پروین شاکر

1952 - 1994
کراچی, پاکستان
پاکستان کی مقبول ترین شاعرات میں شامل ، عورتوں کے مخصوص جذبوں کو آواز دینے کے لئے معروف
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی

وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا

چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا

پورا دکھ اور آدھا چاند

کمال ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی

عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی

اب بھلا چھوڑ کے گھر کیا کرتے

بہت رویا وہ ہم کو یاد کر کے

اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں

گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح

ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا

دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا

بچھڑا ہے جو اک بار تو ملتے نہیں دیکھا

بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا

تیری خوشبو کا پتا کرتی ہے

رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی

ہم نے ہی لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا

پا بہ گل سب ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون

اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے

اب اتنی سادگی لائیں کہاں سے

بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے

شوق رقص سے جب تک انگلیاں نہیں کھلتیں

بارش ہوئی تو پھولوں کے تن چاک ہو گئے

اک ہنر تھا کمال تھا کیا تھا

اگرچہ تجھ سے بہت اختلاف بھی نہ ہوا

حرف تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے

قید میں گزرے گی جو عمر بڑے کام کی تھی

جستجو کھوئے ہوؤں کی عمر بھر کرتے رہے

ڈسنے لگے ہیں خواب مگر کس سے بولئے

شب وہی لیکن ستارہ اور ہے

وہ ہم نہیں جنہیں سہنا یہ جبر آ جاتا

دل کا کیا ہے وہ تو چاہے گا مسلسل ملنا

کچھ فیصلہ تو ہو کہ کدھر جانا چاہیے

تیرا گھر اور میرا جنگل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ

گلاب ہاتھ میں ہو آنکھ میں ستارہ ہو

کھلی آنکھوں میں سپنا جھانکتا ہے

چارہ سازوں کی اذیت نہیں دیکھی جاتی

دعا کا ٹوٹا ہوا حرف سرد آہ میں ہے

مشکل ہے کہ اب شہر میں نکلے کوئی گھر سے

وقت رخصت آ گیا دل پھر بھی گھبرایا نہیں

بجا کہ آنکھ میں نیندوں کے سلسلے بھی نہیں

تراش کر مرے بازو اڑان چھوڑ گیا

اشک آنکھ میں پھر اٹک رہا ہے

ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا

چراغ راہ بجھا کیا کہ رہنما بھی گیا

تازہ محبتوں کا نشہ جسم و جاں میں ہے

شام آئی تری یادوں کے ستارے نکلے

کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا

قدموں میں بھی تکان تھی گھر بھی قریب تھا

اپنی ہی صدا سنوں کہاں تک

مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے

باب حیرت سے مجھے اذن سفر ہونے کو ہے

گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا

قریۂ جاں میں کوئی پھول کھلانے آئے

سبھی گناہ دھل گئے سزا ہی اور ہو گئی

میں فقط چلتی رہی منزل کو سر اس نے کیا

رکنے کا سمے گزر گیا ہے

اسی میں خوش ہوں مرا دکھ کوئی تو سہتا ہے

وہ مجبوری نہیں تھی یہ اداکاری نہیں ہے

رکی ہوئی ہے ابھی تک بہار آنکھوں میں

جب ساز کی لے بدل گئی تھی

الزام تھا دیے پہ نہ تقصیر رات کی

سندر کومل سپنوں کی بارات گزر گئی جاناں

خیال و خواب ہوا برگ و بار کا موسم

کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا

جگا سکے نہ ترے لب لکیر ایسی تھی

خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں

سمندروں کے ادھر سے کوئی صدا آئی

کچھ خبر لائی تو ہے باد بہاری اس کی

زندگی بے سائباں بے گھر کہیں ایسی نہ تھی

نم ہیں پلکیں تری اے موج ہوا رات کے ساتھ

تھک گیا ہے دل وحشی مرا فریاد سے بھی

رنگ خوش بو میں اگر حل ہو جائے

دھوپ سات رنگوں میں پھیلتی ہے آنکھوں پر

کھلے گی اس نظر پہ چشم تر آہستہ آہستہ

ہوا مہک اٹھی رنگ چمن بدلنے لگا

گونگے لبوں پہ حرف تمنا کیا مجھے

دکھ نوشتہ ہے تو آندھی کو لکھا آہستہ

کھلے گی اس نظر پہ چشم تر آہستہ آہستہ

جلا دیا شجر جاں کہ سبز بخت نہ تھا

ہوائے تازہ میں پھر جسم و جاں بسانے کا

آواز کے ہم راہ سراپا بھی تو دیکھوں

Pakistanify News Subscription

X