جمال احسانی

1951 - 1998
کراچی, پاکستان
اہم ترین ما بعد جدید پاکستانی شاعروں میں سے ایک، اپنے انفرادی شعری تجربے کے لیے معروف
وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے

بیچ جنگل میں پہنچ کے کتنی حیرانی ہوئی

قرار دل کو سدا جس کے نام سے آیا

عشق میں خود سے محبت نہیں کی جا سکتی

چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا

بکھر گیا ہے جو موتی پرونے والا تھا

جب کبھی خواب کی امید بندھا کرتی ہے

ذرا سی بات پہ دل سے بگاڑ آیا ہوں

ملنا نہیں تو یاد اسے کرنا بھی چھوڑ دے

اپنے ہمراہ جلا رکھا ہے

دل کی طرف دماغ سے وہ آنے والا ہے

وہ اس جہان سے حیران جایا کرتے ہیں

دھرتی پر سب درد کے مارے کس کے ہیں

جمالؔ اب تو یہی رہ گیا پتہ اس کا

سویرا ہو بھی چکا اور رات باقی ہے

ایک فقیر چلا جاتا ہے پکی سڑک پر گاؤں کی

اس سمے کوئی نہیں میری نگہبانی پر

نہ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا

ستارے کا راز رکھ لیا مہمان میں نے

عمر گزری جس کا رستہ دیکھتے

واقعی کوئی اگر موجود ہے

اپنا جب بوجھ مری جان اٹھانا پڑ جائے

تیری یاد اور تیرے دھیان میں گزری ہے

نہ سننے میں نہ کہیں دیکھنے میں آیا ہے

گھر سے جاتا ہوں روز شام سے میں

سنگ کو تکیہ بنا خواب کو چادر کر کے

کسی بھی دشت کسی بھی نگر چلا جاتا

سمندروں کے درمیان سو گئے

سب بدلتے جا رہے ہیں سر بسر اپنی جگہ

ہونے کی گواہی کے لیے خاک بہت ہے

کب پاؤں فگار نہیں ہوتے کب سر میں دھول نہیں ہوتی

جو تو گیا تھا تو تیرا خیال رہ جاتا

میں بوندا باندی کے درمیان اپنے گھر کی چھت پر کھڑا رہا ہوں

ایک قدم خشکی پر ہے اور دوسرا پانی میں

ستارے ہی صرف راستوں میں نہ کھو رہے تھے

کب دل کے آئنے میں وہ منظر نہیں رہا

وہ مثل آئینہ دیوار پر رکھا ہوا تھا

وہ بھی ملنے نئی پوشاک بدل کر آیا

راتیں مبارک ساعتوں والی اور دن برکت والے

جو بیل میرے قد سے ہے اوپر لگی ہوئی

چشم حیراں کو تماشائے دگر پر رکھا

کہنی ہے ایک بات دل شاد کام سے

کوزۂ دنیا ہے اپنے چاک سے بچھڑا ہوا

ہر قرض سفر چکا دیا ہے

دل میں یاد رفتگاں آباد ہے

میں جو کل پیرہن خاک بدل کر آیا

Pakistanify News Subscription

X