عبد الحمید عدم

1909 - 1981
پاکستان
مقبول عام شاعر، زندگی اور محبت پر مبنی رومانی شاعری کے لیے معروف
خالی ہے ابھی جام میں کچھ سوچ رہا ہوں

جب ترے نین مسکراتے ہیں

ہنس کے بولا کرو بلایا کرو

ساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہے

وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں

آنکھوں سے تری زلف کا سایہ نہیں جاتا

لہرا کے جھوم جھوم کے لا مسکرا کے لا

ہلکا ہلکا سرور ہے ساقی

اتنا تو دوستی کا صلہ دیجئے مجھے

مطلب معاملات کا کچھ پا گیا ہوں میں

دیکھ کر دل کشی زمانے کی

مسکرا کر خطاب کرتے ہو

کشتی چلا رہا ہے مگر کس ادا کے ساتھ

زلف برہم سنبھال کر چلئے

تکلیف مٹ گئی مگر احساس رہ گیا

آگہی میں اک خلا موجود ہے

ہنس ہنس کے جام جام کو چھلکا کے پی گیا

دن گزر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں

زخم دل کے اگر سیے ہوتے

وہ باتیں تری وہ فسانے ترے

مے کدہ تھا چاندنی تھی میں نہ تھا

بہت سے لوگوں کو غم نے جلا کے مار دیا

گوریوں کالیوں نے مار دیا

آپ کی آنکھ اگر آج گلابی ہوگی

آج پھر روح میں اک برق سی لہراتی ہے

رقص کرتا ہوں جام پیتا ہوں

گرتے ہیں لوگ گرمئ بازار دیکھ کر

آتا ہے کون درد کے ماروں کے شہر میں

ہم نے حسرتوں کے داغ آنسوؤں سے دھو لیے

بس اس قدر ہے خلاصہ مری کہانی کا

کھلی وہ زلف تو پہلی حسین رات ہوئی

ایک نامقبول قربانی ہوں میں

دل کو دل سے کام رہے گا

توبہ کا تکلف کون کرے حالات کی نیت ٹھیک نہیں

افسانہ چاہتے تھے وہ افسانہ بن گیا

ستاروں کے آگے جو آبادیاں ہیں

زباں پر آپ کا نام آ رہا تھا

چھیڑو تو اس حسین کو چھیڑو جو یار ہو

ان کو عہد شباب میں دیکھا

دل ہے بڑی خوشی سے اسے پائمال کر

مے خانۂ ہستی میں اکثر ہم اپنا ٹھکانہ بھول گئے

اب دو عالم سے صدائے ساز آتی ہے مجھے

سو کے جب وہ نگار اٹھتا ہے

ہم سے چناں چنیں نہ کرو ہم نشے میں ہیں

مشکل یہ آ پڑی ہے کہ گردش میں جام ہے

ہوا سنکے خاروں کی بڑی تکلیف ہوتی ہے

بھولے سے کبھی لے جو کوئی نام ہمارا

بے سبب کیوں تباہ ہوتا ہے

کتنی بے ساختہ خطا ہوں میں

وہ عہد جوانی وہ خرابات کا عالم

منقلب صورت حالات بھی ہو جاتی ہے

اگرچہ روز ازل بھی یہی اندھیرا تھا

وہ سورج اتنا نزدیک آ رہا ہے

ارے مے گسارو سویرے سویرے

گو تری زلفوں کا زندانی ہوں میں

مجھ سے چناں چنیں نہ کرو میں نشے میں ہوں

غم محبت ستا رہا ہے غم زمانہ مسل رہا ہے

ہر دشمن وفا مجھے محبوب ہو گیا

خوش ہوں کہ زندگی نے کوئی کام کر دیا

محتاط و ہوشیار تو بے انتہا ہوں میں

کیا بات ہے اے جان سخن بات کیے جا

شب کی بیداریاں نہیں اچھی

ہر پری وش کو خدا تسلیم کر لیتا ہوں میں

خیرات صرف اتنی ملی ہے حیات سے

حسین نغمہ سراؤ! بہار کے دن ہیں

وہ ابرو یاد آتے ہیں وہ مژگاں یاد آتے ہیں

بے جنبش ابرو تو نہیں کام چلے گا

جس وقت بھی موزوں سی کوئی بات ہوئی ہے

سوا اس کے کیا دوسری بات ہوگی

اے ساقئ مہ وش غم دوراں نہیں اٹھتا

فقیر کس درجہ شادماں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہوگا

ایک دل کش زہر سے لبریز پیمانے کا نام

دل ڈوب نہ جائیں پیاسوں کے تکلیف ذرا فرما دینا

دعائیں دے کے جو دشنام لیتے رہتے ہیں

مرا اخلاص بھی اک وجہ دل آزاری ہے

بھولی بسری باتوں سے کیا تشکیل روداد کریں

گناہ جرأت تدبیر کر رہا ہوں میں

جہاں وہ زلف برہم کارگر محسوس ہوتی ہے

دروغ کے امتحاں کدے میں سدا یہی کاروبار ہوگا

تہی سا جام تو تھا گر کے بہہ گیا ہوگا

یہ کیسی سرگوشیٔ ازل ساز دل کے پردے ہلا رہی ہے

جنبش کاکل محبوب سے دن ڈھلتا ہے

جب بھی نگاہ ساقی دل کو ٹٹولتی ہے

کیف سا اب ہو گیا پیدا غم ایام میں

Pakistanify News Subscription

X