امجد اسلام امجد

1944 - 2023
لاہور, پاکستان
معروف شاعر اور پاکستانی ٹی وی سیریلوں کے لئے مشہور
کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا

چہرے پہ مرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن

یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے

بھیڑ میں اک اجنبی کا سامنا اچھا لگا

دوریاں سمٹنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے

تھے خواب ایک ہمارے بھی اور تمہارے بھی

اپنے گھر کی کھڑکی سے میں آسمان کو دیکھوں گا

یہ جو حاصل ہمیں ہر شے کی فراوانی ہے

جیسے میں دیکھتا ہوں لوگ نہیں دیکھتے ہیں

جو دن تھا ایک مصیبت تو رات بھاری تھی

کسی کی آنکھ میں خود کو تلاش کرنا ہے

آئینوں میں عکس نہ ہوں تو حیرت رہتی ہے

صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں

تمہارا ہاتھ جب میرے لرزتے ہاتھ سے چھوٹا خزاں کے آخری دن تھے

زندگی درد بھی دوا بھی تھی

دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے

اگرچہ کوئی بھی اندھا نہیں تھا

سینکڑوں ہی رہنما ہیں راستہ کوئی نہیں

اس نے آہستہ سے جب پکارا مجھے

سائے ڈھلنے چراغ جلنے لگے

شام ڈھلے جب بستی والے لوٹ کے گھر کو آتے ہیں

رات میں اس کشمکش میں ایک پل سویا نہیں

تیرا یہ لطف کسی زخم کا عنوان نہ ہو

حضور یار میں حرف التجا کے رکھے تھے

در کائنات جو وا کرے اسی آگہی کی تلاش ہے

تو نہیں تیرا استعارا نہیں

کان لگا کر سنتی راتیں باتیں کرتے دن

بستیوں میں اک صدائے بے صدا رہ جائے گی

کمال حسن ہے حسن کمال سے باہر

لہو میں رنگ لہرانے لگے ہیں

زندگانی جاودانی بھی نہیں

یہ گرد باد تمنا میں گھومتے ہوئے دن

یاد کے صحرا میں کچھ تو زندگی آئے نظر

تارا تارا اتر رہی ہے رات سمندر میں

آنکھوں سے اک خواب گزرنے والا ہے

نہ آسماں سے نہ دشمن کے زور و زر سے ہوا

جب بھی اس شخص کو دیکھا جائے

عشق ایسا عجیب دریا ہے

بند تھا دروازہ بھی اور اگر میں بھی تنہا تھا میں

لہو میں تیرتے پھرتے ملال سے کچھ ہیں

ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو

کب سے ہم لوگ اس بھنور میں ہیں

دام خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے

پلکوں کی دہلیز پہ چمکا ایک ستارا تھا

در کائنات جو وا کرے اسی آگہی کی تلاش ہے

دشت دل میں سراب تازہ ہیں

ہوا ہی لو کو گھٹاتی وہی بڑھاتی ہے

نکل کے حلقۂ شام و سحر سے جائیں کہیں

جب بھی آنکھوں میں ترے وصل کا لمحہ چمکا

پردے میں اس بدن کے چھپیں راز کس طرح

پردے میں لاکھ پھر بھی نمودار کون ہے

تشہیر اپنے درد کی ہر سو کرائیے

کبھی رقص شام بہار میں اسے دیکھتے

پسپا ہوئی سپاہ تو پرچم بھی ہم ہی تھے

ہوائیں لاکھ چلیں لو سنبھلتی رہتی ہے

کتنی سرکش بھی ہو سرپھری یہ ہوا رکھنا روشن دیا

کھیل اس نے دکھا کے جادو کے

سوچ کے گنبد میں ابھری ٹوٹتی یادوں کی گونج

غبار دشت طلب میں ہیں رفتگاں کیا کیا

اپنے ہونے کی تب و تاب سے باہر نہ ہوئے

دشت بے آب کی طرح گزری

اوروں کا تھا بیان تو موج صدا رہے

Pakistanify News Subscription

X