عرفان صدیقی

1939 - 2004
لکھنؤ, انڈیا
اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے نوکلاسیکی لہجے کے لیے معروف
اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے

بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے

میرے ہونے میں کسی طور سے شامل ہو جاؤ

شعلۂ عشق بجھانا بھی نہیں چاہتا ہے

بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں

چراغ دینے لگے گا دھواں نہ چھو لینا

حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا

جاں سے گزرے بھی تو دریا سے گزاریں گے تمہیں

کوئی بجلی ان خرابوں میں گھٹا روشن کرے

وحشت کے ساتھ دشت مری جان چاہیئے

وہ جو اک شرط تھی وحشت کی اٹھا دی گئی کیا

شمع تنہا کی طرح صبح کے تارے جیسے

سر تسلیم ہے خم اذن عقوبت کے بغیر

عجیب نشہ ہے ہشیار رہنا چاہتا ہوں

ایک طریقہ یہ بھی ہے جب جینا اک ناچاری ہو

ڈار سے اس کی نہ عرفانؔ جدا کر اس کو

جب یہ عالم ہو تو لکھیے لب و رخسار پہ خاک

سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا

فقیری میں یہ تھوڑی سی تن آسانی بھی کرتے ہیں

ہم سے وہ جان سخن ربط نوا چاہتی ہے

دونوں اپنے کام کے ماہر دونوں بڑے ذہین

پکارتا ہے مگر دھیان میں نہیں آتا

مروتوں پہ وفا کا گماں بھی رکھتا تھا

بدل گئی ہے فضا نیلے آسمانوں کی

خوشبو کی طرح ساتھ لگا لے گئی ہم کو

ہوشیاری دل نادان بہت کرتا ہے

ہشیار ہیں تو ہم کو بہک جانا چاہئے

قدم اٹھے تو گلی سے گلی نکلتی رہی

در و دیوار کی زد سے نکلنا چاہتا ہوں میں

زیر محراب نہ بالائے مکاں بولتی ہے

زمیں پر شور محشر روز و شب ہوتا ہی رہتا ہے

اب زباں خنجر قاتل کی ثنا کرتی ہے

بھول جاؤ گے کہ رہتے تھے یہاں دوسرے لوگ

ہم سے شاید ہی کبھی اس کی شناسائی ہو

سخن میں رنگ تمہارے خیال ہی کے تو ہیں

اس نے بیکار یہ بہروپ بنایا ہوا ہے

زوال شب میں کسی کی صدا نکل آئے

ذہن ہو تنگ تو پھر شوخئ افکار نہ رکھ

تم ہمیں ایک دن دشت میں چھوڑ کر چل دئے تھے تمہیں کیا خبر یا اخی

شہاب چہرہ کوئی گم شدہ ستارہ کوئی

کہیں تو لٹنا ہے پھر نقد جاں بچانا کیا

وہ ان دنوں تو ہمارا تھا لیکن اب کیا ہے

عشق میاں اس آگ میں میرا ظاہر ہی چمکا دینا

اب کے صحرا میں عجب بارش کی ارزانی ہوئی

مجھے بچا بھی لیا چھوڑ کر چلا بھی گیا

یہ تو صحرا ہے یہاں ٹھنڈی ہوا کب آئے گی

اس سے بچھڑ کے باب ہنر بند کر دیا

دروازوں پر دن بھر کی تھکن تحریر ہوئی

تمام جلنا جلانا فسانہ ہوتا ہوا

کھیل سب آنکھوں کا ہے سارا ہنر آنکھوں کا ہے

انہیں کی شہ سے انہیں مات کرتا رہتا ہوں

دھنک سے پھول سے برگ حنا سے کچھ نہیں ہوتا

کاش میں بھی کبھی یاروں کا کہا مان سکوں

لپٹ سی داغ کہن کی طرف سے آتی ہے

اس کی تمثال کو پانے میں زمانے لگ جائیں

گئے دنوں کے درخشندہ رابطوں سے نہ روٹھ

ختم ہو جنگ خرابے پہ حکومت کی جائے

تو انہیں یاد آئے گی اے جوئبار اگلے برس

خواب میں بھی میری زنجیر سفر کا جاگنا

سراب دشت تجھے آزمانے والا کون

ذرا سا وقت کہیں بے سبب گزارتے ہیں

رات اک شہر نے تازہ کئے منظر اپنے

توڑ دی اس نے وہ زنجیر ہی دل داری کی

الٹ گیا ہے ہر اک سلسلہ نشانے پر

جام تہی لہرایا ہم نے

کچھ حرف و سخن پہلے تو اخبار میں آیا

خرابہ ایک دن بن جائے گھر ایسا نہیں ہوگا

روح کے معجزوں کا زمانہ نہیں جسم ہی کچھ کرامات کرتے رہیں

کوئی وحشی چیز سی زنجیر پا جیسے ہوا

ناچیز بھی خوباں سے ملاقات میں گم ہے

یہ شہر ذات بہت ہے اگر بنایا جائے

سکوت خوف یہاں کو بہ کو پکارتا ہے

کب سے راضی تھا بدن بے سر و سامانی پر

حلقۂ بے طلباں رنج گراں باری کیا

اس تکلف سے نہ پوشاک بدن گیر میں آ

سر ہونے دو یہ کار جہاں عیش کریں گے

دست عصائے معجزہ گر بھی اسی کا ہے

Pakistanify News Subscription

X