علامہ اقبال

1877 - 1938
لاہور, پاکستان
عظیم اردو شاعر اور 'سارے جہاں سے اچھا...' اور 'لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری' جیسے شہرہ آفاق ترانے کے خالق
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے

مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی

گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا

نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے

گلزار ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ

دل سوز سے خالی ہے نگہ پاک نہیں ہے

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر

انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں

پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن

وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں

پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے

لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی

اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں

جنہیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں

عقل گو آستاں سے دور نہیں

تو ابھی رہ گزر میں ہے قید مقام سے گزر

مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا

وہی میری کم نصیبی وہی تیری بے نیازی

خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں

متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی

سختیاں کرتا ہوں دل پر غیر سے غافل ہوں میں

نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی

ہر شے مسافر ہر چیز راہی

ظاہر کي آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئي

اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد

دگر گوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیز ہے ساقی

تجھے یاد کیا نہیں ہے مرے دل کا وہ زمانہ

فطرت کو خرد کے روبرو کر

خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل

یا رب یہ جہان گزراں خوب ہے لیکن (ردیف .. د)

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی

ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام

یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی

عالم آب و خاک و باد سر عیاں ہے تو کہ میں

سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا

نہ تخت و تاج میں نے لشکر و سپاہ میں ہے

کی حق سے فرشتوں نے اقبالؔ کی غمازی

اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ

اک دانش نورانی اک دانش برہانی

میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں

کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے

اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں

پوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی

مجھے آہ و فغان نیم شب کا پھر پیام آیا

ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام

زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں

عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم

حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے

تری نگاہ فرومایہ ہاتھ ہے کوتاہ

خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ

زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی

دل بیدار فاروقی دل بیدار کراری

میر سپاہ ناسزا لشکریاں شکستہ صف

کھو نہ جا اس سحر و شام میں اے صاحب ہوش

اے باد صبا کملی والے سے جا کہیو پیغام مرا

یہ پیران کلیسا و حرم اے وائے مجبوری

ہر چیز ہے محو خودنمائی

زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا

جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں

کیا عشق ایک زندگی مستعار کا

یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہر یک دانہ

فطرت نے نہ بخشا مجھے اندیشۂ چالاک

امین راز ہے مردان حر کی درویشی

خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں

مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے

ہر اک مقام سے آگے گزر گیا مہ نو

یوں تو اے بزم جہاں دلکش تھے ہنگامے ترے

نے مہرہ باقی نے مہرہ بازی

دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ

فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ

تو اے اسیر مکاں لا مکاں سے دور نہیں

کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد

پردہ چہرے سے اٹھا انجمن آرائی کر

عجب واعظ کی دین داری ہے یا رب

مٹا دیا مرے ساقی نے عالم من و تو

یہ حوریان فرنگی دل و نظر کا حجاب

شعور و ہوش و خرد کا معاملہ ہے عجیب

ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ

کی حق سے فرشتوں نے اقبال کی غمازی

نہ مَیں اعجمی نہ ہندی نہ عراقی و حجازی

مثال پرتو مے ، طوف جام کرتے ہيں

ہے یاد مجھے نکتۂ سلمان خوش آہنگ

پھر باد بہار آئی اقبال غزل خواں ہو

رہا نہ حلقۂ صوفی میں سوز مشتاقی

يہ سرود قمري و بلبل فريب گوش ہے

ہوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں چاک

یہ کون غزل خواں ہے پر سوز و نشاط انگیز

ضمیر لالہ مۂ لعل سے ہوا لبریز

تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم

متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی

نے مہرہ باقی نے مہرہ بازی

یہ دیر کہن کیا ہے انبار خس و خاشاک

مری نوا سے ہوئے زندہ عارف و عامی

تھا جہاں مدرسۂ شیری و شاہنشاہی

لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے

نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی

کمال ترک نہیں آب و گل سے مہجوری

کیا کہوں اپنے چمن سے مَیں جدا کیوں کر ہوا

گرچہ تو زندانی اسباب ہے

چمک تیری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں

کہوں کیا آرزوئے بے دلی مجھ کو کہاں تک ہے

تیری متاع حیات علم و ہنر کا سرور

الٰہی عقل خجستہ پے کو ذرا سی دوانگی سکھا دے

گرم فغاں ہے جرس اٹھ کہ گیا قافلہ

ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام

دریا میں موتی اے موج بے باک

تہ دام بھی غزل آشنا رہے طائران چمن تو کیا

میرے کہستاں تجھے چھوڑ کے جاؤں کہاں

Pakistanify News Subscription

X