حبیب جالب

1928 - 1993
لاہور, پاکستان
مقبول انقلابی پاکستانی شاعر ، سیاسی جبر کی مخالفت کے لئے مشہور
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا

دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں

شعر سے شاعری سے ڈرتے ہیں

دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے

اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا

بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئی پیارے

ہجوم دیکھ کے رستہ نہیں بدلتے ہم

کچھ لوگ خیالوں سے چلے جائیں تو سوئیں

اپنوں نے وہ رنج دئے ہیں بیگانے یاد آتے ہیں

پھر دل سے آ رہی ہے صدا اس گلی میں چل

اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے

دل پر جو زخم ہیں وہ دکھائیں کسی کو کیا

وطن کو کچھ نہیں خطرہ نظام زر ہے خطرے میں

یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم

جھوٹی خبریں گھڑنے والے جھوٹے شعر سنانے والے

دل پر شوق کو پہلو میں دبائے رکھا

کبھی تو مہرباں ہو کر بلا لیں

بٹے رہو گے تو اپنا یوں ہی بہے گا لہو

وہی حالات ہیں فقیروں کے

اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے مری جاں

وہ دیکھنے مجھے آنا تو چاہتا ہوگا

فیضؔ اور فیضؔ کا غم بھولنے والا ہے کہیں

خوب آزادئ صحافت ہے

باتیں تو کچھ ایسی ہیں کہ خود سے بھی نہ کی جائیں

افسوس تمہیں کار کے شیشے کا ہوا ہے

اس رعونت سے وہ جیتے ہیں کہ مرنا ہی نہیں

آگ ہے پھیلی ہوئی کالی گھٹاؤں کی جگہ

بڑے بنے تھے جالبؔ صاحب پٹے سڑک کے بیچ

جیون مجھ سے میں جیون سے شرماتا ہوں

ذرے ہی سہی کوہ سے ٹکرا تو گئے ہم

کہیں آہ بن کے لب پر ترا نام آ نہ جائے

میرؔ و غالبؔ بنے یگانہؔ بنے

کون بتائے کون سجھائے کون سے دیس سدھار گئے

بہت روشن ہے شام غم ہماری

اس نے جب ہنس کے نمسکار کیا

دل والو کیوں دل سی دولت یوں بیکار لٹاتے ہو

پھر کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے

چور تھا زخموں سے دل زخمی جگر بھی ہو گیا

کم پرانا بہت نیا تھا فراق

نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں

درخت سوکھ گئے رک گئے ندی نالے

شعر ہوتا ہے اب مہینوں میں

یوں وہ ظلمت سے رہا دست و گریباں یارو

یہ سوچ کر نہ مائل فریاد ہم ہوئے

جاگنے والو تا بہ سحر خاموش رہو

ہم آوارہ گاؤں گاؤں بستی بستی پھرنے والے

ہم نے سنا تھا صحن‌ چمن میں کیف کے بادل چھائے ہیں

ہم نے دل سے تجھے سدا مانا

یہ جو شب کے ایوانوں میں اک ہلچل اک حشر بپا ہے

لوگ گیتوں کا نگر یاد آیا

تو رنگ ہے غبار ہیں تیری گلی کے لوگ

نظر نظر میں لیے تیرا پیار پھرتے ہیں

کیا کیا لوگ گزر جاتے ہیں رنگ برنگی کاروں میں

اک شخص با ضمیر مرا یار مصحفیؔ

اس گلی کے لوگوں کو منہ لگا کے پچھتائے

یہ اجڑے باغ ویرانے پرانے

ترے ماتھے پہ جب تک بل رہا ہے

غزلیں تو کہی ہیں کچھ ہم نے ان سے نہ کہا احوال تو کیا

گلشن کی فضا دھواں دھواں ہے

کراہتے ہوئے انسان کی صدا ہم ہیں

مہتاب صفت لوگ یہاں خاک بسر ہیں

گھر کے زنداں سے اسے فرصت ملے تو آئے بھی

جب کوئی کلی صحن گلستاں میں کھلی ہے

کیسے کہیں کہ یاد یار رات جا چکی بہت

تیری آنکھوں کا عجب طرفہ سماں دیکھا ہے

کتنا سکوت ہے رسن و دار کی طرف

شہر ویراں اداس ہیں گلیاں

دیار داغؔ و بیخودؔ شہر دہلی چھوڑ کر تجھ کو

جہاں ہیں محبوس اب بھی ہم وہ حرم سرائیں نہیں رہیں گی

غالبؔ و یگانہؔ سے لوگ بھی تھے جب تنہا

ہر گام پر تھے شمس و قمر اس دیار میں

ماورائے جہاں سے آئے ہیں

Pakistanify News Subscription

X