منیر نیازی

1928 - 2006
لاہور, پاکستان
پاکستان کے ممتاز ترین جدید شاعروں میں شامل۔ فلموں کے لئے گیت بھی لکھے
خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے

غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں

آ گئی یاد شام ڈھلتے ہی

بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا

زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا

کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے

بے خیالی میں یوں ہی بس اک ارادہ کر لیا

اتنے خاموش بھی رہا نہ کرو

یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں

ہیں رواں اس راہ پر جس کی کوئی منزل نہ ہو

کوئی حد نہیں ہے کمال کی

اس سمت مجھ کو یار نے جانے نہیں دیا

پی لی تو کچھ پتہ نہ چلا وہ سرور تھا

اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو

آئنہ اب جدا نہیں کرتا

جو مجھے بھلا دیں گے میں انہیں بھلا دوں گا

ان سے نین ملا کے دیکھو

تھی جس کی جستجو وہ حقیقت نہیں ملی

چمن میں رنگ بہار اترا تو میں نے دیکھا

رنج فراق یار میں رسوا نہیں ہوا

میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا

اک تیز تیر تھا کہ لگا اور نکل گیا

تھکے لوگوں کو مجبوری میں چلتے دیکھ لیتا ہوں

اور ہیں کتنی منزلیں باقی

اپنے گھر کو واپس جاؤ رو رو کر سمجھاتا ہے

دیتی نہیں اماں جو زمیں آسماں تو ہے

بیٹھ جاتا ہے وہ جب محفل میں آ کے سامنے

ہنسی چھپا بھی گیا اور نظر ملا بھی گیا

وہ جو میرے پاس سے ہو کر کسی کے گھر گیا

آئی ہے اب یاد کیا رات اک بیتے سال کی

تجھ سے بچھڑ کر کیا ہوں میں اب باہر آ کر دیکھ

اپنی ہی تیغ ادا سے آپ گھائل ہو گیا

اپنا تو یہ کام ہے بھائی دل کا خون بہاتے رہنا

رات اتنی جا چکی ہے اور سونا ہے ابھی

ہے شکل تیری گلاب جیسی

کوئی داغ ہے مرے نام پر

اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہئے

اگا سبزہ در و دیوار پر آہستہ آہستہ

سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو

جو دیکھے تھے جادو ترے ہات کے

محفل آرا تھے مگر پھر کم نما ہوتے گئے

خیال یکتا میں خواب اتنے

دل جل رہا تھا غم سے مگر نغمہ گر رہا

پھول تھے بادل بھی تھا اور وہ حسیں صورت بھی تھی

اس کا نقشہ ایک بے ترتیب افسانے کا تھا

ڈر کے کسی سے چھپ جاتا ہے جیسے سانپ خزانے میں

سارے منظر ایک جیسے ساری باتیں ایک سی

غیروں سے مل کے ہی سہی بے باک تو ہوا

ابھی مجھے اک دشت‌ صدا کی ویرانی سے گزرنا ہے

زور پیدا جسم و جاں کی ناتوانی سے ہوا

جب بھی گھر کی چھت پر جائیں ناز دکھانے آ جاتے ہیں

خلش ہجر دائمی نہ گئی

سن بستیوں کا حال جو حد سے گزر گئیں

جفائیں دور تک جاتی ہیں کم آباد شہروں میں

دل عجب مشکل میں ہے اب اصل رستے کی طرف

خمار شب میں اسے میں سلام کر بیٹھا

ردا اس چمن کی اڑا لے گئی

امتحاں ہم نے دیئے اس دار فانی میں بہت

روشنی در روشنی ہے اس طرف

ہے اس گل رنگ کا دیوار ہونا

دل کا سفر بس ایک ہی منزل پہ بس نہیں

یہ آنکھ کیوں ہے یہ ہاتھ کیا ہے

سائے گھٹتے جاتے ہیں

بس ایک ماہ جنوں خیز کی ضیا کے سوا

صحن کو چمکا گئی بیلوں کو گیلا کر گئی

دل کو حال قرار میں دیکھا

تھکن سے راہ میں چلنا محال بھی ہے مجھے

شب وصال میں دوری کا خواب کیوں آیا

نام بے حد تھے مگر ان کا نشاں کوئی نہ تھا

وقت سے کہیو ذرا کم کم چلے

شب ماہتاب نے شہ نشیں پہ عجیب گل سا کھلا دیا

اک عالم ہجراں ہی اب ہم کو پسند آیا

اس شہر کے یہیں کہیں ہونے کا رنگ ہے

چاند نکلا ہے سر قریۂ ظلمت دیکھو

دن اگر چڑھتا ادھر سے میں ادھر سے جاگتا

بے حقیقت دوریوں کی داستاں ہوتی گئی

خواب و خیال گل سے کدھر جائے آدمی

ایک نگر کے نقش بھلا دوں ایک نگر ایجاد کروں

ساعت ہجراں ہے اب کیسے جہانوں میں رہوں

ایک میں اور اتنے لاکھوں سلسلوں کے سامنے

دشت باراں کی ہوا سے پھر ہرا سا ہو گیا

مکاں میں قید صدا کی دہشت

شہر پربت بحر و بر کو چھوڑتا جاتا ہوں میں

دل خوف میں ہے عالم فانی کو دیکھ کر

بے گانگی کا ابر گراں بار کھل گیا

اک مسافت پاؤں شل کرتی ہوئی سی خواب میں

شام کے مسکن میں ویراں میکدے کا در کھلا

نشیب وہم فراز گریز پا کے لیے

رہتا ہے اک ہر اس سا قدموں کے ساتھ ساتھ

رنگوں کی وحشتوں کا تماشا تھی بام شام

مثال سنگ کھڑا ہے اسی حسیں کی طرح

نیل فلک کے اسم میں نقش اسیر کے سبب

سحر کے خواب کا مجھ پر اثر کچھ دیر رہنے دو

نگر میں شام ہو گئی ہے کاہش معاش میں

ہجر شب میں اک قرار غائبانہ چاہئے

Pakistanify News Subscription

X