ناصر کاظمی

1925 - 1972
لاہور, پاکستان
جدید اردو غزل کے بنیاد سازوں میں شامل ، ہندوستان کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے اور پاکستان ہجرت کر گئے جہاں انہوں نے تقسیم اور ہجرت کی تکلیف اور اثرات کو موضوع سخن بنایا
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا

نیت شوق بھر نہ جائے کہیں

دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی

اپنی دھن میں رہتا ہوں

نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے

ترے آنے کا دھوکا سا رہا ہے

دیار دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا

غم ہے یا خوشی ہے تو

گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی

دل میں اور تو کیا رکھا ہے

وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے

وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں

کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں

پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے

کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے

آج تو بے سبب اداس ہے جی

میں نے جب لکھنا سیکھا تھا

مسلسل بیکلی دل کو رہی ہے

گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل

میں ہوں رات کا ایک بجا ہے

گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے

اس سے پہلے کہ بچھڑ جائیں ہم (ردیف .. و)

شہر سنسان ہے کدھر جائیں

ناصرؔ کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہے

دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا

دیکھ محبت کا دستور

تھوڑی دیر کو جی بہلا تھا

کون اس راہ سے گزرتا ہے

آرائش خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو

آج تجھے کیوں چپ سی لگی ہے

سفر منزل شب یاد نہیں

تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی

جب رات گئے تری یاد آئی سو طرح سے جی کو بہلایا

کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے

او میرے مصروف خدا

گلی گلی آباد تھی جن سے کہاں گئے وہ لوگ

یاد آتا ہے روز و شب کوئی

تم آ گئے ہو تو کیوں انتظار شام کریں

ترے خیال سے لو دے اٹھی ہے تنہائی

تو جب میرے گھر آیا تھا

کب تلک مدعا کہے کوئی

اولیں چاند نے کیا بات سجھائی مجھ کو

درد کم ہونے لگا آؤ کہ کچھ رات کٹے

تنہائی کا دکھ گہرا تھا

اس دنیا میں اپنا کیا ہے

ترے ملنے کو بیکل ہو گئے ہیں

دھوپ نکلی دن سہانے ہو گئے

سر میں جب عشق کا سودا نہ رہا

دفعتاً دل میں کسی یاد نے لی انگڑائی

کل جنہیں زندگی تھی راس بہت

کچھ تو احساس زیاں تھا پہلے

وہ اس ادا سے جو آئے تو کیوں بھلا نہ لگے

عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا

تو ہے یا تیرا سایا ہے

پل پل کانٹا سا چبھتا تھا

نئے دیس کا رنگ نیا تھا

تجھ بن گھر کتنا سونا تھا

ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے

پچھلے پہر کا سناٹا تھا

یہ شب یہ خیال و خواب تیرے

خواب میں رات ہم نے کیا دیکھا

دن ڈھلا رات پھر آ گئی سو رہو سو رہو

زباں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا

یوں ترے حسن کی تصویر غزل میں آئے

کارواں سست راہبر خاموش

تو اسیر بزم ہے ہم سخن تجھے ذوق نالۂ نے نہیں

نصیب عشق دل بے قرار بھی تو نہیں

تری نگاہ کے جادو بکھرتے جاتے ہیں

جب ذرا تیز ہوا ہوتی ہے

سناتا ہے کوئی بھولی کہانی

یہ بھی کیا شام ملاقات آئی

مجھ کو اور کہیں جانا تھا

بنے بنائے ہوئے راستوں پہ جا نکلے

روتے روتے کون ہنسا تھا

خموشی انگلیاں چٹخا رہی ہے

یہ رات تمہاری ہے چمکتے رہو تارو

پتھر کا وہ شہر بھی کیا تھا

میں جب تیرے گھر پہنچا تھا

کسی کا درد ہو دل بے قرار اپنا ہے

حسن کو دل میں چھپا کر دیکھو

رہ نورد بیابان غم صبر کر صبر کر

دن کا پھول ابھی جاگا تھا

خیال ترک تمنا نہ کر سکے تو بھی

پھول خوشبو سے جدا ہے اب کے

پردے میں ہر آواز کے شامل تو وہی ہے

دھوپ تھی اور بادل چھایا تھا

رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ

فکر تعمیر آشیاں بھی ہے

جبیں پہ دھوپ سی آنکھوں میں کچھ حیا سی ہے

شبنم آلود پلک یاد آئی

ساز ہستی کی صدا غور سے سن

کیوں غم رفتگاں کرے کوئی

یہ ستم اور کہ ہم پھول کہیں خاروں کو

کوئی اور ہے نہیں تو نہیں مرے روبرو کوئی اور ہے

جرم امید کی سزا ہی دے

ناز بیگانگی میں کیا کچھ تھا

اب ان سے اور تقاضائے بادہ کیا کرتا

گرد نے خیمہ تان لیا تھا

دور فلک جب دہراتا ہے موسم گل کی راتوں کو

قفس کو چمن سے سوا جانتے ہیں

ممکن نہیں متاع سخن مجھ سے چھین لے

محروم خواب دیدۂ حیراں نہ تھا کبھی

کوئی صورت آشنا اپنا نہ بیگانہ کوئی

کنج کنج نغمہ زن بسنت آ گئی

جب تلک دم رہا ہے آنکھوں میں

حاصل عشق ترا حسن پشیماں ہی سہی

غم فرصتی خواب طرب یاد رہے گی

جلوہ ساماں ہے رنگ و بو ہم سے

رہ جنوں میں خدا کا حوالہ کیا کرتا

شعلہ سا پیچ و تاب میں دیکھا

Pakistanify News Subscription

X