 220
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے فرزند فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک پکاری حج کی، پھر جب چار تاریخیں گزریں ذی الحجہ کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھی، پھر جب نماز صبح سے فارغ ہوئے فرمایا: ”جس کا جی چاہے اس احرم حج کو عمرہ کر ڈالے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 221
چند الفاظ کے فرق کے ساتھ مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی روایت کی گئی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 222
عبداللہ، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے فرزند سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب چوتھی تاریخ ذی الحجہ کی مکہ میں آئے لبیک پکارتے ہوئے حج کی سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم فرمایا: ”اس کو عمرہ کر ڈالو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 223
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی ذی طویٰ میں (وہ ایک وادی ہے مکہ کے قریب) اور مکہ میں صبح آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تاریخ چوتھی گزر چکی ذی الحجہ کی اور اپنے یاروں کو حکم فرمایا کہ اپنے حج کے احرام کو عمرہ کر ڈالیں۔ مگر جن کے پاس قربانی ہو۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 224
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ عمرہ جس سے ہم نے نفع لیا سو جس کے پاس قربانی نہ ہو وہ اسی طرح حج کا احرام عمرہ کر کے کھول ڈالے اس لیے کہ عمرہ حج کے دنوں میں روا ہو گیا قیامت تک۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 225
شعبہ نے ابوجمرہ ضبعی سے سنا ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے تمتع کیا اور لوگوں نے مجھے منع کیا۔ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور ان سے پوچھا، سو انہوں نے مجھے حکم دیا اور پھر میں بیت اللہ کے پاس جا کر سو رہا اور خواب میں دیکھا کہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ عمرہ بھی مقبول ہے اور حج بھی مقبول ہے۔ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے خواب بیان کیا کہا: سب بزرگی اللہ کو ہے، سب بزرگی اللہ کو ہے، یہ سنت ہے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ (یعنی پھر کیوں نہ قبول ہو)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 226
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھی ذوالحلیفہ میں اور اپنی اونٹنی کو منگایا (یعنی قربانی کی) اور اس کی کوہان کے اوپر داہنی طرف اشعار کیا (یعنی ایک زخم لگا دیا) اور خون کو صاف کر دیا اور اس کے گلے میں دو جوتوں کا ہار لٹکا دیا (یہ تقلید ہوئی) پھر اپنی سواری پر سوار ہوئے اور جب اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لےکر بیداء پر سیدھی کھڑی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک پکاری (یعنی اگرچہ نماز کے بعد بھی لبیک کہہ چکے مگر یہاں بھی پکاری)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 227
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔ اس میں یہ ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ آئے۔ اس میں ظہر کی نماز کا ذکر نہیں ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 228
قتادہ نے کہا: میں نے ابوحسان اعرج سے سنا ہے کہ ایک شخص نے بنی ھجیم کے قبیلہ میں سے کہا کہ اے ابن عباس! یہ کیا فتویٰ آپ دیتے ہیں جس میں لوگ مشغول ہو رہے ہیں یا جس میں لوگ گڑبڑ کر رہے ہیں کہ جس نے طواف کیا بیت اللہ کا (یعنی حاجیوں میں سے اور اس طواف سے طواف قدوم مراد ہے) سو وہ حلال ہو گیا تو انہوں نے فرمایا: یہ سنت ہے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اگرچہ تمہاری ناک مین خاک بھر جائے۔ (یعنی تمہارے خلاف ہو تو ہوا کرے)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 229
قتادہ سے روایت ہے کہ ابوحسان نے کہا کہ کسی نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ لوگوں میں بہت پھیل گیا ہے کہ جو طواف کرے بیت اللہ کا وہ حلال ہو گیا اور اس کو عمرہ کر ڈالے (یعنی اگرچہ احرام حج کا ہو) تو انہوں نے فرمایا کہ یہ سنت تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اگرچہ تمہاری ناک میں خاک بھرے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 230
عطاء نے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فتویٰ دیتے تھے کہ جس نے طواف کیا بیت اللہ کا (یعنی پہلے پہل مکہ کے آتے ہی) وہ حلال ہو گیا خواہ حاجی ہو یا غیر حاجی (یعنی معتمر ہو) میں نے عطاء سے کہا کہ وہ یہ بات کہاں سے کہتے تھے؟ انہوں نے کہا: اس آیت سے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ» ”پھر جگہ اس قربانی کے پہنچنے کی بیت اللہ تک ہے۔“ تو میں نے کہا: یہ تو عرفات سے آنے کے بعد ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول یہ ہے کہ محل اس کا بیت اللہ ہے خواہ بعد عرفات کے ہو یا قبل اس کے اور وہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل مبارک سے نکالتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حکم فرمایا کہ لوگ احرام کھول ڈالیں حجۃ الوداع میں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 231
طاؤس رحمہ اللہ نے کہا کہ مجھ سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ذکر کیا، مجھ سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہیں خبر دے چکا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کے بال کترے ہیں مروہ کے نزدیک تیر کی پیکان سے سو میں نے ان کو جواب دیا کہ یہ تو تمہارے اوپر حجت ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 232
طاؤس نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کو خبر دی کہ میں نے بال کترے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مروہ کے اوپر تیر کی بھال سے یا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ بال کتروا رہے ہیں تیر کی بھال سے مروہ پر۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 233
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کو پکارتے ہوئے پھر جب مکہ میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم اس احرام حج کو عمرہ کر ڈالیں مگر وہ لوگ جن کے ساتھ قربانی ہے، پھر جب آٹھویں تاریخ ہوئی ذوالحجہ کی اور سب منیٰ کو چلے تو پھر لبیک پکاری حج کی یعنی بیچ میں عمرہ کر کے احرام کھول ڈالا تھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 234
سیدنا جابر اور سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہما دونوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کو آئے حج پکارتے ہوئے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 235
ابونضرہ نے کہا کہ میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ ایک شخص نے آ کر کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ دونوں متعوں میں اختلاف کر رہے ہیں (یعنی ایک متعہ نساء میں اور ایک متعہ حج میں،) تو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نے دونوں متعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کئیے ہیں پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو منع فرمایا تو ہم نے نہیں کیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 236
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ یمن سے آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے کیا احرام باندھا؟“ انہوں نے کہا: میں نے یوں لبیک پکاری کہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو وہی میری لبیک ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے ساتھ اگر قربانی نہ ہوتی تو میں عمرہ کر کے احرام کھول ڈالتا۔“ (یعنی اب تم بھی احرام نہ کھولنا جیسے میں نہ کھولوں گا)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 237
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 238
یحییٰ وغیرہ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سنا کہ انہوں نے کہا: سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک پکاری حج اور عمرہ دونوں کی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 239
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث بیان کی گئی ہے۔ ایک روایت میں «لَبَّيْكَ عُمْرَةً وَحَجًّا» کے الفاظ ہیں اور دوسری روایت میں «لَبَّيْكَ بِعُمْرَةٍ وَحَجٍّ» کے الفاظ ہیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 240
حنظلہ جو قبیلہ بنی اسلم سے ہیں انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”قسم ہے اس پروردگار کی کہ میری جان اس کے ہاتھ میں ہے کہ البتہ بلاشک و شبہ عیسیٰ علیہ السلام فرزند مریم کے روحاء کی گھاٹی میں جو کہ مکہ مدینہ کے بیچ میں ہے لبیک پکاریں گے حج کی یا عمرہ کی یا قران کریں گے اور دونوں کی لبیک پکاریں گے، ایک ہی ساتھ۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 241
وہی مضمون ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 242
کہا مسلم نے روایت کی مجھ سے حرملہ نے، ان سے ابن وہب نے، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے حنظلہ بن علی اسلمی نے انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اس پروردگار کی قسم ہے کہ میری جان جس کے ہاتھ میں ہے۔“ آگے وہی مضمون ہے جو اوپر کی روایت میں دونوں راویوں نے بیان کیا ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 243
قتادہ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کئے اور سب ذی قعدہ میں مگر جو حج کے ساتھ ہوا کہ ایک عمرہ حدیبیہ ذی قعدہ میں، دوسرا، اس کے بعد سال میں ذی قعدہ میں، تیسرا عمرہ جو جعرانہ سے لائے جہاں حنین کی لوٹ تقسیم کی ذیقعدہ میں اور چوتھا وہ جو حج کے ساتھ ہوا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 244
قتادہ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے حج کیے؟ انہوں نے فرمایا کہ ایک حج کیا اور چار عمرے کیے۔ باقی مضمون وہی ہے جو اوپر کی روایت میں گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 245
ابواسحٰق نے کہا کہ میں نے زید بن ارقم سے پوچھا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کتنے جہادوں میں رہے؟ انہوں نے کہا: سترہ میں اور انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس جہاد کیے اور ہجرت کے بعد ایک حج کیا جسے حجتہ الوداع کہتے ہیں اور ابواسحاق نے کہا: دوسرا جب حج کیا کہ مکہ میں تھے یعنی قبل ہجرت کے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 246
عطاء رحمہ اللہ نے کہا: خبر دی مجھے عروہ نے کہا: میں اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما دونوں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے سے تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے تھے۔ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مسواک کر رہی تھیں اور ہم ان کے مسواک کی آواز سن رہے تھے۔ سو میں نے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! یہ کنیت ہے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی، کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب میں عمرہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی کہ اے میری ماں آپ سنتی ہیں کہ ابوعبدالرحمٰن کیا کہتے ہیں؟ میں نے کہا: وہ کہتے ہیں کہ عمرہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب میں تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کہ اللہ بخشے ابوعبدالرحمٰن کو قسم ہے میری جان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی رجب میں عمرہ نہیں کیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کیا تو ابوعبدالرحمٰن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ بات سنی اور نہ ہاں کہا نہ نا، اور چپ ہو رہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 247
مجاہد سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں اور عروہ دونوں مسجد نبوی میں گئے اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے پاس بیٹھے تھے اور لوگ مسجد میں نماز چاشت پڑھ رہے تھے، سو میں نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یہ نماز کیسی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ بدعت ہے (یعنی مسجد میں ادا کرنا اس کا اور اہتمام کرنا مثل صلوۃ مفروضہ کے بدعت ہے) پھر ان سے کہا عروہ نے اے ابوعبدالرحمٰن! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کیے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ چار، ایک ان میں سے رجب میں ہے سو ہم کو برا معلوم ہوا کہ ہم ان کی تکذیب کریں یا ان کو رد کر دیں اور مسواک کرنے کی آواز سنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی کہ وہ حجرے میں تھیں۔ سو عروہ نے کہا کہ آپ سنتی ہیں اے مؤمنوں کی ماں! جو ابوعبدالرحمٰن کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے پوچھا کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا: وہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کیے ہیں ایک رجب میں تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ رحمت کرے ابوعبدالرحمٰن پر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی عمرہ ایسا نہیں کیا جو یہ ان کے ساتھ نہ ہوں اور رجب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی عمرہ نہیں کیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 248
عطاء نے کہا: میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی ایک بی بی سے فرمایا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کا نام بھی لیا مگر میں بھول گیا کہ کیوں تم ہمارے ساتھ حج کو نہیں چلتیں؟ تو انہوں نے عرض کی کہ ہمارے پاس پانی لانے کے لئے دو ہی اونٹ تھے سو ایک پر ہمارا شوہر اور ہمارا بیٹا حج کو گیا اور ایک اونٹ ہمارے لئے چھوڑ گیا کہ اس پر ہم پانی لاتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا جب رمضان آئے تو تم ایک عمرہ کر لینا کہ اس کا بھی ثواب حج کے برابر ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 249
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وہی مضمون مروی ہے مگر اس میں ہے کہ اس عورت نے کہا کہ ہمارے شوہر کے دو اونٹ تھے، ایک پر وہ اور ان کا لڑکا حج کو گیا ہے اور دوسرے پر ہمارا چھوکرا پانی لاتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”عمرہ رمضان میں حج کے برابر ہے۔“ یا فرمایا: ”ہمارے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔“ اور یہ بھی ہے کہ ان صحابیہ کا نام ام سنان رضی اللہ عنہا تھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 250
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ سے نکلتے تو شجرہ کی راہ سے نکلتے اور معرس کی راہ سے داخل ہوتے (معرس ایک مقام ہے مدینہ سے چھ میل پر) اور جب مکہ میں داخل ہوتے تو اونچے ٹیلے سے اور جب نکلتے تو نیچے کے ٹیلے سے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 251
عبیداللہ سے اسی سند سے یہی مضمون مروی ہوا اور ایک روایت میں زہیر کی یہ ہے کہ داخل ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں اوپر کے ٹیلے سے جو بطحاء میں ہے (اور وہ ایک مقام کا نام ہے محصب کے بازو میں اور یہ وہ ٹیلہ ہے کہ اس سے مقابر مکہ میں اتر جاتے ہیں)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 252
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں آئے تو داخل ہوئے اوپر کی طرف سے اور نکلے تو نیچے کی طرف سے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 253
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس سال مکہ فتح ہوا کداء کی طرف سے داخل ہوئے جو مکہ کی بلندی کی طرف ہے (کداء ہمزہ کے ساتھ اور مد سے ایک ٹیلہ ہے مکہ کی بلندی کی طرف اور کدا بغیر مد کے ایک ٹیلہ ہے مکہ کے نیچے کی طرف) ہشام نے کہا کہ میرے والدین دونوں کی طرف سے داخل ہوتے تھے اور اکثر کداء کی طرف سے داخل ہوتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 254
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شب کو ذی طویٰ میں رہے، (ذی طویٰ ایک مقام مشہور ہے مکہ کے قریب) صبح کے وقت تک پھر مکہ میں داخل ہوئے اور عبداللہ بھی ایسا ہی کرتے تھے اور ابن سعید کی روایت میں ہے کہ ذی طویٰ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 255
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما مکہ میں نہ جاتے جب تک ذی طویٰ میں رات کو نہ رہتے پھر جب وہاں صبح ہو جاتی نہاتے پھر داخل ہوتے دن کو اور ذکر کرتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 256
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اترتے تھے ذی طویٰ میں اور شب کو وہاں رہتے یہاں تک کہ صبح کو نماز پڑھتے جب مکہ کو آتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی جگہ اوپر ایک موٹے ٹیلے کے ہے کہ وہ ٹیلا اس مسجد میں نہیں ہے جو وہاں بنی ہے مگر اس سے نیچے ہے ایک موٹے ٹیلے پر۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 257
نافع کو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ کیا طرف دونوں ٹیلوں کے اس پہاڑ کے جو پہاڑ ان کے اور کعبہ کے بیچ میں تھا اور اس مسجد کو جو وہاں بنی ہے بائیں طرف کر دیتے ہیں، اس مسجد کے جو کنارے پر ہے ٹیلہ کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی جگہ اس کالے ٹیلے کے نیچے ہے، اس کالے ٹیلے سے دس ہاتھ چھوڑ کر یا اس سے کچھ کم و بیش پھر نماز پڑھتے تھے منہ کیے ہوئے دونوں ٹیلوں کی طرف اس لمبے پہاڑ کے جو تیرے اور کعبہ کے بیچ میں ہے اللہ رحمت اور سلام بھیجے ان پر۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 258
نافع نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلا طواف کرتے بیت اللہ کا تو تین بار جلدی جلدی چلتے چھوٹے چھوٹے قدم رکھ کے اور چار بار عادت کے موافق چلتے اور بہیا کے آنے کی جگہ میں دوڑتے جب سعی کرتے صفا اور مروہ میں اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کرتے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 259
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حج میں یا عمرہ میں پہلے پہل طواف کرتے تو تین بار دوڑتے اور چار بار چلتے اور دو رکعت نماز پڑھتے پھر سعی کرتے صفا اور مروہ کی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 260
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب مکہ آتے اور حجر اسود کو چھوتے اور پہلے پہل طواف کرتے تین بار دوڑتے سات پھیروں سے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 261
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تین چکروں میں رمل کیا اور چار چکروں میں عام چلے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 262
نافع نے کہا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حجر اسود سے حجر اسود تک رمل کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 263
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حجر اسود سے رمل کرتے دیکھا یہاں تک کہ اس تک تین چکر پورے ہو گئے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 264
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود تک تین چکروں میں رمل کیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 265
سیدنا ابوالطفیل رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ مجھے خبر دو بیت اللہ کے طواف کی اور اس میں تین بار رمل کرنا اور چار بار چلنا سنت ہے؟ اس لئے کہ تمہارے لوگ کہتے ہیں کہ وہ سنت ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ جھوٹے بھی ہیں سچے بھی۔ میں نے کہا: اس کا کیا مطلب؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے یار بیت اللہ شریف کا طواف نہیں کر سکتے ضعف اور لاغری کے سبب سے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسد رکھتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ تین بار رمل کریں اور چار بار عادت کے موافق چلیں (غرض یہ ہے کہ انہوں نے اس فعل کو جو سنت مؤکدہ مقصود سمجھا یہ ان کا جھوٹ تھا باقی بات سچ تھی) پھر میں نے کہا: ہم کو خبر دیجئیے صفا اور مروہ کے بیچ میں سعی کرنے کی سوار ہو کر کے وہ سنت ہے کہ آپ کے لوگ اسے سنت کہتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: وہ سچے بھی ہیں جھوٹے بھی۔ میں نے کہا: اس کا مطلب؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ تشریف لائے تو لوگوں کی بھیڑ بھاڑ ایسی ہوئی کہ کنواری عورتیں تک باہر نکل آئیں اور لوگ کہنے لگے کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش خلقی ایسی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے لوگ مارے نہ جاتے تھے (یعنی ہٹو، بچو، بغل ہو، چلو جیسے امرائے دنیا کے واسطے ہوتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہ ہوتی تھی) پھر جب لوگوں کی بڑی بھیڑ ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو گئے اور پیدل سعی کرنا افضل ہے (یعنی اتنا جھوٹ ہوا کہ جو چیز بضرورت ہوتی تھی اس کو بلاضرورت سنت کہا باقی سچ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعی سوار ہو کر کی ہے)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 266
کہا مسلم نے اور روایت کی ہم سے محمد بن مثنیٰ نے، ان سے یزید نے، ان سے جریری نے، اسی اسناد سے اسی روایت کی مانند مگر اس میں یوں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ مکہ کے لوگ حاسد تھے اور یہ نہیں کہا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسد رکھتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 267
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے چند الفاظ کے فرق کے ساتھ۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 268
سیدنا ابوالطفیل رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے انہوں نے کہا کہ مجھ سے بیان کرو۔ ابوالطفیل نے کہا: میں نے مروہ کے پاس ایک اونٹنی پر دیکھا اور لوگوں کا ان پر ہجوم تھا تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہاں وہی تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ہانکتے نہ تھے اور نہ ہٹاتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 269
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب مکہ میں آئے اور ان کو ضعیف کر دیا تھا مدینہ کے بخار نے اور مشرکوں نے کہہ رکھا تھا کہ کل تمہارے پاس ایسے لوگ آئیں گے کہ ان کو بخار نے ضعیف و ناتواں کر رکھا ہے اور بڑی ناتوانی ان کو ہو گئی ہے اور مشرکین حطیم کے پاس بیٹھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ تین شوط میں رمل کریں اور مابین حجر اسود کے اور رکن یمانی کے عادت کے موافق چلیں کہ مشرکوں کو ان کی قوت و طاقت معلوم ہو۔ سو مشرکوں نے کہا کہ تم نے تو کہا تھا کہ ان کو بخار نے ناتواں کر دیا ہے یہ تو ایسے ایسے طاقتور ہیں کہ کیا کہنا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ان کو ساتوں پھیروں میں رمل کا حکم نہیں دیا تو اس لیے کہ تھک جائیں گے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 270
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کے طواف میں اس لئے رمل کیا کہ مشرک لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت دیکھیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 271
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے انہی دونوں یمن کی طرف کے کونوں کو بوسہ دیتے دیکھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 272
سالم نے اپنے باپ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے چاروں کونوں میں سے رکن اسود اور اس کے پاس والے کونے کو جو بنی جمح کے مکانوں کی طرف ہے، استلام کرتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 273
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف حجر اسود اور رکن یمانی کو چھوتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 274
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا حجر اسود اور رکن یمانی کو استلام کرتے ہوئے جب سے میں نے نہیں چھوڑا نہ سختی میں نہ آرام میں (یعنی کتنی ہی بھیڑ بھاڑ ہو میں استلام نہیں چھوڑتا)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 275
نافع نے کہا کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ حجر اسود کو اپنے ہاتھ سے چھوا اور ہاتھ کو بوسہ دیا اور کہا کہ جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے ایسا کرتے ہوئے جب سے میں نے اسے نہیں چھوڑا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 276
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیتے نہیں دیکھا سوا ان دو رکن یمانی کے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 277
سالم کے باپ نے روایت کی ہے کہ بوسہ دیا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم آگاہ ہو کہ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہوتا کہ وہ تجھے بوسہ دیتے تھے تو کبھی بوسہ نہ دیتا۔ ہارون نے اپنی روایت میں یہ کہا کہ اسی کی مثل مجھ سے روایت کی زید بن اسلم نے اپنے باپ اسلم سے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 278
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور کہا کہ میں تجھے چوم رہا ہوں اور جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے لیکن میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے دیکھا ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 279
عبداللہ بن سرجس نے کہا کہ میں نے اصلع کو (یعنی جس کے سر پر بال نہ ہوں) دیکھا مراد اس سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں (اس سے معلوم ہوا کہ لقب کسی کا اگر مشہور ہو جائے اور وہ اس سے برا نہ مانے تو اس سے یاد کرنا درست ہے اگرچہ دوسرا شخص برا مانے) اور فرماتے تھے حجر کو بوسہ دیتے ہوئے کہ قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ میں تجھ کو بوسہ دیتا ہوں اور جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے کہ نہ ضرر پہنچا سکتا ہے، نہ نفع دے سکتا ہے (اس قول سے بت پرستوں اور چلہ پرستوں کی نانی مر گئی جو قبروں وغیرہ کو اس خیال سے بوسہ دیتے ہیں کہ ہماری مراد دیں گے اس لیے کہ جب حجر اسود جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اس کا بوسہ بھی اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب سے ہے نہ اس خیال سے کہ یہ ضرر رساں یا نفع دہندہ ہے تو پھر اور چیزیں جن کا بوسہ کہیں ثابت نہیں، بلکہ منع ہے اس خیال ناپاک کے ساتھ کیونکر جائز ہو گا) اور آگے وہی مضمون ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 280
مذکورہ بالا حدیث اس سند کے ساتھ بھی اسی طرح مذکور ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 281
سوید نے کہا کہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے بوسہ لیا حجر اسود کا اور لپٹ گئے اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ بہت تجھے چاہتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 282
سیدنا سفیان رضی اللہ عنہ سے وہی روایت مروی ہے مگر اس میں لپٹنے کا ذکر نہیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 283
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع میں اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا اور حجر اسود کو اپنی چھڑی سے چھو لیتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 284
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ طواف کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا حجتہ الوداع میں اپنی اونٹنی پر اور حجر کو اپنی چھڑی سے چھوتے تھے تاکہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونچے ہو جائیں اور آپ سے مسائل پوچھیں اس لئے کہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت گھیرا تھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 285
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے وہی مضمون مروی ہے اور ابن خشرم کی روایت میں «وَلِيَسْأَلُوهُ» نہیں ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 286
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ طواف کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع میں کعبہ کے گرد اپنی اونٹنی پر اور رکن کو چھوتے جاتے اور اس لیے سوار ہوئے کہ لوگوں کو اپنے پاس سے ہٹانا نہ پڑے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 287
سیدنا ابوالطفیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ طواف کرتے تھے اور رکن اپنی چھڑی سے چھوتے اور چھڑی کو چوم لیتے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 288
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے شکایت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ میں بیمار ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب لوگوں کے پیچھے سوار ہو کر طواف کر لو۔“ سو میں نے کہا کہ میں طواف کرتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ طور پڑھ رہے تھے نماز میں بیت اللہ کے بازو پر۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 289
عروہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ اگر کوئی صفا اور مروہ میں سعی نہ کرے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ انہوں نے فرمایا: ”کیوں؟“ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ» کہ ”صفا اور مروہ اللہ پاک کی قدرت کی نشانیوں سے ہیں سو کچھ گناہ نہیں ان میں طواف کرنے سے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا یہ بات نہیں بلکہ یوں ہے کہ حج پورا نہیں ہوتا کسی کا اور نہ عمرہ جب تک طواف نہ کر لے صفا اور مروہ کا (یعنی سعی نہ کرے) اور اگر ایسا ہوتا جیسا تم نے جانا ہے تو االلہ تعالٰی یوں فرماتا کہ ”کچھ گناہ نہیں ان میں طواف نہ کرنے سے“ اور تم جانتے ہو کہ یہ آیت کیونکر اور کس حال میں اتری ہے کیفیت اس کی یہ ہے کہ دریا کے کنارے پر ایام جاہلیت میں دو بت تھے ایک کا نام اساف دوسرے کا نائلہ تھا اور لوگ ان کے پاس جاتے تھے اور پھر آ کر سعی کرتے تھے صفا اور مروہ پر اور پھر سر منڈاتے تھے، پھر جب اسلام آیا تو مسلمانوں نے ان میں سعی کرنے کو برا جانا (یعنی مشرکوں کی چال سمجھی) تب اللہ پاک نے یہ آیت اتاری اسی لئے یوں فرمایا «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ» کہ ”صفا اور مروہ شعائر اللہ سے ہیں اور ان میں طواف کرنا گناہ نہیں۔“ پھر لوگ سعی کرنے لگے (غرض یہ کہ اب سعی واجب ہے اور ترک اس کا روا نہیں)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 290
عروہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی کہ اگر کوئی طواف نہ کرے صفا اور مروہ میں تو میں جانتا ہوں کہ کچھ حرج نہیں۔ انہوں نے فرمایا: کیوں؟ کہا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّه» کہ ”صفا اور مروہ اللہ کی نشانیون سے ہیں پھر گناہ نہیں کوئی اس میں طواف کرے۔“ تو انہوں نے فرمایا: اگر یہ بات ہوتی تو یوں فرماتا اللہ پاک کہ ”اگر کوئی طواف نہ کرے تو کچھ گناہ نہیں“ اور یہ آیت تو انصار کے لوگوں میں اتری کہ وہ لوگ جب لبیک پکارتے تو لبیک پکارا کرتے تھے، مناۃ کے نام سے ایام جاہلیت میں اور کہتے تھے کہ ہم کو صفا اور مروہ میں سعی کرنا درست نہیں، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کو آئے تو اس کا ذکر ہوا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری سو اب قسم ہے میری جان کی کہ پورا نہ ہو گا حج اس کا جو سعی نہ کرے صفا اور مروہ کی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 291
عروہ نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ جو سعی نہ کرے صفا اور مروہ میں اس پر کچھ گناہ نہیں اور میں تو پرواہ نہیں رکھتا اگر نہ سعی کروں ان میں۔ تو انہوں نے فرمایا کہ برا کہا تو نے اے میرے بھانجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے سب نے سعی کی ہے اور یہ سنت ہے یہاں سنت سے مراد واجب ہے اور حقیقت اس کی یہ ہے کہ عرب میں دستور تھا کہ جو مناۃ بدبخت کا جو مثلل میں تھا لبیک پکارتا تھا۔ وہ سعی نہ کرتا تھا صفا، مروہ میں، پھر جب اسلام ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ہم لوگوں نے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا» کہ ”صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے ہے پھر جو حج کرے یا عمرہ لائے اس پر گناہ نہیں کہ ان میں سعی کرے۔“ اور اگر وہ بات ہوتی جو تم نے کہی تو یوں فرماتے کہ گناہ نہیں اس پر جو سعی نہ کرے، ان میں زہری نے کہا کہ میں نے یہ روایت ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے بیان کی تو انہوں نے بہت پسند کی اور انہوں نے کہا کہ علم اسی کا نام ہے یعنی جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس آیت سے سمجھا اور ابوبکر نے کہا: میں نے سنا ہے بہت لوگوں سے جو علم رکھتے تھے وہ کہتے تھے کہ یہ طواف نہ کرنے والے صفا اور مروہ میں عرب کے لوگ تھے کہ وہ کہتے تھے کہ ان دو پتھروں کے بیچ میں طواف کرنا جاہلیت کا کام تھا، اور دوسرے لوگوں کا قول تھا کہ ہم کو طواف بیت اللہ کا حکم ہوا ہے صفا اور مروہ میں پھرنے کا حکم نہیں ہوا جب اللہ تعالٰی نے یہ آیت اتاری «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ» کہ ”صفا اور مروہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے ہیں۔“ آخر آیت تک ابوبکر نے کہا کہ میں بھی یہی خیال کرتا ہوں کہ انہی دو گروہوں کے واسطے یہ آیت اتری۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 292
عروہ نے وہی قصہ روایت کیا جو اوپر مذکور ہوا اور اس میں یہ ہے کہ جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم کو یہاں طواف کرنا برا معلوم ہوتا ہے تب اللہ پاک نے یہ آیت اتاری «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا» (۲:البقرۃ:۱۵۸)۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پھر سنت ٹھہرا دیا اس سعی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، اب کسی کو اس کا ترک کرنا روا نہیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 293
عروہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کو خبر دی کہ انصار کا قاعدہ تھا اور غسان کا کہ وہ اسلام سے پیشتر مناۃ کے لئے لبیک پکارتے تھے اور صفا اور مروہ میں سعی کرنا برا جانتے تھے اور یہی طریقہ تھا ان کے باپ دادا کا جس نے احرام باندھا مناۃ کے لیے وہ صفا اور مروہ میں سعی نہ کرتا تھا اور جب وہ لوگ مسلمان ہوئے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تب اللہ پاک نے یہ آیت اتاری «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ» کہ ”صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے ہے سو جو حج کرے بیت اللہ کا یا عمرہ کرے اس کو گناہ نہیں ہے کہ سعی کرے ان دونوں میں اور جس نے خوشی سے نیکی کی ہے اللہ تعالیٰ اس کا قدردان اور جاننے والا ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 294
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار صفا اور مروہ کی سعی کو برا جانتے تھے یہاں تک یہ آیت اتری «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا» ۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 295
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ سعی نہیں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے صفا اور مروہ کی مگر ایک بار۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 296
مسلم نے فرمایا کہ روایت کی ہم سے عبد بن حمید نے، ان کو خبر دی محمد بن بکر نے، ان کو ابن جریج نے اسی سند سے مثل روایت مذکورہ کے اور اس میں یہ ہے کہ ایک ہی بار طواف کیا (یعنی صفا اور مروہ کا جو پہلی بار کیا تھا)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 297
سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر پیچھے بیٹھا عرفات سے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بائیں گھاٹی پر پہنچے مزدلفہ کے قریب تو اونٹ بٹھایا پیشاب کیا اور آئے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پانی ڈالا سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلکا وضو کیا پھر میں نے عرض کیا کہ نماز کا وقت آ گیا ہے یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز تمہارے آگے ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور مزدلفہ آئے اور نماز پڑھی پھر فضل کو اپنے پیچھے بٹھایا صبح کو مزدلفہ کی۔ کریب نے کہا کہ خبر دی مجھے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ سے کہ رسالت مآب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر لبیک پکارتے رہے یہاں تک کہ جمرہ پر پہنچے (یعنی جمرہ عقبہ پر)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 298
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے اونٹنی پر بٹھا لیا سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کو مزدلفہ سے اور راوی نے کہا کہ خبر دی مجھ کو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ خبر دی ان کو فضل نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لبیک پکارتے رہے یہاں تک کہ رمی کی جمرہ عقبہ کی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 299
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ جو ردیف تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ کی شام کو اور مزدلفہ کی صبح کو لوگوں سے فرماتے تھے کہ ”آرام سے چلو۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی کو روکے ہوئے چلتے تھے یہاں تک کہ محسر میں داخل ہوئے اور محسر منیٰ میں ہے تو وہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”چٹکی سے مارنے کی کنکریان اٹھا لو کہ ان سے جمرہ کو مارا جائے۔“ اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر لیبک پکارتے رہے یہاں تک کہ جمرہ کو کنکریاں ماریں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 300
مسلم رحمہ اللہ نے کہا اور روایت کی ہم سے یہی حدیث زہیر بن حرب نے، ان سے ابن جریج نے، ان سے ابوالزبیر نے اسی سند سے مگر اس میں یہ ذکر نہیں کیا کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم لبیک پکارتے رہے یہاں تک کہ جمرہ کو کنکر مارے اور یہ بات زیادہ بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کرتے تھے ہاتھ سے (یعنی جب کنکر اٹھانے کا حکم دیا تھا) کہ جیسے چٹکی سے پکڑ کر آدمی کنکرے پھینکتا ہے (یعنی ایسے کنکر اٹھانا)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 301
عبدالرحمٰن نے کہا کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ ہم سے مزدلفہ میں کہتے تھے کہ میں نے سنا ہے ان کو جن پر سورہ بقرہ نازل ہوئی ہے کہ وہ اس مقام میں لبیک پکارتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 302
عبدالرحمٰن نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے لبیک پکاری جب مزدلفہ سے لوٹے تو لوگوں نے کہا کہ شاید یہ کوئی گاؤں کا آدمی ہے (یعنی جو اب لبیک پکارتا ہے) تو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا لوگ بھول گئے (یعنی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی) یا گمراہ ہو گئے میں نے خود سنا ہے ان سے جن پر سورہ بقرہ نازل ہوئی ہے کہ وہ اس جگہ میں لبیک پکارتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 303
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 304
ایک اور روایت میں ہے کہ ہم نے عبداللہ بن اسود کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے اس ذات سے سنا جس پر یہاں سورۃ البقرہ نازل ہوئی آپ فرما رہے تھے «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ» پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی تلبیہ پڑھی اور ہم نے آپ کے ساتھ پڑھی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 305
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب ہم صبح کو چلے منیٰ سے عرفات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تو کوئی ہم میں سے لبیک پکارتا تھا اور کوئی تکبیر کہتا تھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 306
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے عرفہ کی صبح کو سو کوئی ہم میں سے «الله اكبر» کہتا تھا کوئی «لَا إِلَـٰہَ إِلَّا اللَّـہُ» اور ہم ان میں تھے جو «الله اكبر» کہتے تھے میں نے ان سے کہا کہ بڑے تعجب کی بات ہے تم نے ان سے یہ کیوں نہ پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا کرتے دیکھا۔ (سبحان اللہ! سنت سے محبت کرنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل دریافت کیوں نہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے تھے)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 307
محمد بن ابوبکر ثقفی نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا اور دونوں منیٰ سے عرفات کو جاتے تھے کہ تم لوگ کیا کرتے تھے آج کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ؟ سو سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کوئی ہم میں سے «لَا إِلَـٰہَ إِلَّا اللَّـہُ» اللہ کہتا تھا سو اس کو کوئی منع نہ کرتا تھا اور کوئی ہم میں سے «الله اكبر» کہتا تھا تب بھی کوئی اس کو منع نہ کرتا تھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 308
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے عرفہ کی صبح تلبیہ پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو پھر آپ نے فرمایا کہ میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اس سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو کوئی ہم میں سے تکبیر کہتا اور کوئی تہلیل اور کوئی بھی اپنے ساتھی پر عیب نہ لگاتا تھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 309
کریب جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام ہیں انہوں نے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: لوٹے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے یہاں تک کہ جب گھاٹی کے پاس آئے اترے اور پیشاب کیا اور ہلکا سا وضو کیا اور مبالغہ نہیں کیا وضو میں، میں نے کہا: نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز تمہارے آگے ہے۔“ اور پھر سوار ہوئے اور مزدلفہ میں آئے اور اترے اور وضو کیا پوری طرح سے پھر نماز کی تکبیر ہوئی اور مغرب پڑھی پھر ہر ایک نے اپنا اونٹ جہاں تھا وہیں بٹھا دیا پھر تکبیر ہوئی اور عشاء پڑھی اور ان کے بیچ میں کچھ نہیں پڑھا (یعنی سنت نہ پڑھی)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 310
کریب نے کہا کہ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے اور بعض گھاٹیوں میں اترے حاجت کے واسطے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پانی ڈالا یعنی وضو کے وقت اور کہا کہ آپ نماز پڑھیں گے؟ تو فرمایا: ”نماز کی جگہ تمہارے آگے ہے۔“ (یعنی مزدلفہ اور باقی تفصیل اس حدیث اسامہ رضی اللہ عنہ کی اوپر گزر چکی ہے)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 311
کریب نے وہی مضمون سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا اور اس میں سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کے پانی ڈالنے کا ذکر نہیں ہے اور یہ بات زیادہ ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ پہنچے اور مغرب اور عشاء ملا کر پڑھی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 312
کریب نے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ جب تم سوار ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تو کیا کیا عرفہ کی شام کو؟ انہوں نے کہا کہ ہم اس گھاٹی تک آئے جہاں لوگ اونٹوں کو بٹھاتے ہیں نماز مغرب کے لیے سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو بٹھایا اور اترے اور پیشاب کیا اور پانی دینے کا ذکر سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے نہیں کیا پھر وضو کا پانی مانگا اور ہلکا سا وضو کیا پورا نہیں (یعنی ایک ایک بار اعضاء دھوئے) اور میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! نماز، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز تمہارے آگے ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے یہاں تک کہ ہم مزدلفہ آئے اور مغرب کی تکبیر ہوئی اور لوگوں نے اونٹ بٹھائے اور کھولے نہیں یہاں تک کہ عشاء کی تکبیر ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشاء بھی پڑھی پھر اونٹ کھول دئیے، میں نے کہا کہ پھر تم نے صبح کو کیا کیا؟ انہوں نے کہا کہ پھر سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیچھے سوار ہوئے اور میں قریش کی راہ سے پیدل چلا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 313
وہی مضمون ہے جو اوپر کئی بار گزرا اس میں یہ ہے کہ اس گھاٹی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے جہاں اُمرا اترتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 314
وہی مضمون ہے مگر اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پائخانے تشریف لے گئے اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ نے چھاگل سے پانی ڈالا تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 315
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے لوٹے اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار ہوئے اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے یہاں تک کہ مزدلفہ میں پہنچے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 316
ہشام نے اپنے باپ سے روایت کی کہ ان کے سامنے کسی نے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا یا انہوں نے خود پوچھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی اونٹنی پر سوار کر لیا تھا عرفات سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیونکر چلتے تھے؟ یعنی اونٹنی کو کس چال سے لیے جاتے تھے۔ تو انہوں نے کہا کہ میٹھی چال چلاتے تھے پھر جب ذرا کھلی جگہ پاتے یعنی جہاں بھیڑ کم ہوتی تو اس جگہ ذرا تیز کر دیتے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 317
ہشام بن عروہ سے اسی اسناد سے وہی مضمون مروی ہوا مگر حمید کی روایت میں یہ ہے کہ ہشام نے کہا کہ نص جو اونٹنی کی چال ہے وہ عنق سے تیز ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 318
ابوایوب سے روایت ہے کہ انہوں نے نماز پڑھی حجتہ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب اور عشاء کی نماز جمع کر کے مزدلفہ میں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 319
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 320
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء کی نماز جمع کر کے مزدلفہ میں پڑھی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 321
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء ملا کر پڑھی مزدلفہ میں اور ان کے بیچ میں ایک رکعت بھی نہیں پڑھی اور مغرب کی تین رکعت اور عشاء کی دو پڑھیں اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی آخر عمر تک مزدلفہ میں اسی طرح پڑھتے رہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 322
سعید بن جبیر نے مغرب اور عشاء کی نماز ایک تکبیر سے پڑھی اور بیان کیا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی ایسا ہی کیا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 323
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے اور اس میں یہ ہے کہ دونوں نمازیں ایک اقامت کے ساتھ پڑھیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 324
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء کو جمع کیا مزدلفہ کے مقام پر مغرب کی تین اور عشاء کی دو رکعت پڑھیں ایک ہی اقامت کے ساتھ۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 325
سعید نے کہا کہ ہم لوٹے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ اور آئے مزدلفہ میں اور وہاں مغرب اور عشاء ایک تکبیر سے پڑھی اور کہا کہ اسی طرح ہمارے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں نماز پڑھی تھی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 326
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دیکھا تو نماز وقتوں ہی پر پڑھتے دیکھا مگر دو نمازیں ایک مغرب و عشاء کو مزدلفہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملا کر پڑھیں اور اس کی صبح کو صبح کی نماز اپنے وقت سے پہلے پڑھی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 327
اعمش سے اسی اسناد سے مروی ہے یہی روایت اور اس میں یہ ہے کہ صبح کی نماز کو وقت سے پہلے پڑھا، اندھیرے میں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 328
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے اجازت مانگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مزدلفہ کی رات کو کہ آپ سے پہلے منیٰ کو لوٹ جائیں اور لوگوں کی بھیڑ بھاڑ سے آگے نکل جائیں اور وہ ذرا فربہ بی بی تھیں، راوی نے کہا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دی اور وہ روانہ ہو گئیں قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لوٹنے کے اور ہم لوگ سب رکے رہے یہاں تک کہ صبح کی ہم نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوٹے اور اگر میں بھی اجازت لیتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جیسے سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے لی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے چلی جاتی تو خوب تھا اور اس سے بہتر تھا جس کے سبب سے میں خوش ہو رہی تھی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 329
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا بہت بھاری بھر کم بی بی تھیں۔ سو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لی کہ مزدلفہ سے رات ہی رات روانہ ہو جائیں (یعنی منیٰ کو) سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی سو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ کاش میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لیتی جیسے سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے لی تھی، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عادت تھی کہ آپ مزدلفہ سے امام کے ساتھ لوٹا کرتی تھیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 330
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آرزو کی کہ میں بھی اجازت لیتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جیسے سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے اجازت لی تھی اور نماز صبح کی منیٰ میں پڑھتی اور لوگوں کے آنے سے پہلے رمی جمرہ کر لیتی تو کسی نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی کیا سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے اجازت لی تھی؟ انہوں نے کہا: ہاں وہ فربہ عورت تھیں سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 331
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 332
عبداللہ جو غلام آزاد ہیں سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے انہوں نے کہا کہ مجھ سے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے فرمایا اور وہ مزدلفہ کے گھر کے پاس ٹھہری ہوئی تھی کہ کیا چاند غروب ہو گیا؟ میں نے کہا: نہیں، تو انہوں نے تھوڑی دیر نماز پڑھی، پھر مجھ سے فرمایا کہ اے میرے بچے! چاند ڈوب گیا؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے فرمایا کہ میرے ساتھ روانہ ہو۔ سو ہم روانہ ہوئے یہاں تک کہ انہوں نے جمرہ کو کنکریاں مار لیں پھر نماز پڑھی اپنی فرودگاہ میں۔ سو میں نے کہا: اے بی بی! ہم بہت سویرے روانہ ہوئے، انہوں نے فرمایا کہ کچھ حرج نہیں اے میرے بیٹے! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اجازت دی ہے سویرے روانہ ہونے کی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 333
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے سوائے اس کے کہ اس میں ہے کہ اے بیٹے! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بی بی کو اجازت دے دی تھی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 334
عطاء کو ابن شوال نے خبر دی کہ وہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے تو انہوں نے کہا کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ سے رات کو روانہ کر دیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 335
سالم بن شوال سے مروی ہے کہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہم ہمیشہ یہی کرتے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں کہ اندھیرے میں چل نکلتی تھی مزدلفہ سے منیٰ کو اور ایک روایت میں جو ناقد سے مروی ہے یوں ہے کہ ہم اندھیرے میں چل نکلتی تھیں مزدلفہ سے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 336
عبیداللہ نے کہا کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ فرماتے تھے: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سامان کے ساتھ روانہ کر دیا یا ہوں کہا کہ ضعیفوں کے ہمراہ روانہ کر دیا مزدلفہ سے رات کو۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 337
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں ان میں تھا جن کو آگے روانہ کر دیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کے ضعیفوں میں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 338
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 339
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مجھ کو بھیج دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر شب سے مزدلفہ سے سامان کے ساتھ میں نے کہا: کیا تم کو خبر پہنچی ہے کہ انہوں نے یوں کہا کہ مجھ کو روانہ کیا بہت رات سے؟ تو راوی نے کہا کہ نہیں مگر یوں ہی کہا کہ سحر کو یعنی آخر شب کو روانہ کیا پھر میں نے ان سے پوچھا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ بھی کہا کہ کنکر مارے ہم نے جمرہ کو فجر سے پہلے اور نماز کہاں پڑھی؟ انہوں نے کہا: نہیں یہ کچھ نہیں کہا فقط اتنا ہی کہا جو اوپر کہا ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 340
سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے ساتھ کے ضعیف لوگوں کو آگے بھیج دیتے تھے کہ وہ المشعر الحرام میں جو مزدلفہ میں ہے وقوف کر لیں رات کو اور االلہ تعالٰی کو یاد کرتے رہیں جب تک چاہیں پھر لوٹ جائیں امام کے موقوف کرنے سے پہلے اور امام کے لوٹنے سے پیشتر سو ان میں سے کوئی تو صبح کی نماز کے وقت منیٰ پہنچ جاتا تھا اور کوئی اس کے بعد پہنچتا تھا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ضعیفوں کو اس کی اجازت دی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 341
عبدالرحمٰن نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے پچھلے جمرہ کو کنکریاں نالے کے اندر سے ماریں اور سات کنکریاں ماریں اور ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے تھے سو ان سے کسی نے کہا کہ لوگ تو اوپر سے ان کو کنکریاں مارتے تھے تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ قسم ہے اس معبود کی کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ یہ مقام (جہاں سے میں نے ماری ہیں) اس کا ہے جس پر سورہ بقرہ اتری ہے (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 342
اعمش نے کہا کہ میں نے حجاج بن یوسف کو سنا کہ وہ خطبہ میں کہتا تھا کہ قرآن شریف کی وہی ترتیب رکھو کہ جو جبرئیل علیہ السلام نے رکھی ہے کہ وہ سورت پہلے ہو جس میں بقرہ کا ذکر ہے، پھر وہ جس میں نساء کا ذکر ہے، پھر وہ جس میں آل عمران کا ذکر ہے۔ اعمش نے کہا کہ پھر میں ابراہیم سے ملا اور ان کو اس بات کی خبر دی تو انہوں نے اس کو برا کہا اور پھر کہا کہ روایت کی مجھ سے عبدالرحمٰن بن یزید نے کہ وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور جمرہ عقبہ پر آئے اور نالہ کے بیچ میں کھڑے ہوئے اور جمرہ کو آگے کیا اور اس کو سات کنکریاں ماریں نالہ کے بیچ سے اور ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے تھے۔ راوی نے کہا کہ پھر میں نے ان سے کہا کہ اے ابوعبدالرحمٰن! (یہ کنیت ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی) لوگ تو اوپر سے کھڑے ہو کر کنکریاں مارتے ہیں، تو انہوں کہا کہ یہ جگہ، اس معبود کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اس کی ہے جس پر سورہ بقرہ اتری ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 343
اعمش نے کہا کہ میں نے حجاج سے سنا کہ وہ کہتا تھا کہ یوں نہ کہو سورۂ بقرہ اور بیان کی حدیث مثل ابن مسہر کی یعنی وہی روایت جو اوپر گزری۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 344
عبدالرحمٰن نے حج کیا سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اور جمرہ کو کنکریاں ماریں سات اور کعبہ کو بائیں طرف کیا اور منیٰ کو داہنی طرف اور کہا: یہ جگہ اس کی ہے جس پر سورۂ بقرہ اتری ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 345
شعبہ سے اس اسناد سے یہی روایت مروی ہے اور اس میں یوں ہے کہ جمرہ عقبہ پر آئے باقی مضمون وہی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 346
مضمون وہی ہے جو اوپر کئی بار گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 347
ابوالزبیر نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ انہوں نے کہا: میں نے دیکھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ وہ جمرہ عقبہ کو کنکر مارتے تھے اپنی اونٹنی پر سے قربانی کے دن اور فرماتے تھے: ”سیکھ لو مجھ سے مناسک اپنے حج کے اس لیے کہ میں نہیں جانتا کہ اس کے بعد حج کروں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 348
یحییٰ نے اپنی دادی سیدہ ام الحصین رضی اللہ عنہا سے سنا کہ وہ فرماتی تھیں کہ حج کیا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجتہ الوداع۔ سو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جمرہ عقبہ کو کنکر مارے اور لوٹے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار تھے اپنی اونٹنی پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا بلال اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہما تھے کہ ایک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی مہار پکڑ کر کھینچتا تھا اور دوسرا اپنا کپڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر پکڑے ہوئے تھا دھوپ کے سبب سے سو ام حصین نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت باتیں فرمائیں، پھر میں نے سنا کہ فرماتے تھے: ”اگر تمہارے اوپر ایک غلام کن کٹا حاکم کیا جائے میں خیال کرتا ہوں کہ ام حصین نے یہ بھی کہا کہ کالا غلام ہو اور کہا کہ تم کو کتاب اللہ کے مطابق حکم دے تو بھی اس کی بات سنو اور اس کا کہنا مانو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 349
ام الحصین رضی اللہ عنہا سے وہی مضمون مروی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ کہا مسلم رحمہ اللہ نے کہ نام ابوعبدالرحیم کا خالد بن ابویزید ہے اور وہ ماموں ہیں محمد بن سلمہ کے اور روایت کی ہے ان سے وکیع اور حجاج اعور نے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 350
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ کو وہ کنکریاں ماریں جو چٹکی سے پھینکی جاتی ہیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 351
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریاں ماریں جمرہ کو نحر کے دن، پہر دن چڑھے اور بعد کے دنوں میں جب آفتاب ڈھل گیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 352
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 353
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ڈھیلے لینا استنجا کے طاق ہیں اور کنکریاں جمرہ کی طاق ہیں اور سعی صفا اور مروہ کی طاق ہے اور طواف کعبہ کا طاق ہے (یعنی یہ تینوں سات سات ہیں) اور اسی لیے ضروری ہے کہ جو لے ڈھیلے استنجا کے لیے تو طاق لے (یعنی تین یا پانچ جس میں طہارت خوب ہو جائے۔ یعنی اگر طہارت چار میں ہو جائے تو بھی ایک اور لے کہ طاق ہو جائیں اور بعض بے وقوف سفہا نام کے فقہا نے جو یہ لکھا کہ ڈھیلے کے تئیں طہارت کے وقت تین بار ٹھونک لے کہ تسبیح سے باز رہے یہ بدعت ہے اور بے اصل اور لغو حرکت ہے اور طاق لینا ڈھیلوں کا جمہور علماء کے نزدیک مستحب ہے)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 354
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈایا اور ایک گروہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے سر منڈایا اور بعض نے فقط بال کترائے۔ عبداللہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ رحم کرے سر منڈانے والوں پر۔“ ایک بار دعا کی یا دو بار پھر فرمایا: ”کہ کتروانے والوں پر بھی۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 355
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللَّهُمَّ ارْحَمِ الْمُحَلِّقِينَ» ”یا اللہ! رحمت کر سر منڈانے والوں پر۔“ لوگوں نے عرض کی کہ کتروانے والوں پر بھی اے اللہ کے رسول، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللَّهُمَّ ارْحَمِ الْمُحَلِّقِينَ» ”یا اللہ! رحمت کر سر منڈانے والوں پر۔“ لوگوں نے پھر عرض کی کہ کتروانے والوں پر بھی یا رسول اللہ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «وَالْمُقَصِّرِينَ» ”کتروانے والوں پر بھی۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 356
وہی مضمون ہے مگر اس سر منڈانے والوں کو تین تین بار دعا دی اور کتروانے والوں کو چوتھی بار۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 357
کہا مسلم نے اور روایت کی ہم سے یہی حدیث ابن مثنیٰ نے، ان سے عبدالوہاب نے، ان سے عبیداللہ نے اسی سند سے اور اس حدیث میں بھی جب چوتھی بار ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «وَالْمُقَصِّرِينَ» ”اور کتروانے والوں پر بھی۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 358
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ» ”یا اللہ! بخشش کر سر منڈانے والوں کی۔“ پھر عرض کی کہ کتروانے والوں کی یا رسول اللہ! پھر فرمایا: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ» ”یا اللہ! بخشش کر سر منڈانے والوں کی۔“ پھر عرض کی یہ یا رسول اللہ کتروانے والوں کی بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ» ”یا اللہ بخشش کر منڈانے والوں کی۔“ پھر لوگوں نے عرض کی کہ کتروانے والوں کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «وَلِلْمُقَصِّرِينَ» ”اور کترنے والوں کی بھی“۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 359
کہا مسلم نے اور روایت کی مجھ سے امیہ نے، ان سے یزید نے، ان سے روح نے ان سے علاء نے، ان سے ان کے باپ نے، ان سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے روایت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی مضمون جو ابوزرعہ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اوپر روایت کیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 360
یحییٰ نے اپنی دادی سے روایت کی کہ انہوں نے حجتہ الوداع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈانے والوں کے لیے تین بار دعا کی اور کتروانے والوں کے لیے ایک بار اور وکیع کی روایت میں حجتہ الودع کا لفظ نہیں ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 361
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈایا اپنا حجتہ الوداع میں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 362
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب منیٰ میں آئے تو پہلے جمرہ عقبہ پر گئے اور کنکریاں ماریں، پھر اپنے فرودگاہ میں تشریف لائے۔ منیٰ میں اترے قربانی کی پھر حجام سے کہا کہ ”لو۔“ اور اشارہ کیا داہنی طرف میں سر کے اور پھر بائیں پھر لوگوں کو دینے شروع کیے۔ (یعنی موئے مبارک اپنے)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 363
روایت کی ہم سے ابوبکر بن ابوشیبہ اور ابن نمیر اور ابوکریب نے، تینوں نے کہا کہ روایت کہ ہم سے حفص بن غیاث نے۔ انہوں نے ہشام سے اسی اسناد سے اب سنو کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت میں کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا حجام سے ”یہاں۔“ اور اشارہ کیا اپنے ہاتھ سے داہنی طرف اس طرح اور بانٹ دیے بال اپنے ان لوگوں کو جو قریب تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ کہا راوی نے اشارہ کیا حجام کو بائیں طرف کے سر کا تو اس طرف کے بال مونڈے تو ام سلیم کو عطا فرماے اور ابوکریب کی روایت میں ہے کہ داہنی طرف سے شروع کیا اور ایک ایک دو دو بال بانٹ دیے لوگوں کو پھر بائیں طرف اشارہ کیا اور ان کو بھی ایسا ہی کیا یعنی منڈانا پھر فرمایا کہ ”یہاں ابوطلحہ ہیں۔“ سو ان کو دے دیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 364
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ کی رمی کی اور پھر آئے تو اونٹ کو ذبح کیا اور حجام بیٹھا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا سو داہنی طرف کا سر منڈایا اور ان بالوں کو تقسیم کیا، ان لوگوں میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک تھے۔ پھر فرمایا کہ ”اب دوسری جانب مونڈو۔“ سو فرمایا کہ ”ابوطلحہ کہاں ہیں؟“ وہ بال ان کو عنایت فرمائے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 365
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ کو کنکریاں مار لیں اور قربانی کر لی اور سر منڈوایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دائیں جانب آگے کی اس مونڈ دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ انصاری کو بلایا اور ان کو وہ بال دے دیے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بائیں جانب آگے کی کہ ”اس کو مونڈو۔“ جب وہ مونڈ دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ کو وہ بال دے دیے کہ لوگوں میں تقسیم کر دو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 366
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیچ منیٰ کے حجتہ الوداع میں کھڑے ہوئے کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھیں سو ایک شخص آیا اور اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں نے نہ جانا اور سر منڈا لیا اونٹ نحر کرنے سے پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب قربانی ذبح کر لو اور کچھ حرج نہیں۔“ پھر دوسرا آیا اور اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں نے نہ جانا اور قربانی ذبح کر لی کنکر مارنے سے پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب کنکر مار لو اور کچھ مضائقہ نہیں۔“ غرض ان سے جس عمل کی تقدیم تاخیر کو پوچھا تو یہی فرمایا کہہ ”کچھ مضائقہ نہیں اب کر لو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 367
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر کھڑے رہے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلے پوچھنے لگے، سو ایک نے کہا: یا رسول اللہ! میں نے نہ جانا کہ رمی نحر کے قبل ضروری ہے اور میں نے نحر کر لیا رمی سے پہلے۔ سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”اب رمی کر لو اور کچھ مضائقہ نہیں۔“ اور دوسرے نے کہا کہ میں نے نہ جانا کہ نحر قبل حلق کے ہے اور حلق کر لیا قبل نحر کے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:”اب نحر کر لو اور کچھ حرج نہیں ہے۔“ راوی نے کہا: میں نے بھی سنا کہ جس نے اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسا کام پوچھا کہ جسے انسان بھول جاتا ہے اور آگے پیچھے کر لیتا ہے اور اس کی مانند تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ ”اب کر لو اور کچھ حرج نہیں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 368
کہا امام مسلم رحمہ اللہ علیہ نے اور روایت کی ہم سے حسن حلوانی نے، ان سے یعقوب نے، ان سے ان کے باپ نے، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے مثل حدیث یونس کی جو زہری سے مروی ہو چکی آخر تک۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 369
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نحر کے دن خطبہ پڑھا اور ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا: یا رسول اللہ! آگے وہی مضمون ہے جو اوپر کی روایتوں میں کئی بار گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 370
کہا مسلم نے روایت کی ہم سے یہی حدیث عبد بن حمید نے، ان سے محمد بن بکر نے اور کہا مسلم نے اور روایت کی مجھ سے سعید بن یحییٰ اموی نے، ان سے ان کے باپ نے اور سب نے روایت کی ابن جریج سے اسی اسناد سے مگر ابن بکر کی روایت مثل روایت عیسیٰ کی ہے مگر قول ان کا کہ یہ تین چیزیں (یعنی رمی اور نحر اور حلق) یہ مذکور نہیں اور یحییٰ کی روایت میں یوں ہے کہ ایک نے کہا: حلق کیا ہے میں قبل نحر کے اور نحر کی قبل رمی کے اور اسی کی مانند۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 371
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ میں نے قربانی سے پہلے سر منڈوا لیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قربانی کر کوئی حرج نہیں ہے۔“ کہا کہ میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمی کر اور کوئی حرج نہیں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 372
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 373
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ان کے پاس ایک شخص آیا نحر کے دن اور جمرہ کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تھے، سو اس نے عرض کی: یا رسول اللہ! میں نے سر منڈا لیا کنکریاں مارنے سے پہلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب کنکریاں مار لو اور کچھ مضائقہ نہیں۔“ اور دوسرا آیا اور عرض کی کہ میں نے ذبح کیا رمی سے پہلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب رمی کر لو اور کچھ حرج نہیں۔“ اور تیسرا آیا اور عرض کی کہ میں نے طواف افاضہ کیا بیت اللہ کا رمی سے پہلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب رمی کر لو اور کچھ حرج نہیں۔“روای نے کہا: اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو چیز پوچھی کہ آگے پیچھے ہو گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب کر لو اور کچھ حرج نہیں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 374
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قربانی، حلق رمی کے آگے پیچھے ہونے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 375
نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف افاضہ کیا نحر کے دن اور پھر لوٹے اور ظہر منیٰ میں پڑھی۔ نافع نے کہا: ابن عمر رضی اللہ عنہما طواف افاضہ کرتے تھے نحر کے دن اور پھر لوٹ کر منیٰ میں ظہر پڑھتے تھے اور کہتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 376
عبدالعزیز، رفیع کے فرزند نے کہا کہ پوچھا میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے خبر دو مجھے جو تم نے یاد رکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترویہ کے دن (یعنی آٹھویں تاریخ) نماز ظہر کہاں پڑھی؟ انہوں نے کہا: منیٰ میں، پھر میں نے کہا: نماز عصر کہاں پڑھی کوچ کے دن؟ کہا: ابطح میں، پھر کہا: کرو تم جیسا کرتے ہیں تمہارے حاکم لوگ۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 377
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ابطح میں اترا کرتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 378
نافع نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کی کہ وہ محصب میں اترنے کو سنت جانتے تھے اور ظہر وہیں پڑھتے تھے نحر کے دن کی۔ نافع نے کہا کہ محصب میں اترے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اترے ہیں خلیفہ آپ کے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 379
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ محصب میں اترنا کچھ واجب نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف اس لیے وہاں اترے ہیں کہ وہاں سے نکلنا آسان تھا جب مکہ سے آپ نکلے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 380
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 381
سالم نے کہا کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اور ابن عمر رضی اللہ عنہما ابطح میں اترے تھے۔ زہری نے کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہ وہ نہیں وہاں اترتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو وہاں اترتے تھے تو اس لیے کہ وہاں سے روانہ ہو جانا مکہ سے آسان تھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 382
عطاء نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ محصب میں اترنا کچھ سنت و واجب نہیں وہ تو ایک منزل ہے کہ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اترے ہیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 383
سلیمان بن یسار نے روایت کی کہ سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم نہیں کیا تھا کہ میں اتروں ابطح میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ سے نکلے، مگر میں آیا اور میں نے وہاں قبہ لگا دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور وہاں اتر پڑے۔ ابوبکر کی روایت میں صالح سے یوں ہے کہ انہوں نے کہا: سنا میں نے سلیمان بن یسار سے اور قتیبہ کی روایت میں ہے کہ ابورافع نے کہا اور ابورافع رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان پر مقرر تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 384
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کل ہم اللہ چاہے گا تو خیف کنانہ میں اتریں گے جہاں کافروں نے کفر پر قسم کھائی تھی آپس میں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 385
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منیٰ میں کہ ”کل ہم خیف بنی کنانہ میں اترنے والے ہیں جہاں کافروں نے کفر پر قسم کھائی تھی۔“ اور کیفیت اس کی یہ تھی کہ قریش نے اور بنی کنانہ نے قسم کھائی تھی کہ بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب سے یعنی ان کے قبیلوں سے نہ نکاح کریں، نہ خرید و فرخت کریں جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے سپرد نہ کر دیں اور مراد خیف بنی کنانہ سے محصب ہے (تفصیل اس کی آگے آئے گی ان شاءاللہ تعالیٰ)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 386
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اللہ نے چاہا اور فتح دی تو منزل ہماری خیف ہے جہاں قسم کھائی انہوں نے (یعنی کافروں نے) کفر پر۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 387
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ عباس رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ رات کو منیٰ کی راتوں میں مکہ میں رہیں، اس لیے کہ ان کے حصے زمزم پلانے کی خدمت تھی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 388
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 389
عبداللہ مزنی فرزند بکر نے کہا کہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا کعبہ کے نزدیک کہ ایک گاؤں کا آدمی آیا اور اس نے کہا: کیا سبب ہے کہ میں تمہارے چچا کی اولاد کو دیکھتا ہوں کہ وہ شہد کا شربت اور دودھ پلاتے ہیں اور تم کھجور کا شربت پلاتے ہو کیا تم نے محتاجی کے سبب سے اسے اختیار کیا ہے یا بخیلی کی وجہ سے؟ تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: الحمداللہ نہ ہم کو محتاجی ہے نہ بخیلی۔ اصل وجہ اس کی یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اپنی اونٹنی پر اور ان کے پیچھے اسامہ رضی اللہ عنہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی مانگا سو ہم ایک پیالہ کھجور کے شربت کا لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا اور اس میں سے جو بچا وہ اسامہ رضی اللہ عنہ کو پلایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے خوب اچھا کام کیا اور ایسا ہی کیا کرو۔“ سو ہم اس کو بدلنا نہیں چاہتے جس کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دے چکے ہیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 390
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے اونٹوں پر کھڑا رہوں اور ان کا گوشت اور کھالیں اور جھولیں خیرات کر دوں اور قصاب کی مزدوری اس میں نہ دوں اور فرمایا: ”کہ مزدوری قصاب کی ہم اپنے پاس سے دیں گے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 391
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 392
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے وہی مضمون مروی ہے مگر اس میں قصاب کی مزدوری کا ذکر نہیں ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 393
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ کھڑے ہوں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے اونٹوں پر اور حکم دیا کہ سارا گوشت اور جھولیں ان کی خیرات کر دیں مسکینوں کو اور قصاب کی مزدوری اس میں سے کچھ نہ دیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 394
ایک اور سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 395
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نحر کیا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ کے سال اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے اور بیل سات آدمیوں کی طرف سے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 396
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ شریک ہو جائیں اونٹ اور گائے میں سات سات آدمی ہم میں کے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 397
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا ہم نے اونٹ اور گائے کو سات افراد کی طرف سے ذبح کیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 398
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: شریک ہوئے ہم ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج اور عمرہ میں سات سات آدمی ایک بدنہ میں۔ ایک شخص نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کیا بدنہ میں بھی اتنے ہی آدمی شریک ہو سکتے ہیں جتنے جزور میں ہوتے ہیں؟ تو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بدنہ اور جزور تو ایک ہی چیز ہے (یعنی دونوں اونٹ کو کہتے ہیں) اور حاضر ہوئے جابر رضی اللہ عنہ حدیبیہ میں تو انہوں نے کہا کہ نحر کیے ہم نے ستر اونٹ اور ہر اونٹ میں سات آدمی شریک تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 399
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کو، تو کہا کہ حکم کیا ہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جب ہم احرام کھول ڈالیں تو قربانی کر لیں اور چند آدمی ہم میں سے ایک ایک قربانی میں شریک ہو جائیں اور یہ جب ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع میں احرام حج کا عمرہ کروا کے کھلوا دیا تھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 400
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم تمتع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوئے تو ایک گائے میں سات آدمی شریک ہو جاتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 401
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے ایک گائے ذبح کی نحر کے دن۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 402
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے وہی مضمون مروی ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سب بیبیوں رضی اللہ عنہن کی طرف سے قربانی کی اور ابن بکر کی روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے ایک گائے ذبح کی اپنے حج میں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 403
زیاد نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اونٹ کو بٹھا کر نحر کرتا ہے تو کہا کہ اس کو اٹھا لو اور پیر باندھ دو اور نحر کرو، یہ سنت ہے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 404
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے قربانی روانہ کر دیتے تھے اور میں ان کے گلوں کے ہار بٹ دیا کرتی تھی پھر وہ کسی چیز سے پرہیز نہیں کیا کرتے تھے جیسے محرم پرہیز کیا کرتا ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 405
ابن شہاب سے وہی مضمون مروی ہوا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 406
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اپنے آپ کو دیکھتی ہوں کہ میں بٹا کرتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کے ہار، آگے وہی مضمون ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 407
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کے ہار بٹا کرتی تھی اپنے ہاتھوں سے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی چیز نہ چھوڑتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 408
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں اپنے ہاتھوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں کے ہار بٹا کرتی تھی پھر آپ ان کے کوہانوں کو چیرا لگاتے پھر ہار ڈالتے اور بیت اللہ کی طرف بھیجتے پھر آپ خود مدینہ میں قیام کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی چیز جو پہلے حلال تھی حرام نہ ہوتی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 409
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث چند الفاظ کے فرق سے روایت کی گئی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 410
ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کہ میں نے ہار بٹے ہیں اون سے جو رکھی ہوئی تھی ہمارے پاس اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان حلال رہے (یعنی قربانی بھیج کر) اور اپنی بیبیوں سے صحبت کرتے تھے، جیسے حلال لوگ کرتے ہیں (یعنی جن کو احرام نہیں ہوتا)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 411
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اپنے کو دیکھ چکی ہوں کہ بٹتی تھی ہار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کی بکریوں کے لیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بھیج کر پھر حلال رہتے تھے (یعنی محرم نہ ہوتے تھے)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 412
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث چند الفاظ کے فرق کے ساتھ مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 413
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار بکریاں بھیجیں بیت اللہ کو اور ان کے گلے میں ہار ڈالا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 414
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ہم بکریوں کی گردنوں میں ہار ڈالتے اور ان کو روانہ کر دیتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم حلال ہی رہتے وہ کسی چیز کو اپنے اوپر حرام نہیں کرتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 415
عمرہ، عبدالرحمٰن کی بیٹی نے کہا کہ ابن زیاد نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو لکھا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جس نے قربانی بھیجی اس پر حرام ہو چکیں وہ چیزیں جو حاجی پر حرام ہوتی ہیں جب تک کہ قربانی ذبح نہ ہو اور میں نے قربانی روانہ کی ہے سو جو حکم ہو مجھے لکھو، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جیسا کہا ویسا نہیں ہے، میں نے خود بٹے ہیں ہار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گلے میں ڈال کر میرے باپ کے ساتھ قربانی روانہ کر دی اور کوئی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حرام نہ ہوئی اس کے ذبح تک جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حلال کی تھی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 416
مسروق نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو سنا کہ وہ پردے کی آڑ میں دستک دیتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ میں بٹا کرتی تھی ہار قربانی کے اپنے ہاتھوں سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو روانہ کر دیتے تھے اور پھر اس کے ذبح تک کسی چیز سے پرہیز نہ کرتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 417
اس سند سے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی روایت بیان کرتی ہی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 418
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص دیکھا کہ قربانی کا اونٹ کھینچ رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس پر سوار ہو جا۔“ اس نے عرض کی قربانی کا ہے، پھر فرمایا: ”سوار ہو جا۔“ اس نے پھر وہی عرض کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری یا دوسری بار فرمایا: ”خرابی ہو تیری سوار ہو جا۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 419
ابوالزناد کی روایت میں بھی وہی مضمون ہے اور اس میں ہے کہ اس اونٹ کے گلے میں ہار بھی تھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 420
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کئی حدیثیں روایت کیں ان میں یہ بھی تھی کہ ایک شخص ایک اونٹ کو کھینچ رہا تھا جو اونٹ مقلد تھا (یعنی اس کے گلے میں ہار پڑا ہوا تھا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خرابی ہو تیری اس پر سوار ہو جا۔“ اس نے عرض کی: یا رسول اللہ! یہ قربانی کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”سوار ہو جا۔ خرابی ہے تیری۔ سوار ہو جا خرابی ہے تیری۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 421
سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے آدمی کے پاس سے گزرے جو اپنی قربانی کے اونٹ کو دھکیل رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”سوار ہو جا۔“ اس نے کہا: یہ قربانی کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین مرتبہ فرمایا: کہ ”سوار ہو جا۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 422
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث چند الفاظ کے اختلاف سے مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 423
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 424
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے کسی نے قربانی کے اونٹ پر سوار ہونے کو پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے: ”کہ اس پر ایسی طرح سوار ہو کہ تکلیف نہ دو اور جب تمہیں ضرورت ہو اور سواری نہ ملے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 425
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 426
موسیٰ بن سلمہ نے کہا: میں اور سنان دونوں عمرے کو چلے اور سنان کے ساتھ ایک قربانی کا اونٹ تھا اور اسے کھینچتے تھے اور وہ راہ میں تھک گیا اور یہ اس کا حال دیکھ کر عاجز ہوئے کہ اگر یہ بالکل رہ گیا تو اسے کیونکر لاؤں گا اور کہنے لگے کہ اگر میں بلدہ پہنچا تو اس کا حکم بخوبی معلوم کروں گا پھر اتنے میں پہر دن چڑھا اور ہم بطحاء میں اترے اور سنان نے مجھ سے کہا کہ ہمارے ساتھ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس چلو کہ ان سے ذکر کریں غرض ان سے جا کر ذکر کیا۔ انہوں نے کہا: تم نے خبردار شخص کو پایا۔ اب سنو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ اونٹ ایک شخص کے ساتھ روانہ کیئے اور وہ چلا پھر لوٹ آیا اور پوچھا: یا رسول اللہ! اگر ان میں سے کوئی تھک جائے تو کیا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ””اسے نحر کر دو اور اس کے گلے کی جوتیاں (جو ہار میں لٹکائی ہیں تاکہ معلوم ہو کہ یہ قربانی کا جانور ہے) اس کے خون میں رنگ کر اس کے کوہان میں چھاپا مار دو اور اس میں سے نہ تم کھاؤ نہ تمہارا کوئی رفیق۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 427
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹون کے روانہ کرنے کا مضمون ہے مگر اس میں اٹھارہ اونٹ مذکور ہے اور باقی مضمون وہی ہے اور اول کا قصہ سنان وغیرہ کا اس میں نہیں ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 428
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ذویب نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ قربانی کے اونٹ روانہ کئیے اور فرمایا: ”اگر کوئی ان میں سے تھک جائے اور مرنے کا ڈر ہو تو اس کو نحر کرنا اور اس کے جوتے خون میں ڈبو کر اس کے کوہان میں چھاپا مار دینا اور نہ تم کھانا اور نہ تمہارا کوئی رفیق۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 429
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ لوگ ادھر ادھر چل پھر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص کوچ نہ کرے جب تک چلتے وقت طواف نہ کر لے بیت اللہ کا۔“ زہیر کی روایت میں «فی» کا لفظ نہیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 430
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ لوگوں کو حکم ہوا ہے کہ آخر میں بیت اللہ کے پاس سے ہو کر جائیں (یعنی طواف کر کے) اور حائضہ پر تخفیف ہو گئی (یعنی طواف وداع کے لیے)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 431
طاؤس نے کہا: میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فتویٰ دیتے تھے کہ حائضہ عورت نکلنے سے پیشتر گویا حیض کے پہلے طواف رخصت کرے، سو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اگر تم نہیں مانتے ہو تو فلانی انصاری کی بی بی سے پوچھو کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کا حکم دیا ہے یا نہیں۔ سو زید بن ثابت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس لوٹ کر آئے ہنستے ہوئے اور بولے: میں جانتا ہوں کہ آپ ہی سچ کہتے ہیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 432
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ صفیہ کو حیض آ گیا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم کو روکنے والی ہے؟۔“ میں نے عرض کی کہ وہ طواف افاضہ کر چکیں ہیں، تب حائضہ ہوئی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کوچ کریں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 433
ابن شہاب اس سند سے بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا طواف افاضہ کے بعد حائضہ ہو گئیں۔ باقی حدیث گزشتہ کی طرح ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 434
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 435
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم ڈرتے تھے کہ صفیہ طواف افاضہ سے پہلے حائضہ نہ ہو جائیں۔ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”کہ کیا صفیہ ہم کو روکے رکھے گی؟“ ہم نے بتایا کہ وہ طوافِ افاضہ کر چکیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تب نہیں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 436
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث چند الفاظ کے فرق سے مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 437
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارادہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہ سے ہوا جو مرد کو اپنی بی بی سے ہوتا ہے تو عرض ہوئی کہ وہ حائضہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو ہم کو روکنا چاہتی ہے۔“ عرض کہ وہ نحر کے دن طواف افاضہ کر چکی ہیں تب فرمایا: ”تمہارے ساتھ کوچ کریں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 438
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ کا ارادہ کیا سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا اپنے خیمے کے دروازے پر غمگین اداس تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بانجیں سر منڈیاں کیا ہم کو روکتی ہیں۔“ پھر ان سے فرمایا: ”کیا تم نے نحر کے دن طواف افاضہ کیا ہے؟“ انہوں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چلو۔“ (یعنی طواف وداع معاف)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 439
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے اس میں غمگین، اداس کے الفاظ نہیں ہیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 440
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسامہ اور بلال اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہم داخل ہوئے کعبہ میں اور دروازہ بند کر لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرے، پھر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بلال سے پوچھا جب نکلے کہ کیا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے؟ تو انہوں نے کہا کہ تین ستون اپنے بائیں کیے اور ایک داہنے اور تین پیچھے اور کعبہ کے اندر ان دنوں چھ کھمبے تھے پھر نماز پڑھی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 441
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے فتح مکہ کے دن اور کعبہ کے میدان میں اترے اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس کہلا بھیجا اور وہ کنجی لائے اور دروازہ کھولا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور بلال اور اسامہ اور عثمان بن سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہم اندر گئے اور دروازے کو حکم دیا کہ بند کر دو اور تھوڑی دیر ٹھہرے پھر دروازہ کھولا پھر میں سب لوگوں سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا کعبہ کے باہر اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے سو بلال رضی اللہ عنہ سے میں نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ میں نے کہا: کہاں؟ انہوں نے کہا کہ دو کھمبوں کے بیچ میں اپنے منہ کے سامنے، اور میں بھول گیا کہ پوچھوں کتنی رکعتیں پڑھیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 442
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس سال مکہ فتح ہوا سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کی اونٹنی پر سوا کعبہ کے صحن میں آئے اور اونٹنی کو بٹھایا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا: ”کنجی لاؤ۔“ وہ اپنی ماں کے پاس گئے اور انہوں نے نہ دی، پھر عثمان نے کہا تم کنجی دے دو نہیں تو یہ تلوار میری پیٹھ سے پار ہو جائے گی، تب دی اور وہ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازہ کھولا۔ آگے وہی مضمون ہے جو اوپر گزرا حماد کی روایت میں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 443
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں گئے اور اسامہ اور بلال اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ تھے اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد دروازہ بند کر لیا بڑی دیر تک۔ پھر دروازہ کھولا تو سب سے پہلے میں اندر گیا اور میں بلال رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا کہ کہاں نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے؟ انہوں نے کہا: دو ستونوں کے بیچ میں میں جو آگے ہیں اور میں بھول گیا ان سے یہ نہ پوچھا کہ کتنی نماز پڑھی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 444
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 445
وہی مضمون ہے لیکن اس میں اتنا ہے کہ راوی نے کہا کہ نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمانی دو ستونوں کے بیچ میں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 446
سالم بن عبداللہ نے اپنے باپ سے روایت کی انہوں نے کہا کہ میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ کعبہ میں گئے اور اسامہ اور بلال اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی اور کوئی ان کے ساتھ نہ گیا پھر دروازہ بند کر دیا۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ خبر دی مجھے بلال رضی اللہ عنہ نے یا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی کعبہ کے اندر دو یمانی ستونوں کے بیچ میں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 447
ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاء سے کہا کہ تم نے سنا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ وہ فرماتے تھے کہ تم کو حکم ہوا ہے طواف کا اور نہیں حکم ہوا ہے کعبہ کے اندر جانے کا، کہا عطاء نے کہ وہ منع نہیں کرتے تھے اس کے اندر جانے سے مگر میں نے ان کو سنا کہ کہتے تھے کہ خبر دی مجھ کو سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب داخل ہوئے کعبہ میں تو ہر طرف اس میں دعا کی اور نماز نہیں پڑھی پھر جب نکلے تو دو رکعت پڑھی قبلہ کے آگے اور فرمایا: ”یہی قبلہ ہے۔“ میں نے ان سے کہا کہ کیا حکم ہے اس کے کناروں کا؟ اور کیا حکم ہے اس کے کونوں میں نماز کا؟ تو انہوں نے کہا کہ ہر طرف بیت اللہ شریف کے قبلہ ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 448
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے کعبہ میں اور اس میں چھ ستون تھے سو ہر ستون کے پاس کھڑے ہو کر دعا کی اور نماز نہیں پڑھی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 449
اسمٰعیل نے کہا کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا جو صحابی تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ کیا داخل ہوئے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں اپنے عمرہ کی حالت میں؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 450
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ اگر تمہاری قوم نے نیا نیا کفر نہ چھوڑا ہوتا تو میں کعبہ توڑتا اور اس کو ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر بنا دیتا اس لیے کہ قریش نے جب کعبہ بنایا تو چھوٹا کر دیا اور میں اس میں ایک دروازہ پیچھے بھی بناتا۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 451
کہا مسلم رحمہ اللہ نے اور روایت کی ہم سے یہی حدیث ابوبکر بن ابوشیبہ نے اور ابوکریب نے، دونوں نے روایت کی ابن نمیر سے، انہوں نے ہشام سے یہی حدیث اسی سند سے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 452
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کہ تم نے نہیں دیکھا کہ جب تمہاری قوم نے کعبہ بنایا تو ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں سے کم کر دیا۔“ سو میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! آپ کیوں نہیں پھیر دیتے اس کو ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر؟ سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ اگر تمہاری قوم نے نیا نیا کفر نہ چھوڑا ہوتا تو میں البتہ ایسا کرتا۔“ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ بیشک یہ سنا ہو گا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس لیے میں دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھونا ان دونوں کونوں کا اسی واسطے چھوڑ دیا کہ بیت اللہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر نہیں تھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 453
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”کہ اگر تمہاری قوم نئی نئی جاہلیت کو نہ چھوڑی ہوتی یا کفر کو تو میں کعبہ کا خزانہ اللہ کی راہ میں صرف کر دیتا۔ (یعنی جہاد میں) اور اس میں دروازے زمین کے برابر بناتا اور حطیم کو کعبہ میں ملا دیتا۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 454
وہی مضمون ہے مگر یہ زیادہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ میں کعبہ کو گرا کر زمین سے اس کے دروازے ملا دیتا اور دروازے رکھتا ایک شرق کی جانب دوسرا غرب کی طرف چھ ہاتھ حطیم میں سے زمین ملا دیتا اس لیے کہ قریش نے جب بنایا تو چھوٹا کر دیا۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 455
عطاء نے کہا کہ جب کعبہ جل گیا یزید بن معاویہ کے زمانہ میں جب کہ مکہ میں آ کر شام والے لڑے تھے اور جو حال اس کو ہوا سو ہوا اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کعبہ شریف کو ویسا ہی رہنے دیا، یہاں تک کہ لوگ موسم حج میں جمع ہوئے اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا ارادہ تھا کہ لوگوں کو خانہ کعبہ دکھا کر جرأت دلائیں اہل شام کی لڑائی پر یا ان کا تجربہ کریں کہ انہیں کچھ حمیت دین ہے یا نہیں پھر جب لوگ آ گئے تو انہوں نے کہا: اے لوگو! مشورہ دو مجھے خانہ کعبہ کے لیے کہ میں اسے توڑ کر نئے سرے سے بناؤں یا جو اس میں بودا ہو گیا ہے اسے درست کر دوں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مجھے ایک رائے سوجھی ہے اور میں تو یہ جانتا ہوں کہ تم صرف جو ان میں بودا ہو گیا ہے اس کی مرمت کر دو اور خانہ کعبہ کو ویسا ہی رہنے دو جیسا کہ لوگوں کے وقت تھا اور ان ہی پتھروں کو رہنے دو جن کے اوپر لوگ مسلمان ہوئے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے ہیں تو سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم میں سے کسی کا گھر جل جائے تو اس کا دل کبھی نہ چاہے جب تک نیا نہ بنائے، پھر تمہارے رب کا گھر تو اس سے کہیں افضل ہے اس کا کیا حال ہے اور میں اپنے رب سے استخارہ کرتا ہوں۔ تین بار پھر مصمم ارادہ کرتا ہوں اپنے کام کا، پھر جب تین بار استخارہ ہو چکا تو ان کی رائے میں آیا کہ خانہ مبارک کو توڑ کر بنائیں اور جو لوگ خوف کرنے لگے کہ ایسا نہ ہو جو شخص کہ پہلے خانہ کے اوپر توڑنے چڑھے اس پر کوئی بلائے آسمانی نازل نہ ہو (اس سے معلوم ہوا کہ مالک اس گھر کا اوپر ہے اور تمام صحابہ کا یہی عقیدہ تھا) یہاں تک کہ ایک شخص چڑھا اور اس میں سے ایک پتھر گرا دیا پھر جب لوگوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی بلا نہ اتری تو ایک دوسرے پر گرنے لگے اور خانہ مبارک کو ڈھا کر زمین تک پہنچا دیا اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے چند ستون کھڑے کر کے ان پر پردہ ڈال دیا (تاکہ لوگ اسی پردہ کی طرف نماز پڑھتے رہیں اور مقام کعبہ کو جانتے رہیں اور وہ پردے میں پڑے رہے) یہاں تک کہ دیواریں اس کی اونچی ہو گئیں اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ہے کہ فرماتی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”کہ اگر لوگ نئے نئے کفر نہ چھوڑے ہوتے اور میرے پاس اتنا بھی خرچ نہیں ہے کہ اس کو بنا سکوں ورنہ پانچ گز حطیم سے کعبہ کے اندر کر دیتا اور ایک دروازہ تو اس میں ایسا رہنے دیتا کہ لوگ اس میں داخل ہوتے اور دوسرا ایسا بناتا کہ لوگ اس سے باہر جاتے۔“ پھر سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم آج کے دن اتنا خرچ بھی رکھتے ہیں کہ اسے صرف کریں اور لوگوں کا خوف بھی نہیں۔ کہا راوی نے پھر سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے پانچ گز اس کی دیواریں زیادہ کر دیں حطیم کی جانب سے یہاں تک کہ نکلی وہاں پر ایک بنیاد کہ لوگوں نے اسے خوب دیکھا (اور وہ بنیاد تھی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی) پھر اسی بنیاد پر سے دیوار اٹھانا شروع کی اور طول کعبہ کا اٹھارہ ذراع تھا پھر جب اس میں زیادہ کیا تو چھوٹا نظر آنے لگا (چوڑان زیادہ ہو گئی اور لمبان کم نظر آنے لگی) سو اس کی لمبان میں بھی دس ذراع زیادہ کیئے اور اس کے دو دروازے رکھے ایک میں سے اندر جائیں، دوسرے سے باہر آئیں پھر جب سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو حجاج نے عبدالملک بن مروان کو یہ خبر لکھ بھیجی کہ سیدنا ابن زیبر رضی اللہ عنہ نے بناء کی وہ ان ہی بنیادوں پر کی جس کو معتبر لوگ مکہ کے دیکھ چکے ہیں (یعنی بنائے ابراہیم علیہ السلام پر کی) سو عبدالملک نے اس کو جواب لکھا کہ ہم کو سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی لت پت سے کچھ نہیں اور تم ایسا کرو جو انہوں نے طول میں زیادہ کر دیا ہے اس کو تو رہنے دو اور جو حطیم کی طرف سے زیادہ کیا ہے اس کو نکال ڈالو اور پھر حالت اولیٰ پر بنا دو اور وہ دروازہ بند کر دو جو کہ انہوں نے زیادہ کھولا ہے غرض حجاج نے اسے توڑ کر بنائے اول پر بنا دیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 456
حارث سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عبید نے کہا کہ حارث وفد بن کر گئے عبدالملک کے پاس، جب عبدالملک خلیفہ تھا غرض کہ عبدالملک نے حارث بن عبداللہ سے کہا کہ مجھے گمان ہے کہ ابوخبیب یعنی سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے وہ حدیث سنی ہے یعنی جس میں بنائے کعبہ کا ذکر ہے تو وہ جھوٹ کہتے ہیں، انہوں نے کچھ نہیں سنا، تب حارث نے کہا کہ نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے وہ حدیث سنی ہے عبدالملک نے کہا کہ تم نے ان سے کیا سنا ہے؟ تو حارث نے کہا کہ وہ فرماتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ تمہاری قوم نے کعبہ کی بنا کو چھوٹا کر دیا اور اگر تمہاری قوم نے نیا شرک نہ چھوڑا ہوتا تو میں جتنا انہوں نے چھوڑ دیا ہے اس کو بنا دیتا۔ سو اگر تمہاری قوم کا ارادہ ہو کہ ویسا بنا دیں جیسا میں چاہتا ہوں میرے بعد تو آؤ میں دکھا دوں جو انہوں نے چھوڑا ہے۔“ سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دکھا دیا کہ وہ قریب سات ہاتھ تھا یعنی حطیم کی طرف سے یہ تو عبداللہ بن عبید کی روایت ہوئی اور ولید بن عطاء نے یہ مضمون اور زیادہ کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ””کہ میں اس میں دو دروازے زمین سے ملے ہوئے رکھتا ایک مشرق کی طرف دوسرا مغرب کی طرف اور تم جانتی ہو کہ تمہاری قوم نے دروازہ اس کا اونچا کیوں کر دیا؟“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ میں نہیں جانتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تکبر کی راہ سے اور اس لیے کہ کوئی اندر نہ جا سکے مگر جسے وہ چاہیں اور حال ان کا یہ تھا کہ جب کوئی اندر جانے کا ارادہ کرتا تو اس کو جانے دیتے جب اندر جانے لگتا تو اسے دھکیل دیتے کہ گر پڑتا۔“ پھر عبدالملک نے حارث سے کہا کہ تم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے خود سنا کہ وہ ایسا فرماتی تھیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، تب وہ اپنی چھڑی سے زمین کریدنے لگا (جیسے کوئی شرمندہ اور متفکر ہو جاتا ہے) اور پھر کہا: میں آرزو کرتا ہوں کہ اسی طرح چھوڑ دیتا اور جو کچھ وہاں ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 457
کہا مسلم رحمہ اللہ نے روایت کی ہم سے حدیث محمد بن عمرو نے، ان سے ابوعاصم نے اور کہا مسلم نے کہ روایت کی ہم سے عبد بن حمید نے، ان سے عبدالرزاق نے، اور ان دونوں نے روایت کی ابن جریج سے اسی اسناد سے ابن بکر کی حدیث کے مانند جو اوپر گزری۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 458
ابوقزعہ سے روایت ہے کہ عبدالملک بن مروان طواف کر رہا تھا بیت اللہ کا کہنے لگا: اللہ تعالیٰ ہلاک کرے (سیدنا) ابن زبیر (رضی اللہ عنہ) کو وہ جھوٹ باندھتا تھا ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر اور کہتا تھا کہ میں نے ان سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ اے عائشہ! اگر تمہاری قوم نے نیا نیا کفر نہ چھوڑا ہوتا تو میں کعبہ کو توڑا کر حجر کو (حطیم کو) زیادہ کرتا اس لیے کہ تمہاری قوم نے بنائے کعبہ کم کر دی۔“ سو حارث نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! ایسا نہ فرمائیے اس لیے کہ میں نے بھی ام المؤمنین سے سنا ہے وہ بھی یہی حدیث بیان فرماتی تھیں تو عبدالملک نے کہا کہ اگر کعبہ گرانے کے قبل میں یہ حدیث سنتا تو ابن زبیر رضی اللہ عنہ ہی کی بناء کو قائم رکھتا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 459
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ حطیم کی دیوار بیت اللہ میں داخل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ (اس سے بھی رد ہو گیا مذہب ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا اور ناجائز ہوا طواف حطیم کے اندر سے اس لیے کہ وہ داخل بیت اللہ ہے) پھر میں نے عرض کی: اس کو بیت اللہ میں کیوں نہ داخل کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ یہ تمہاری قوم کی حرکت ہے کہ ان کے پاس خرچ کم ہو گیا۔“ پھر میں نے عرض کی کہ دروازہ اس کا کیوں اونچا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بھی تمہاری قوم کا کیا ہوا ہے تاکہ جس کو چاہیں اسے جانے دیں اور جس کو چاہیں نہ جانے دیں اور اگر تمہاری قوم نے نئی نئی جاہلیت نہ چھوڑی ہوتی اور مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ ان کے دل بدل جائیں گے تو میں ارادہ کرتا کہ داخل کر دوں دیواروں کو یعنی حطیم کی بیت اللہ میں اور دروازہ اس کا زمین کو لگا دیتا۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 460
کہا مسلم رحمہ اللہ نے روایت کی ہم سے یہی حدیث ابوبکر بن ابوشیبہ نے، ان سے عبیداللہ یعنی ابن موسیٰ نے، ان سے شیبان نے، ان سے اشعث نے، ان سے اسود نے، ان سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ انہوں نے کہا: پوچھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حجر کو اور بیان کی حدیث ابوالاحوص کی حدیث کے ہم معنی اور اس میں یوں ہے کہ کہا انہوں نے کہ دروازہ اس کا اتنا اونچا کیوں ہے کہ بغیر سیڑھی کے اس پر نہیں جا سکتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں یوں ہے کہ میں ڈرتا ہوں کہ ان کے دل نفرت نہ کر جائیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 461
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار تھے پیچھے، سو ایک عورت آئی خثعم قبیلہ کی اور وہ پوچھنے لگی اور فضل رضی اللہ عنہ اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ فضل کو دیکھنے لگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فضل کا منہ دوسری طرف پھیر دیتے تھے، غرض اس عورت نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اللہ نے جو اپنے بندوں پر حج فرض کیا وہ میرے باپ پر بھی ہوا اور وہ بوڑھے ہیں کہ سواری پر سوار نہیں ہو سکتے کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ ہاں۔“ اور یہ ذکر حجتہ الوداع کا ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 462
فضل سے روایت ہے کہ ایک عورت قبیلہ خثعم کی اس نے کہا: یا رسول اللہ! میرا باپ بوڑھا ہے اور اس پر حج اللہ تعالیٰ کا فرض کیا ہوا ہے اور وہ سواری کی پیٹھ پر بخوبی نہیں بیٹھ سکتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ تم اس کی طرف سے حج کرو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 463
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ اونٹوں کے سوار لوگ ملے روحاء میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ”تم کون لوگ ہو؟۔“ انہوں نے کہا کہ مسلمان۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان لوگوں نے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ پاک کا رسول ہوں۔“ تو ایک عورت نے ایک لڑکے کو ہاتھوں سے بلند کیا اور عرض کیا کہ کیا اس کا حج صحیح ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ ہاں صحیح ہے اور ثواب اس کا تم کو ہے۔“ (یعنی ماں باپ کو)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 464
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے بچے کو اٹھایا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول! کیا اس کا حج ہو جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں اور تیرے لیے اس کا اجر بھی۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 465
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 466
مزکورہ بالاحدیث اس سند سے بھی آئی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 467
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ خطبہ پڑھا ہم پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اور فرمایا: ”کہ اے لوگو! تم پر حج فرض ہوا ہے سو حج کرو۔“ ایک شخص نے کہا کہ ہر سال یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو رہے اس نے تین بار یہی عرض کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہوتا اور پھر تم سے نہ ہو سکتا سو تم مجھے اتنی ہی بات پر چھوڑ دو کہ جس پر میں تمہیں چھوڑ دوں اس لیے کہ اگلے لوگ اسی سبب سے ہلاک ہوئے ہیں کہ انہوں نے اپنے انبیا علیہم السلام سے بہت سوال کیے اور ان سے بہت اختلاف کرتے رہے پھر جب میں تم کو کسی بات کا حکم دوں اس میں سے جتنا ہو سکے بجا لاؤ اور جب کسی بات سے منع کروں اس کو چھوڑ دو“۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 468
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت سفر نہ کرے تین دن کا جب کہ اس کے ساتھ کوئی محرم نہ ہو۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 469
عبیداللہ سے اسی سند سے ابوبکر کی روایت میں یہ ہے کہ تین دن سے زیادہ اور ابن نمیر کی روایت میں ان کے باپ سے کہ ”تین دن مگر اس کے ساتھ کوئی ذومحرم ہو“۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 470
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حلال نہیں کسی عورت کو جو ایمان رکھتی ہو اللہ پر اور پچھلے دن پر کہ سفر کرے تین رات کا مگر اس کے ساتھ کوئی محرم ہو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 471
قزعہ نے کہا میں نے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث سنی جو مجھے بہت پسند آئی اور میں نے ان سے کہا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا کہ جو میں نے ان سے نہ سنی ہوتی تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرتا ایسی بات جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی؟ اب سنو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ باندھو تم کجاووں کو (یعنی سفر نہ کرو) مگر تین مسجدوں کی طرف ایک میری یہ مسجد اور دوسری المسجد الحرام اور تیسری مسجد اقصیٰ۔“ (یعنی بیت المقدس کی) اور سنا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے کہ ”کوئی عورت سفر نہ کرے دو دن کا زمانہ میں سے مگر اس کے ساتھ ذومحرم ہو یا اس کا شوہر ہو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 472
قزعہ نے کہا کہ میں نے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا کہ انہوں نے کہا کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار باتوں کو، سو مجھے پسند آئیں اور اچھی معلوم ہوئیں۔ منع کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہ سفر کرے عورت دو دن کا مگر جب اس کے ساتھ اس کا شوہر ہو یا ناتے والا اور بیان کی باقی حدیث۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 473
مضمون وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 474
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ تین دن سے زیادہ کوئی عورت سفر نہ کرے سوائے محرم کے ساتھ۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 475
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 476
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ کسی مسلمان عورت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ایک رات کی مسافت طے کرے سوائے اس کے کہ اس کا کوئی محرم ساتھ ہو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 477
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ”کوئی بھی عورت جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے ایک دن کی مسافت طے کرنا جائز نہیں سوائے اپنے محرم کے ساتھ۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 478
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 479
مضمون وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 480
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حلال نہیں اس عورت کو جو االلہ تعالیٰ پر اور پچھلے دن پر ایمان رکھتی ہو کہ تین دن کا سفر کرے یا زیادہ مگر جب اس کے ساتھ اس کا باپ ہو یا فرزند یا شوہر یا بھائی یا اور کوئی ناتہ دار کہ جس سے پردہ نہ ہو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 481
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 482
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا: ”کوئی مرد کسی عورت سے ساتھ اکیلا نہ ہو اور نہ عورت سفر کرے مگر ناتے والے کے ساتھ۔“ سو ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میری عورت تو حج کو جاتی ہے اور میں فلاں لشکر میں لکھا گیا ہوں جو فلاں طرف جانا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ تو جا اور اپنی عورت کے ساتھ حج کر۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 483
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 484
چند الفاظ کے فرق سے اس سند سے یہی حدیث مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 485
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر سوار ہوتے کہیں سفر میں جانے کو تو تین بار «الله اكبر» فرماتے پھر یہ دعا پڑھتے «سُبْحَانَ الَّذِى سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ فِى سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى اللَّهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِى السَّفَرِ وَالْخَلِيفَةُ فِى الأَهْلِ اللَّهُمَّ إِنِّى أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِى الْمَالِ وَالأَهْلِ» یعنی ”پاک ہے پروردگار جس نے ہمارا دبیل کر دیا اس جانور کو اور ہم اس کو دبا نہ سکتے تھے اور ہم اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جانے والے ہیں، یااللہ! ہم مانگتے ہیں تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور پرہیزگاری اور ایسے کام جسے تو پسند کرے، یااللہ! آسان کر دے ہم پر اس سفر کو اور اس لمبان کو ہم پر تھوڑا کر دے، یا اللہ! تو رفیق ہے سفر میں اور تو خلیفہ ہے گھر میں، یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تجھ سے سفر کی تکلیفوں اور رنج و غم سے اور برے حال میں لوٹ کر آنے سے مال میں اور گھر والوں میں۔“ (یہ تو جاتے وقت پڑھتے) اور جب لوٹ کر آتے جب بھی (یہی دعا پڑھتے)، مگر اس میں اتنا زیادہ کرتے «آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ» یعنی ”ہم لوٹنے والے ہیں اور توبہ کرنے والے، خاص اپنے رب کو پوجنے والے او اسی کی تعریف کرنے والے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 486
سیدنا عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے تو اللہ تعالٰی سے پناہ مانگتے سفر کی مشقتوں سے اور غمگین ہو کر لوٹنے سے اور بھلائی کے بعد برائی کی طرف لوٹنے سے اور اہل و عیال میں برائی کے دیکھنے سے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 487
عاصم سے اسی اسناد سے وہی دعا مذکور ہوئی۔ مگر عبدالواحد کی روایت میں «فِى الْمَالِ وَالأَهْلِ» ہے اور محمد بن حازم کی روایت میں یہ ہے کہ اہل کا لفظ پہلے بولتے جب لوٹتے اور دونوں کی روایتوں میں یہ لفظ ہے «اللَّهُمَّ إِنِّى أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ» سے آخرت تک یعنی ”یااللہ! پناہ مانگتا ہوں سفر کی مشقتوں سے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 488
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب لوٹتے لشکروں سے یا چھوٹی جماعت سے لشکر کی یا حج و عمرہ سے تو جب پہنچ جاتے کسی ٹیلہ پر، یا اونچی زمین کنکریلی پر، تو تین بار اللہ اکبر کہتے تھے پھر «لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ» پڑھتے یعنی ”کوئی لائق عبادت کے نہیں ہے سوا اللہ تعالیٰ کے اور کوئی شریک نہیں اس کا، اسی کی ہے سلطنت اور اسی کے لیے ہے سب تعریف اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے ہم لوٹنے والے، رجوع ہونے والے، عبادت کرنے والے ہیں، سجدہ کرنے والے، اپنے رب کی خاص حمد کرنے والے ہیں، سچا کیا اللہ پاک نے وعدہ اپنا اور مدد کی اپنے غلام کی اور شکست دی لشکروں کو اسی اکیلے نے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 489
وہی مضمون نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے مگر ایوب کی روایت میں تکبیر دو بار مذکور ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 490
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر آپ کے پیچھے سوار تھیں یہاں تک کہ ہم مدینہ کے پشت پر پہنچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے ” «آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ» غرض مدینہ تک یہی کہتے چلے آئے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 491
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 492
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ بٹھایا کنکریلی زمین میں ذی الحلیفہ کی اور وہاں نماز ادا کی۔ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 493
نافع نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بطحائے ذی الحلیفہ میں اپنا اونٹ بٹھاتے اور نماز پڑھتے اور فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا ہے اور نماز پڑھی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 494
نافع نے کہا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ جب حج یا عمرہ سے لوٹتے تو بطحائے ذی الحلیفہ میں اونٹ بٹھاتے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بٹھاتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 495
سالم نے اپنے باپ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخر شب میں ذوالحلیفہ میں اترے ہوئے تھے کہ آپ سے کہا گیا کہ ”تم مبارک میدان میں ہو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 496
سالم نے اپنے باپ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی فرشتہ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخر شب میں ذی الحلیفہ میں اترے ہوئے تھے میدان میں۔ سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نے کہا کہ آپ مبارک میدان میں ہیں۔ اور موسیٰ راوی نے کہا کہ ہمارے ساتھ سالم بن عبداللہ نے اونٹ بٹھائے اس جگہ میں جہاں عبداللہ بٹھا دیتے تھے اور اس کو جانتے اور خیال کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اترنے کی جگہ ہے اور وہ اس مسجد سے نیچے ہے جو بطن وادی میں بنی ہوئی تھی اور مسجد اور قبلہ کے بیچ میں وہ مقام واقع ہوا ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 497
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس حج میں روانہ فرمایا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امیر کیا حجتہ الوداع کے قبل اور مجھے روانہ کیا اس جماعت میں کہ جو پکارتے تھے نحر کے دن کہ اس سال کے بعد اب کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور نہ کوئی بیت اللہ کا ننگا ہو کر طواف کرے۔ (جیسے مشرک لوگ ایام جاہلیت میں کرتے تھے) ابن شہاب زہری نے کہا کہ عبدالرحمٰن کے فرزند حمید یہی کہتے تھے کہ حج اکبر کا دن وہی نحر کا دن ہے۔ اسی ابوہریرہ کی حدیث کے سبب سے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 498
سعید بن مسیّب رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عرفہ سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ بندوں کو آگ سے اتنا آزاد کرتا ہو جتنا عرفہ کے دن آزاد کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ قریب ہوتا ہے اور فرشتوں پر بندوں کا حال دیکھ کر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ کس ارادہ سے جمع ہوئے ہیں؟۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 499
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک عمرہ سے دوسرا عمرہ کفارہ ہو جاتا ہے بیچ کے گناہوں کا اور حج مقبول کا بدلہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 500
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی روایت کی گئی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 501
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جو اس گھر میں آیا اور بےہودہ شہوت رانی کی باتیں نہ کیں، نہ گناہ کیا، وہ ایسا پھرا کہ گویا اسے ماں نے ابھی جنا۔“ (یعنی گناہوں سے پاک ہو گیا)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 502
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 503
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی حدیث اس سند سے روایت کرتے ہیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 504
سیدنا اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ مکہ میں اپنے گھر میں اتریں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھلا عقیل نے ہمارے لیے کوئی چار دیواری یا مکان چھوڑا ہے۔“ اور حقیقت اس کی یہ تھی کہ عقیل اور طالب وارث ہوئے ابوطالب کے اور جعفر اور علی کو ان کی وراثت میں سے کچھ نہ ملا، اس لیے کہ یہ دونوں مسلمان تھے اور عقیل اور طالب دونوں کافر تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 505
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کل آپ کہاں اتریں گے؟ اور یہ بات حج کے دنوں کی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عقیل نے ہمارے لیے کوئی گھر چھوڑا ہی نہیں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 506
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کل اللہ نے چاہا اور ہم پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں اتریں گے اور یہ بات فتح مکہ کے دنوں میں کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”عقیل نے ہمارے لیے کوئی گھر چھوڑا ہی نہیں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 507
عمر بن عبدالعزیز سائب بن یزید سے پوچھتے تھے کہ تم نے مکہ میں رہنے کے باب میں کچھ سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے علاء بن حضرمی سے سنا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: کہ ”مہاجر کو اجازت ہے حج کے بعد لوٹنے کے پیچھے تین روز تک مکہ میں رہنے کی۔“ مراد یہ تھی کہ اس سے زیادہ نہ رہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 508
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہاجر مناسک حج کی ادائیگی کے بعد مکہ میں تین دن قیام کر سکتا ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 509
اسی طرح کی حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 510
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 511
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث آتی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 512
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس دن مکہ فتح ہوا کہ ”آج سے مکہ کی ہجرت نہیں رہی مگر جہاد اور نیت باقی ہے اور تم کو حکام جہاد کے لئے بلائیں تو نکلو اور چلو۔“ اور فرمایا: ”کہ یہ شہر ایسا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے اس کو ادب کی جگہ قرار دیا ہے جس دن سے آسمان و زمین بنایا ہے غرض وہ اللہ کے مقرر کرنے سے حکمت و ادب کی جگہ ٹھہرایا گیا ہے، قیامت تک اور کسی کو اس میں قتال روا نہیں ہوا مجھ سے پیشتر اور مجھے بھی ایک دن کی صرف ایک گھڑی اجازت ہوئی تھی (یعنی لڑائی کی) اور وہ پھر ویسا ہی حرام ہو گیا، اللہ تعالیٰ کے حرام کرنے سے قیامت تک کہ نہ اس کا کانٹا اکھاڑا جائے اور نہ اس کا شکار بھگایا جائے اور نہ اس کی گری پڑی چیز اٹھائی جائے مگر وہ اٹھائے جو اس کو پہنچوائے (کہ جس کی ہو اس کو دے دے) اور نہ اس کی ہری گھاس اکھاڑی جائے۔“ سو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ! مگر اذخر (یعنی اس کی اجازت دیجئیے) کہ وہ سناروں، لوہاروں کے کام آتی ہے اور اس سے گھر چھائے جاتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مگر اذخر۔“ یعنی اس کے توڑنے کی اجازت ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 513
چند الفاظ کے فرق سے مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 514
سیدنا ابوشریح عدوی رضی اللہ عنہ نے عمرو بن سعید سے کہا کہ جس وقت وہ لشکروں کو روانہ کرتا تھا مکہ کے اوپر سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے قتل کو کہ اجازت دو مجھے اے امیر کہ میں ایک حدیث بیان کروں کہ جو خطبہ کے طور سے کھڑے ہو کر فرمائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے دن مکہ کی فتح کے اور میرے کانوں نے سنی اور دل نے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بیان فرمائی، پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثناء کی پھر فرمایا: ”مکہ کو اللہ نے حرام کیا ہے اور لوگوں نے حرام نہیں کیا سو کسی شخص کو روا نہیں جو اللہ پر اور پچھلے دن پر ایمان رکھتا ہو کہ اس میں کسی کا خون بہائے اور نہ یہ حلال ہے کہ اس میں درخت کاٹے پھر اگر میرے قتال کی سند سے قتال کی اجازت کوئی شخص نکالے تو اس سے کہہ دینا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اجازت دی اس اور تم کو اجازت نہیں دی اور مجھے بھی دن میں ایک گھڑی کے لئے اجازت دی۔ اور پھر اس کی حرمت آج ویسے ہی لوٹ آئی جیسے کل تھی۔ اور ضروری ہے کہ جو حاضر ہو غائبوں کو یہ حدیث پہنچا دے۔“ لوگوں نے ابوشریح سے کہا پھر عمرو نے آپ کو کیا جواب دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ اس نے کہا کہ اے ابوشریح! میں اسے تم سے زیادہ جانتا ہوں (ھائے ظالم) حرم پناہ نہیں دیتا نافرمان کو (یہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو کہا۔ معاذ اللہ من ذلک) اور نہ اس کو جو خون کر کے بھاگا ہو اور نہ اس کو جو چوری اور فساد کر کے بھاگا ہو۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 515
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب اللہ تعالیٰ نے مکہ کی فتح دی اپنے رسول کو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں کھڑے ہو کر اللہ کی حمد و ثناء کی پھر فرمایا: ”اللہ پاک نے اصحاب فیل کو مکہ سے روک دیا اور اپنے رسول کو مؤمنوں کو اس کا حاکم فرمایا اور اس میں لڑنا کسی کو حلال نہیں ہوا مجھ سے پہلے اور مجھے بھی ایک گھڑی کی اجازت ملی دن سے اور اب کبھی حلال نہ ہو گا میرے بعد کسی کو، پھر اس کا شکار بھگایا نہ جائے، اس کا کانٹا توڑا نہ جائے، اس کی گری پڑی چیز اٹھائی نہ جائے مگر وہ شخص اٹھائے جو بتاتا پھرے کہ جس کی ہو اسے دے دے اور جس کا کوئی شخص مارا گیا اس کو دو باتوں کا اختیار ہے، خواہ فدیہ لے لے یعنی خون بہا لے خواہ قاتل کو قصاص میں مروا ڈالے۔“ سو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ مگر اذخر یا رسول اللہ! کہ ہم اس کو اپنی قبروں میں ڈالتے ہیں اور گھروں کو اس سے چھاتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”کہ خیر اذخر توڑ لو۔“ (گھاس کو اذخر کہا) پھر ابوشاہ ایک شخص یمن کا اٹھا اور اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! یہ مجھے لکھ دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لکھ دو ابوشاہ کو۔“ ولید نے کہا کہ میں نے اوزاعی سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب؟ یا رسول اللہ! یہ مجھے لکھ دو۔ انہوں نے کہا یہی خطبہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (یعنی اس کو ابوشاہ نے لکھوا لیا کہ بڑے نفع کی بات تھی)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 516
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ خزاعہ والوں نے ایک شخص کو مار ڈالا قبیلہ بنی لیث سے جس سال مکہ فتح ہوا اپنے ایک مقتول کے بدلے جس کو بنی لیث نے مار ڈالا تھا اور اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور خطبہ پڑھا اور فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے مکہ سے اصحاب فیل کو روکا اور اپنے رسول اور مؤمنوں کو اس پر حاکم کیا اور وہ مجھ سے پہلے کسی کو حلال نہیں ہوا تھا اور نہ میرے بعد کسی کو حلال ہو گا اور میرے لئے بھی ایک گھڑی کے لئے حلال ہوا تھا اور اب اس گھڑی میں پھر ویسا ہی مجھ پر حرام ہو گیا (یعنی جیسے پہلے تھا) سو اس کا کانٹا نہ اکھاڑا جائے اور درخت نہ کاٹا جائے اور پڑی چیز نہ اٹھائی جائے مگر بتانے والا اٹھائے اور جس کا کوئی شخص مارا جائے اس کو دو چیزوں کا اختیار ہے خواہ دیت لے لے خواہ قصاص لے لے۔“ پھر ایک شخص یمن کا آیا کہ اسے ابوشاہ کہتے تھے اور اس نے کہا کہ مجھے لکھ دیجئیے یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب رضی اللہ عنہم سے فرمایا: ”کہ اسے لکھ دو۔“ پھر ایک شخص نے قریش میں سے کہا کہ مگر اذخر کو کہ وہ ہمارے گھروں اور قبروں میں کام آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ خیر مگر اذخر۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 517
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ فرماتے تھے: ”حلال نہیں کسی کو مکہ میں ہتھیار اٹھائے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 518
یحییٰ نے یہ لفظ بیان کئیے کہ میں نے مالک سے پوچھا کہ ابن شہاب نے انس سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر خود تھا، جس سال مکہ فتح ہوا، پھر جب خود اتارا ایک شخص نے آ کر کہا کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں میں لٹکا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو مار ڈالو۔ مالک کہ ہاں مجھ سے روایت بیان کی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 519
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے روایت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سیاہ عمامہ تھا بغیر احرام کے اور آگے کی روایت میں ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے فتح مکہ کے دن اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سیاہ عمامہ تھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 520
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 521
عمرو بن حریث سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سیاہ عمامہ تھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 522
سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ سے روایت کی کہ میں گویا دیکھ رہا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر کے اوپر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سیاہ عمامہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دونوں کناروں کو اپنے شانوں کے بیچ میں لٹکا دیا ہے اور ابوبکر کی روایت میں منبر کا ذکر نہیں ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 523
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کا حرم مقرر کیا (یعنی حرمت اس کی ظاہر کی ورنہ حرمت اس کی آسمان و زمین کے بننے کے دن تھی) اور اس کے لوگوں کے لئے دعا کی اور میں نے مدینہ کو حرام کیا جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرام کیا اور میں نے دعا کی مدینہ کے صاع اور مد کے لئے اس سے دو حصے برابر جیسے ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی اہل مکہ کے لئے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 524
عمرو سے اسی اسناد سے یہی مضمون مروی ہوا اور لیکن وہیب کی روایت میں تو «الدَّرَاوَرْدِىِّ» کی مثل یہی ہے کہ ”میں نے دعا کی ابراہیم علیہ السلام کے دو حصہ برابر۔“ اور سلیمان بن بلال اور عبدالعزیز کی روایت میں یہ ہے کہ ”دعا کی میں نے ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے برابر۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 525
رافع نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں دونوں کالے پتھروں والے میدانوں کے بیچ میں حرام قرار دیتا ہوں۔“ مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 526
نافع نے کہا کہ مروان نے خطبہ پڑھا اور ذکر کیا مکہ کا اور اس کے رہنے والوں کا سو پکارا اس کو سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ صحابی نے اور کہا کہ یہ کیا سنتا ہوں میں تجھ سے کہ تو نے ذکر کیا مکہ کا اور اس کے لوگوں کا اور اس کے حرم ہونے کا اور نہ ذکر کیا مدینہ کا اور نہ وہاں کے لوگوں کا اور نہ اس کے حرم ہونے کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم ٹھہرایا ہے۔ دونوں کالے پتھر والے میدانوں کے بیچ میں اور یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرم ٹھہرانے کی ہمارے پاس ایک خولانی چمڑے پر لکھی ہوئی ہے اگر تم چاہو تو میں تم کو پڑھا دوں۔ راوی نے کہا کہ مروان خاموش ہو رہا اور کہا کہ میں نے بھی اس میں سے کچھ سنا ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 527
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ ابراہیم علیہ السلام نے حرم مقرر کیا مکہ کا اور میں حرم مقرر کرتا ہوں مدینہ کا دونوں کالے پتھر والے میدانوں کے بیچ میں (یعنی جو مدینہ کے دونوں طرف واقع ہیں) کوئی کانٹے دار درخت نہ کاٹا جائے اور نہ کوئی جانور شکار کیا جائے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 528
عامر بن سعد نے اپنے باپ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے حرم مقرر کر دیا درمیان دونوں میدانوں کالے پتھر والوں کے کہ نہ کاٹا جائے کانٹے دار درخت وہاں کا۔“ اور فرمایا: ”کہ مدینہ ان لوگوں کے لئے بہتر ہے کاش وہ اس کو سمجھتے (یہ خطاب ہے ان لوگوں کو جو مدینہ چھوڑ کر اور جگہ چلے جاتے ہیں یا تمام مسلمانوں کو) اور نہیں چھوڑتا کوئی مدینہ کو مگر اللہ تعالیٰ اس سے بہتر کوئی آدمی اس میں بھیج دیتا ہے اور نہیں صبر کرتا ہے کوئی اس کی بھوک، پیاس پر اور محنت و مشقت پر مگر میں اس کا شفیع یا گواہ ہوتا ہوں قیامت کے دن۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 529
سیدنا عامر بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے وہی روایت بیان کی مثل حدیث ابن نمیر کی اور اس میں زیادہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”نہیں ارادہ کرتا ہے کوئی اہل مدینہ کے ساتھ برائی کا۔ مگر اللہ تعالیٰ اس کو گھلا دیتا ہے ایسا جیسے سیسہ گھل جاتا ہے آگ میں یا نمک گھل جاتا ہے پانی میں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 530
عامر بن سعد نے کہا کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ اپنے مکان کو چلے جو عقیق میں تھا، راہ میں ایک غلام کو دیکھا کہ وہ ایک درخت کاٹ رہا ہے یا پتے توڑ رہا ہے۔ سو اس کے کپڑے چھین لئے اور اس کے گھر والے آئے اور انہوں نے کہا: آپ وہ اس کو پھیر دیجئے یا ہم کو عنایت کیجئے، انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی پناہ اس سے کہ میں وہ چیز پھیر دوں۔ جو مجھے بطریق انعام کے عنایت کی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور ہرگز نہ پھیرا انہوں نے سامان اس کا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 531
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”کہ ایک لڑکا ڈھونڈھو جو ہماری خدمت کرے۔“ سو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مجھے لے کر گئے اپنی سواری پر پیچھے بٹھا کر اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترتے تھے۔ پھر ایک حدیث میں کہا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے یہاں تک کہ جب کوہ احد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائی دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”احد ہم کو دوست رکھتا ہے اور ہم احد کو دوست رکھتے ہیں۔“ پھر جب مدینہ کے قریب آئے تو فرمایا: ”کہ یا اللہ! حرام کرتا ہوں ان دونوں پہاڑوں کے درمیان کو جیسا ابراہیم علیہ السلام نے حرام کیا مکہ کو۔ یا اللہ! برکت دے ان کو ان کے مد اور صاع میں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 532
کہا مسلم رحمہ اللہ نے اور روایت کی ہم سے یہی حدیث سعید اور قتیبہ نے، ان سے یعقوب نے، ان سے عمرہ بن ابی عمرہ نے، ان سے سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مثل اس کے جو اوپر گزری مگر اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں حرام ٹھہراتا ہوں درمیان دونوں کالے پتھر والے میدانوں کے بیچ میں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 533
عاصم نے کہا: میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم ٹھہرایا مدینہ کو؟ کہا: ہاں فلاں مقام سے فلاں تک۔ ”سو جو اس میں کوئی بات نکالے یعنی گناہ کی تو اس پر لعنت ہے اللہ تعالیٰ کی اور فرشتون اور لوگوں کی، نہ قبول کرے گا اللہ اس سے قیامت کے دن فرض نہ نفل۔“ اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے کہا: یا جگہ دی کسی نئے گناہ کی بات کرنے والے کو۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 534
عاصم نے کہا کہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا مدینہ کو حرم ٹھہرایا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں وہ حرم ہے نہ توڑا جائے گا درخت اس کا اور جو ایسا کرے گا اس پر اللہ اور فرشتوں اور لوگوں کی لعنت ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 535
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِى مِكْيَالِهِمْ وَبَارِكْ لَهُمْ فِى صَاعِهِمْ وَبَارِكْ لَهُمْ فِى مُدِّهِمْ» کہ ”یااللہ! برکت دے ان کو (یعنی مدینہ والوں کو) ان کے ماپ میں اور برکت دے ان کے صاع میں اور برکت دے ان کے مد میں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 536
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللَّهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِينَةِ ضِعْفَىْ مَا بِمَكَّةَ مِنَ الْبَرَكَةِ» کہ ”یا اللہ! مدینہ میں مکہ سے دوگنی برکت دے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 537
ابراہیم نے اپنے باپ سے روایت کہ خطبہ پڑھا ہم پر سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے اور فرمایا: کہ جو دعویٰ کرے کہ ہمارے پاس (یعنی اہل بیت کے) کوئی اور چیز ہے سوا کتاب اللہ کے اور اس صحیفہ کے اور راوی نے کہا کہ ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا ان کی تلوار کی میان میں تو اس نے جھوٹ کہا اور اس صحیفہ میں اونٹوں کی عمریں (یعنی زکوٰۃ کے متعلقات) اور کچھ زخموں کا بیان تھا (یعنی ان کے قصاص اور دیتوں کا بیان) اور اس صحیفہ میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ حرم ہے عیر اور ثور کے بیچ میں سو جو شخص کہ کوئی نئی بات نکالے اس جگہ یا جگہ دے کسی نئی بات نکالنے والوں کو تو اس پر لعنت ہے اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی، نہ قبول کرے گا اللہ تعالیٰ اس کا کوئی فرض، نہ سنت اور امان دینا ہر مسلمان کا برابر ہے کہ اعتبار کیا جاتا ہے ادنیٰ مسلمان کی پناہ دینے کا بھی اور جس نے اپنے کو اپنے باپ کے سوا غیر کا فرزند ٹھہرایا یا اپنے آقاؤں کے سوا کسی دوسرے کا غلام اپنے کو قرار دیا، اس پر اللہ تعالیٰ اور فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے اور نہ قبول کرے گا اس سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ فرض، نہ سنت۔“ مسلم رحمہ اللہ نے کہا کہ روایت ابوبکر و زہیر کی تو وہیں تک ہو چکی کہ ادنیٰ مسلمان کی پناہ دینے کا بھی اعتبار ہے اور ان دونوں کی روایت میں یہ ذکر نہیں کہ صحیفہ تلوار کے میان میں لٹکا ہوا تھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 538
اعمش نے اسی اسناد سے یہی مضمون مثل ابوکریب کے روایت کیا جو ابو معاویہ سے مروی ہے، اخیر تک بیان فرمایا اور اتنا زیادہ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ جو پناہ توڑے کسی مسلمان کی اس پر لعنت ہے اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی نہ قبول کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ فرض، نہ سنت۔“ اور ان کی دونوں حدیثوں میں یہ مضمون نہیں ہے کہ جو اپنے کو باپ کے سوا کسی غیر کا فرزند بنا دے اور وکیع کی روایت میں قیامت کا دن مذکور نہیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 539
مذکورہ بالا حدیث چند الفاظ کے فرق سے اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 540
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ حرم ہے پھر جو کوئی اس میں گناہ کرے یا کوئی گناہ کرنے والے کو جگہ دے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے اور نہ قبول کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن کوئی فرض نہ نفل۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 541
مذکورہ حدیث اس سند سے بھی مروی ہے اس میں «يوم القيامه» کے الفاظ نہیں اور یہ اضافہ ہے کہ ”مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے اور ایک عام مسلمان کی پناہ کا بھی اعتبار کیا جائے گا جس کسی نے مسلمانوں کی پناہ کو توڑا تو اس پر اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اس سے قیامت کے دن کوئی نفل اور فرض قبول نہیں کیا جائے گا۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 542
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ اگر میں کسی ہرن کو مدینہ میں چرتا دیکھتا ہوں تو کبھی نہ ڈراؤں اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: کہ ”دونوں کالے پتھروں والے میدانوں کے بیچ میں حرم ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 543
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم قرار دیا دونوں کالے پتھروں والے میدانوں کے بیچ میں کہ جو مدینہ کے مشرق اور مغرب کی طرف واقع ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں کسی ہرن کو پاؤں جو ان کے بیچ میں چرتا ہو تو کبھی نہ ڈراؤں اور نہ بھگاؤں اس کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ میل کو مدینہ کے گرداگرد رمنا مقرر کر دیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 544
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگوں کی عادت تھی کہ جب نیا کوئی پھل دیکھتے تھے (یعنی ابتدائے فصل کا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس کو لے لیتے تو دعا کرتے «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى ثَمَرِنَا وَبَارِكْ لَنَا فِى مَدِينَتِنَا وَبَارِكْ لَنَا فِى صَاعِنَا وَبَارِكْ لَنَا فِى مُدِّنَا اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُكَ وَخَلِيلُكَ وَنَبِيُّكَ وَإِنِّى عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ وَإِنَّهُ دَعَاكَ لِمَكَّةَ وَإِنِّى أَدْعُوكَ لِلْمَدِينَةِ بِمِثْلِ مَا دَعَاكَ لِمَكَّةَ وَمِثْلِهِ مَعَهُ» کہ ”یا اللہ! برکت دے ہمارے پھلوں میں، برکت دے ہمارے شہر میں، اور برکت دے ہمارے صاع میں، اور برکت دے ہمارے مد میں۔ یا اللہ! ابراہیم علیہ السلام تیرے غلام اور تیرے دوست اور تیرے نبی تھے اور میں تیرا غلام اور نبی ہوں اور انہوں نے دعا کی تجھ سے مکہ کے لیے اور میں دعا کرتا ہوں تجھ سے مدینہ کے لیے اس کے برابر جو انہوں نے مکہ کے لیے کی مثل اس کے اور بھی۔“ اس کے ساتھ بلاتے آپ کسی چھوٹے لڑکے اپنے کو اور وہ پھل اسے دے دیتے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 545
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہلا پھل آتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى مَدِينَتِنَا وَفِى ثِمَارِنَا وَفِى مُدِّنَا وَفِى صَاعِنَا بَرَكَةً مَعَ بَرَكَةٍ» کہ ”یااللہ! برکت دے ہمارے شہر میں اور ہمارے پھلوں میں اور ہمارے مدینہ میں، اور ہمارے صاع میں برکت پر برکت دے۔“ پھر وہ پھل دے دیتے کسی چھوٹے لڑکے کو جو اس وقت حاضر ہوتا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 546
ابوسعید نے کہا کہ ہم کو مدینہ میں ایک بار محنت اور شامت فاقہ کو پہنچی اور میں سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ میں کثیر العیال ہوں اور ہم کو سختی پہنچی ہے اور میں نے ارادہ کیا ہے کہ اپنے عیال کو کسی ارزاں اور سرسبز ملک میں لے جاؤں۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مدینہ کو نہ چھوڑو اس لیے کہ ہم ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے میں گمان کرتا ہوں کہ انہوں نے کہ یہاں تک کہ عسفان تک پہنچ گئے اور وہاں کئی شب ٹھہرے، سو لوگوں نے کہا: قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ ہم یہاں بے کار ٹھہرے ہوئے ہیں اور ہمارے عیال پیچھے چھٹے ہوئے ہیں اور ہم کو ان کے اوپر اطمینان نہیں (یعنی خوف ہے کہ کوئی دشمن نہ ستائے) اور یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کہ یہ کیا بات ہے جو مجھ کو پہنچی ہے؟۔“ راوی نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ یہ کیا بات ہے؟ فرمایا: ”قسم ہے اس اللہ کی جس کی میں قسم کھاتا ہوں یا فرمایا: قسم ہے اس پروردگار کی کہ میری جان اس کے ہاتھ میں ہے البتہ میں نے ارادہ کیا یا فرمایا: اگر چاہو تم۔“ میں نہیں جانتا کہ کیا فرمایا ان دونوں باتوں میں سے۔ فرمایا: ”کہ البتہ حکم کروں میں اپنی اونٹنی کو کہ وہ کسی جائے اور پھر اس کی ایک گرہ بھی نہ کھولوں یہاں تک کہ داخل ہوں میں مدینہ میں۔“ اور فرمایا: ”کہ یا اللہ! ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں نے مدینہ کو حرم ٹھہرایا دو گھاٹیوں یا دو پہاڑوں کے بیچ میں کہ نہ اس میں خون بہایا جائے اور نہ اس میں لڑائی کے لیے ہتھیار اٹھایا جائے، نہ اس میں کسی درخت کے پتے جھاڑے جائیں مگر صرف چارے کے لیے (کہ اس سے درخت کا چنداں نقصان نہیں ہوتا) (فرمایا) «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى مَدِينَتِنَا اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى صَاعِنَا اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى مُدِّنَا اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى صَاعِنَا اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى مُدِّنَا اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى مَدِينَتِنَا اللَّهُمَّ اجْعَلْ مَعَ الْبَرَكَةِ بَرَكَتَيْنِ» یا اللہ! برکت دے ہمارے شہر میں۔ یا اللہ! برکت دے ہماری چوسیری میں، یا اللہ! برکت دے ہمارے سیر میں، یا اللہ! برکت دے ہمارے شہر میں، یا اللہ برکت کے ساتھ دو برکتیں اور دے۔“ اور فرمایا: ”قسم ہے اس پروردگار کی کہ میری جان اس کے ہاتھ میں ہے کہ کوئی گھاٹی اور کوئی ناکہ مدینہ کا ایسا نہیں ہے جس پر دو فرشتے نگہبان نہ ہوں جب تک کہ تم وہاں نہ پہنچو گے۔“ (یعنی جب تک وہ نگہبان رہیں گے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوچ کرو۔“ اور ہم نے کوچ کیا اور مدینہ میں آئے سو ہم قسم کھاتے ہیں اس پروردگار کی جس کی ہمیشہ قسم کھایا کرتے ہیں یا کہا: جس کی قسم کھائی جاتی ہے۔ غرض حماد کو اس میں شک ہوا غرض جب ہم مدینہ پہنچے تو ہم نے ابھی کجاوے اونٹوں پر سے نہیں اتارے تھے کہ بنو عبداللہ بن غطفان نے ہم پر ڈاکہ ڈالا اور اس سے پہلے ان کی ہمت نہ ہوئی (کہ وہاں آ سکیں یہ تصدیق ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے کی کہ فرشتے وہاں نگہبان ہیں)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 547
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى صَاعِنَا وَمُدِّنَا وَاجْعَلْ مَعَ الْبَرَكَةِ بَرَكَتَيْنِ» کہ ”یا اللہ! برکت دے ہمارے مد میں، اور ہمارے صاع میں، اور ایک برکت پر دو برکتیں اور عنایت فرما۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 548
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 549
ابو سعید مولیٰ مہری سے روایت ہے کہ وہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے حرہ کی راتوں میں (یعنی جن دنوں مدینہ طیبہ میں ایک فتنہ مشہور ہوا ہے اور ظالموں نے مدینہ طیبہ کو لوٹا ہے سن ۶۳ ہجری میں) اور مشورہ کیا ان سے کہ مدینہ سے کہیں اور چلے جائیں اور شکایت کی ان سے وہاں کی گرانی نرخ کی اور کثرت عیال کی اور خبر دی ان کو کہ مجھے صبر نہیں آ سکتا مدینہ کی محنت اور بھوک پر، تو سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ خرابی ہو تیری میں تجھے تھوڑے یہاں رہنے کا حکم کرتا ہوں بلکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے: ”کہ صبر نہیں کرتا ہے کوئی یہاں کی تکلیفوں پر اور پھر مر جاتا ہے مگر اس کا شفیع یا گواہ ہوں قیامت کے دن جب وہ مسلمان ہو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 550
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”میں نے حرم مقرر کیا ہے درمیان دونوں کالے پتھروں کے میدانوں میں مدینہ کے جیسے حرم قرار دیا تھا ابرہیم علیہ السلام نے مکہ کو۔“ یہاں تک کہ ایک ہم میں کا پاتا تھا یا لیتا تھا اپنے ہاتھ میں چڑیا اور اس کو جدا کر دیتا تھا پھر چھوڑ دیتا تھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 551
سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک مدینہ کی طرف جھکایا اور فرمایا: کہ ”وہ حرم ہے اور امن کی جگہ ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 552
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب ہم مدینہ تشریف لائے تو وہاں وبا تھی اور سیدنا ابوبکر اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہما بیمار ہوئے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کی بیماری دیکھی تو دعا کی «اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَمَا حَبَّبْتَ مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ وَصَحِّحْهَا وَبَارِكْ لَنَا فِى صَاعِهَا وَمُدِّهَا وَحَوِّلْ حُمَّاهَا إِلَى الْجُحْفَةِ» ”یااللہ دوست کر دے ہمارے مدینہ کو جیسے دوست کیا تھا تو نے مکہ کو، یا اس سے بھی زیادہ اور صحت عطا کر اس کے رہنے والوں کو اور برکت دے ہم کو اس کے چوسیری اور سیر میں اور اس کے بخار کو جحفہ کی طرف پھیر دے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 553
مذکورہ حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 554
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”جو صبر کرے مدینہ کی بھوک پر میں اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا قیامت کے دن۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 555
یحنس زبیر کے آزاد کردہ غلام سے روایت ہے کہ وہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آزاد باندی آئی اور ان کو سلام کیا اور یہ فتنہ کے دن تھے (یعنی فتنہ حرہ کے دن جس کا ذکر ابھی تھوڑی دیر پہلے گزرا) اور اس نے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! (یہ کنیت ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی) ہم پر سخت دن ہیں اور میں ارادہ کرتی ہوں مدینہ سے نکلنے کا تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کہ بیٹھ اے نادان! اس لئے کہ میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”جو صبر کرے گا مدینہ کی بھوک، پیاس اور مشقت پر تو میں اس کا شفیع ہوں گا (یعنی اگر وہ گنہگار ہے) یا گواہ ہوں گا (یعنی اگر وہ نیکوکار ہے) قیامت کے دن۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 556
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ وہی قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 557
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 558
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 559
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث روایت کی گئی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 560
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”مدینہ کے ناکوں پر فرشتے ہیں کہ اس میں طاعون اور دجال نہیں آ سکتا۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 561
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسیح دجال آئے گا مشرق کی طرف سے ارادہ اس کا مدینہ کا ہو گا یہاں تک کہ اترے گا کوہ احد کے پیچھے اور فرشتے اس کا منہ وہیں سے شام کی طرف پھیر دیں گے اور وہیں تباہ ہو جائے گا۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 562
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک وقت لوگوں پر ایسا آئے گا کہ آدمی اپنے بھتیجے کو، اپنے قرابت والے کو پکارے گا کہ آؤ ارزانی کے ملک میں، آؤ ارزانی کے ملک میں اور مدینہ ان کے لئے بہتر ہو گا کاش کہ وہ جانتے ہوتے اور قسم ہے اس پروردگار کی کہ میری جان اس کے ہاتھ میں ہے کہ کوئی شخص مدینہ سے بیزار ہو کر نہیں نکلتا ہے، کہ االلہ تعالٰی اس سے بہتر دوسرا شخص بھیج دیتا ہے مدینہ میں۔ آگاہ ہو کہ مدینہ ایسا ہے جیسے لوہار کی بھٹی کہ نکال دیتا ہے میل کو اور قیامت قائم نہ ہو گی جب تک مدینہ نہ نکال دے گا اپنے شریر لوگوں کو جیسے کہ بھٹی نکال دیتی ہے لوہے کی میل کو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 563
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”کہ مجھے حکم ہوا ہے یعنی (ہجرت کا) ایسے قریہ کی طرف جو سب قریوں کو کھا جائے گا لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے اور لوگوں کو ایسا چھانٹتا ہے جیسے لوہے کی بھٹی میل چھانٹتی ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 564
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث روایت کی گئی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 565
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک گاؤں کا آدمی تھا کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور اس کو شدت سے بخار آنے لگا مدینہ میں پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی یہ یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھ سے اپنی بیعت پھیر لو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا اور پھر آیا اور کہا کہ یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھ سے اپنی بیعت پھیر لو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر انکار کیا اور وہ پھر آیا اور کہا کہ یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھ سے اپنی بیعت پھیر لو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا اور وہ اعرابی مدینہ سے چلا گیا، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ تو بھٹی کے مانند ہے کہ اپنی میل کو دور کر دیتا ہے اور پاک کو خالص اور صاف کر لیتا ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 566
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ طیبہ ہے یعنی مدینہ اور پہلے پہل یہ مدینہ میل کو دور کرتا ہے جیسے آگ چاندی کی میل کو دور کرتی ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 567
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ جل جلالہ نے نام رکھا مدینہ کا طابہ۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 568
ابوعبداللہ قراظ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ارادہ اس شہر والوں کی (یعنی مدینہ والوں کی) برائی کا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ایسا گھلا دے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 569
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 570
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 571
سیدنا ابووقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”جو کوئی اہل مدینہ سے برائی کا ارادہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو ایسے پگھلا دے گا جیسے نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 572
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 573
سیدنا ابوہریرہ و سعد رضی اللہ عنہما دونوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللَّهُمَّ بَارِكْ لأَهْلِ الْمَدِينَةِ فِى مُدِّهِمْ» کہ ”یا اللہ برکت دے مدینہ والوں کے مُد میں۔“ اور آگے وہی مضمون بیان کیا جو اوپر کئی بار گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 574
سفیان نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شام فتح ہو گا اور کچھ لوگ مدینہ سے نکلیں گے اپنے گھر والوں کے ساتھ اونٹوں کو ہانکتے ہوئے اور مدینہ ان کے لئے بہتر تھا کاش وہ جانتے ہوتے، پھر فتح ہو گا یمن اور نکلے گی ایک قوم مدینہ کی اپنے گھر والوں کے ساتھ اونٹوں کو ہانکتے ہوئے اور مدینہ ان کے حق میں بہتر تھا کاش وہ جانتے، پھر فتح ہو گا عراق اور نکلے گی ایک قوم مدینہ کی اپنے گھر والوں کے ساتھ اونٹوں کو ہانکتے ہوئے اور مدینہ ان کے حق میں بہتر تھا کاش وہ جانتے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 575
سفیان نے کہا: میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”یمن فتح ہو گا اور لوگ وہاں جائیں گے اونٹوں کو ہانکتے ہوئے اور لاد لے جائیں گے اپنے گھر والوں کو اور جو ان کا کہنا مانے اور مدینہ ان کے لئے بہتر تھا اگر وہ جانتے ہوتے، پھر شام فتح ہو گا اور لوگ وہاں جائیں گے اونٹوں کو ہانکتے ہوئے اور لادلے جائیں گے اپنے گھر والوں اور جو ان کا کہنا مانے اور مدینہ بہتر تھا ان کے لئے اگر وہ جانتے ہوتے، پھر عراق فتح ہو گا اور لوگ وہاں جائیں گے اونٹوں کو ہانکتے ہوئے اور لادلے جائیں گے اپنے گھروالوں کو اور جو ان کا کہنا مانے اگر جانتے ہوتے تو مدینہ طیبہ ان کے حق میں بہتر تھا۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 576
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے لیے فرمایا: ”لوگ وہاں کے مدینہ کو چھوڑ دیں گے اور مدینہ ان کے لیے بہتر ہو گا اور ایسا چھوڑیں گے کہ وطن ہو جائے گا درندوں اور پرندوں کا۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 577
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”لوگ مدینہ کو چھوڑ دیں گے اور وہ بہتر ہو گا اور نہ رہے گا اس میں کوئی مگر درندے اور پرندے، پھر نکلیں گے دو چرواہے قبیلہ مزینہ سے ارادہ کرتے ہوں گے مدینہ کا، للکارتے ہوں گے اپنی بکریوں کو اور پائیں گے مدینہ کو ویران یہاں تک کہ جب پہنچیں گے ثنیتہ الوداع تک کہ ٹیلہ ہے گر پڑیں گے اپنے منہ کے بل۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 578
سیدنا عبداللہ بن زید المازنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے گھر اور منبر کے درمیان ایک چمن ہے جنت کے چمنوں میں سے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 579
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 580
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے گھر اور منبر کے بیچ میں ایک کیاری ہے جنت کی کیاریوں میں سے اور منبر میرا میرے حوض پر ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 581
ابوحمید نے کہا کہ نکلے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ تبوک میں اور حدیث بیان کی اور اس میں یہ کہا کہ چلے ہم یہاں تک کہ پہنچے وادی قریٰ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جلدی چلنے والا ہوں جس کا جی چاہے میرے ساتھ چلے اور جس کا جی چاہے ٹھہر کر آئے۔“ سو ہم نکلے یہاں تک کہ دیکھنے لگے مدینہ کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ طابہ ہے اور یہ احد ہے اور یہ پہاڑ ایسا ہے کہ ہم اس کو دوست رکھتے ہیں اور یہ ہم کو دوست رکھتا ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 582
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”احد پہاڑ ہے کہ وہ ہم کو دوست رکھتا ہے اور ہم اس کو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 583
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 584
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک نماز میری اس مسجد میں ہزار نمازوں سے اور مسجدوں کی افضل ہے سوا المسجد الحرام کے یعنی مکہ کی مسجد کے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 585
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک نماز میری اس مسجد میں ہزار نمازوں سے اور مسجدوں کی افضل ہے سوا المسجد الحرام کے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 586
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ ایک نماز مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی افضل ہے ہزار نمازوں سے اور مسجدوں کی سوا مسجد الحرام کے اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخر الانبیا ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد آخر مساجد ہے۔“ (یعنی جو نبیوں نے بنائی ہے) اور ابوسلمہ اور ابوعبداللہ نے کہا کہ بلاشک سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جو یہ بات کہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے کہی ہو گی (اس لیے کہ ایسی بات کوئی قیاس سے نہیں کہہ سکتا) اور ہم نے اس حدیث کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پکے طور سے دریافت نہیں کیا تو اسی وجہ سے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو گا، جب تو کہا یہاں تک کہ جب وفات ہوئی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی تو ہم نے آپس میں اس کا ذکر کیا اور ایک دوسرے کو ملامت کی کہ کیوں نہ پوچھ لیا ہم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس کو کہ وہ نسبت کرتے اس حدیث کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوتی۔ غرض ہم اسی بات چیت میں تھے کہ عبداللہ بن ابراہیم کے پاس جابیٹھے اور ان سے اس کا ذکر کیا اور یہ وجہ بیان کی جس کے سبب سے ہم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس کو دریافت نہیں کیا تھا تب عبداللہ نے ہم سے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے ہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ”بے شک میں آخر الانبیا ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 587
یحییٰ بن سعید کہتے تھے کہ میں نے ابوصالح سے پوچھا کہ تم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں نماز کی فضیلت بیان فرماتے تھے انہوں نے کہا کہ نہیں مگر مجھے عبداللہ بن ابراہیم نے خبر دی ہے کہ انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”ایک نماز میری اس مسجد میں بہتر ہے ہزاروں نمازوں سے جو اور مسجدوں میں ادا ہوں مگر مسجد حرام میں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 588
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 589
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک نماز میری اس مسجد میں افضل ہے ہزار نمازوں سے اور مسجد میں پڑھنے سے سوا المسجد الحرام کے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 590
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 591
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ آگے وہی جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 592
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 593
سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ایک عورت بیمار ہوئی اور اس نے کہا کہ اگر اللہ تعالٰی نے مجھے شفا دی تو میں جاؤں گی اور بیت المقدس میں نماز پڑھوں گی پھر وہ اچھی ہو گئی اور تیاری کی اس نے جانے کی اور سيده میمونہ رضی اللہ عنہا ام المؤمنین بی بی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کے پاس حاضر ہوئی اور ان کو سلام کیا اور اپنے ارادے کی خبر دی تو انہوں نے فرمایا: کہ جو تم نے توشہ تیار کیا ہے وہ کھاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد مبارک میں نماز پڑھو اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے وہ فرماتے تھے: کہ ”ایک نماز اس میں ادا کرنا افضل ہے ہزار نمازوں سے اور مسجدوں سے سوا مسجد کعبہ کے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 594
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ کجاوے نہ باندھے جائیں مگر تین مسجدوں کی طرف ایک میری یہ مسجد یعنی جو مدینہ میں ہے اور مسجد الحرام اور مسجد اقصیٰ۔“ (یعنی بیت المقدس)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 595
زہری سے اس سند سے روایت ہے علاوہ اس کے کہ تین مساجد کی طرف کجاوے باندھے جائیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 596
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خبر دیتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سفر نہ کرے کوئی مگر تین مسجدوں کی طرف مسجد کعبہ اور میری مسجد اور مسجد ایلیاء۔“ (یعنی بیت المقدس)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 597
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے کہا کہ میرے پاس سے عبدالرحمٰن بن ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ گزرے اور میں نے ان سے کہا کہ آپ نے اپنے والد کو کیسے سنا کہ وہ بیان فرماتے تھے کہ وہ مسجد کون سی ہے جس کی بنا تقویٰ پر ہوئی ہے تو انہوں نے کہا کہ میرے باپ نے کہا کہ داخل ہوا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں رضی اللہ عنہن سے کسی کے گھر میں اور میں نے عرض کی کہ اے رسول اللہ کے! وہ مسجد کون سی ہے جس کو اللہ فرماتا ہے کہ تقویٰ پر بنائی گئی ہے؟ سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مٹھی کنکر لیے اور زمین پر مارے اور فرمایا: کہ ”وہ یہی تمہاری مسجد ہے مدینہ کی مسجد۔“ سو میں نے کہا کہ میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی تمہارے والد سے سنا ہے کہ ایسا ہی ذکر کرتے تھے اس مسجد کا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 598
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث اسی طرح مذکور ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 599
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیارت کرتے تھے مسجد قباء کی سوار بھی اور پیادہ بھی۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 600
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قبا تشریف لاتے تھے سوار بھی اور پیادہ بھی اور اس میں دو رکعت ادا کرتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 601
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قباء میں پیدل اور سوار آیا کرتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 602
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 603
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 604
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 605
عبداللہ بن دینار نے کہا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہر ہفتہ میں ایک بار جاتے تھے مسجد قبا میں اور کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتہ میں جاتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 606
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قباء کو آتے تھے ہر ہفتہ میں اور آتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار بھی اور پیادہ بھی اور ابن دینار نے کہا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 607
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مذکور ہے مگر اس میں ہر ہفتے کا ذکر نہیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے