یگانہ چنگیزی

1884 - 1956
لکھنؤ, انڈیا
ممتاز قبل از جدید شاعر جنہوں نے نئی غزل کے لئے راہ ہموار کی۔ مرزا غالب کی مخالفت کے لئے مشہور
مجھے دل کی خطا پر یاسؔ شرمانا نہیں آتا

کیوں کسی سے وفا کرے کوئی

زمانہ خدا کو خدا جانتا ہے

خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا

ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیا کیا

سلسلہ چھڑ گیا جب یاسؔ کے افسانے کا

بیٹھا ہوں پاؤں توڑ کے تدبیر دیکھنا

چلے چلو جہاں لے جائے ولولہ دل کا

دل لگانے کی جگہ عالم ایجاد نہیں

موت آئی آنے دیجیے پروا نہ کیجیے

سب ترے سوا کافر آخر اس کا مطلب کیا

سلامت رہیں دل میں گھر کرنے والے

قیامت ہے شب وعدہ کا اتنا مختصر ہونا

جب حسن بے مثال پر اتنا غرور تھا

چراغ زیست بجھا دل سے اک دھواں نکلا

زمانے پر نہ سہی دل پہ اختیار رہے

اگر اپنی چشم نم پر مجھے اختیار ہوتا

کارگاہ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے

آپ میں کیونکر رہے کوئی یہ ساماں دیکھ کر

حسن پر فرعون کی پھبتی کہی

فکر انجام نہ آغاز کا کچھ ہوش رہا

مزہ گناہ کا جب تھا کہ با وضو کرتے

دل عجب جلوۂ امید دکھاتا ہے مجھے

کیسی کیسی بستیاں دو دن میں ویراں ہو گئیں

قفس کو جانتے ہیں یاسؔ آشیاں اپنا

آنکھ دکھلانے لگا ہے وہ فسوں ساز مجھے

یار کی تصویر ہی دکھلا دے اے مانی مجھے

محروم شہادت کی ہے کچھ تجھ کو خبر بھی

آہ بیمار کارگر نہ ہوئی

خزاں کے جور سے واقف کوئی بہار نہ ہو

کام دیوانوں کو شہروں سے نہ بازاروں سے

اپنی ہستی خود ہم آغوش فنا ہو جائے گی

دنیا کا چلن ترک کیا بھی نہیں جاتا

خداؤں کی خدائی ہو چکی بس

رہے دنیا میں محکوم دل بے مدعا ہو کر

لپٹتی ہے بہت یاد وطن جب دامن دل سے

ہنوز زندگیٔ تلخ کا مزہ نہ ملا

کس دل سے ترک لذت دنیا کرے کوئی

خدا معلوم کیسا سحر تھا اس بت کی چتون میں

قفس نصیبوں کو تڑپا گئی ہوائے بہار

قصہ کتاب عمر کا کیا مختصر ہوا

غضب کی دھوم شبستان روزگار میں ہے

یکساں کبھی کسی کی نہ گزری زمانے میں

گر یاد میں ساقی کی ساغر نظر آ جائے

واں نقاب اٹھی کہ صبح حشر کا منظر کھلا

برگشتہ اور وہ بت بے پیر ہو نہ جائے

روشن تمام کعبہ و بت خانہ ہو گیا

آپ سے آپ عیاں شاہد معنی ہوگا

کس کی آواز کان میں آئی

دیتی ہے وحشت دل پھر مجھے تعبیر بہار

درد دل روئیں کس امید پہ بیگانے سے

دل بے تاب کو کب وصل کا یارا ہوتا

پچھلے کو اٹھ کھڑا نہ ہو درد جگر کہیں

وحشت تھی ہم تھے سایۂ دیوار یار تھا

سایہ اگر نصیب ہو دیوار یار کا

کچھ زرد زرد پتے نشاں جو خزاں کے ہیں

جو دل نہیں رکھتا کوئی مشکل نہیں رکھتا

دامن قاتل جو اڑ اڑ کر ہوا دینے لگے

ہنوز درد جدائیٔ یار باقی ہے

موت آئی آنے دیجیے پروا نہ کیجیے

چلتا نہیں فریب کسی عذر خواہ کا

یار ہے آئنہ ہے شانہ ہے

دیتی ہے وحشت دل فصل بہاراں کی خبر

خدا کی مار وہ ایام شور و شر گزرے

ٹھوکریں کھلوائیں کیا کیا پائے بے زنجیر نے

شکوۂ‌ درد جگر اے مہرباں کیوں کر کریں

اداسی چھا گئی چہرے پہ شمع محفل کے

جب تک خلش درد خدا داد رہے گی

کس کی آواز کان میں آئی

پالا امید و بیم سے ناگاہ پڑ گیا

Pakistanify News Subscription

X