ثروت حسین

1949 - 1996
کراچی, پاکستان
null
اچھا سا کوئی سپنا دیکھو اور مجھے دیکھو

رات ڈھلنے کے بعد کیا ہوگا

جانے اس نے کیا دیکھا شہر کے منارے میں

بھر جائیں گے جب زخم تو آؤں گا دوبارا

قسم اس آگ اور پانی کی

گھر سے نکلا تو ملاقات ہوئی پانی سے

یہ جو پھوٹ بہا ہے دریا پھر نہیں ہوگا

کس پر پوشیدہ اور کس پہ عیاں ہونا تھا

پتھروں میں آئنا موجود ہے

صبح کے شور میں ناموں کی فراوانی میں

دشت لے جائے کہ گھر لے جائے

قندیل مہ و مہر کا افلاک پہ ہونا

میں جو گزرا سلام کرنے لگا

لہر لہر آوارگیوں کے ساتھ رہا

کبھی تیغ تیز سپرد کی کبھی تحفۂ گل تر دیا

پورے چاند کی سج دھج ہے شہزادوں والی

جنگل میں کبھی جو گھر بناؤں

دیکھا جو اس طرف تو بدن پر نظر گئی

یہ ہونٹ ترے ریشم ایسے

پھر وہ برسات دھیان میں آئی

سفینہ رکھتا ہوں درکار اک سمندر ہے

اک روز میں بھی باغ عدن کو نکل گیا

رات باغیچے پہ تھی اور روشنی پتھر میں تھی

وہ میرے سامنے ملبوس کیا بدلنے لگا

آنکھوں میں سوغات سمیٹے اپنے گھر آتے ہیں

وہیں پر مرا سیم تن بھی تو ہے

ہوا و ابر کو آسودۂ مفہوم کر دیکھوں

جب شام ہوئی میں نے قدم گھر سے نکالا

فرات فاصلہ سے دجلۂ دعا سے ادھر

تھامی ہوئی ہے کاہکشاں اپنے ہاتھ سے

آئے ہیں رنگ بحالی پر

گدائے شہر آئندہ تہی کاسہ ملے گا

پہنائے بر و بحر کے محشر سے نکل کر

کتاب سبز و در داستان بند کیے

اسی کنارۂ حیرت سرا کو جاتا ہوں

یک بیک منظر ہستی کا نیا ہو جانا

گردش سیارگاں خوب ہے اپنی جگہ

منہدم ہوتی ہوئی آبادیوں میں فرصت یک خواب ہوتے

Pakistanify News Subscription

X