احمد مشتاق

1933
ریاستہائے متحدہ امریکہ
پاکستان کے معروف ترین اور محترم جدید شاعروں میں سے ایک، اپنے نوکلاسیکی آہنگ کے لیے معروف
مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے

مل ہی آتے ہیں اسے ایسا بھی کیا ہو جائے گا

یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں

تم آئے ہو تمہیں بھی آزما کر دیکھ لیتا ہوں

پتا اب تک نہیں بدلا ہمارا

عشق میں کون بتا سکتا ہے

خیر اوروں نے بھی چاہا تو ہے تجھ سا ہونا

اب وہ گلیاں وہ مکاں یاد نہیں

یہ کہنا تو نہیں کافی کہ بس پیارے لگے ہم کو

زندگی سے ایک دن موسم خفا ہو جائیں گے

کس شے پہ یہاں وقت کا سایہ نہیں ہوتا

بہت رک رک کے چلتی ہے ہوا خالی مکانوں میں

آج رو کر تو دکھائے کوئی ایسا رونا

کیسے انہیں بھلاؤں محبت جنہوں نے کی

شام ہوتی ہے تو یاد آتی ہے ساری باتیں

تھم گیا درد اجالا ہوا تنہائی میں

ہر لمحہ ظلمتوں کی خدائی کا وقت ہے

کہیں امید سی ہے دل کے نہاں خانے میں

پانی میں عکس اور کسی آسماں کا ہے

چھٹ گیا ابر شفق کھل گئی تارے نکلے

چاند اس گھر کے دریچوں کے برابر آیا

ہاتھ سے ناپتا ہوں درد کی گہرائی کو

دل میں وہ شور نہ آنکھوں میں وہ نم رہتا ہے

لبھاتا ہے اگرچہ حسن دریا ڈر رہا ہوں میں

ان موسموں میں ناچتے گاتے رہیں گے ہم

شبنم کو ریت پھول کو کانٹا بنا دیا

دلوں کی اور دھواں سا دکھائی دیتا ہے

یہ ہم غزل میں جو حرف و بیاں بناتے ہیں

کہوں کس سے رات کا ماجرا نئے منظروں پہ نگاہ تھی

یہ کون خواب میں چھو کر چلا گیا مرے لب

چاند بھی نکلا ستارے بھی برابر نکلے

دنیا میں سراغ رہ دنیا نہیں ملتا

شام غم یاد ہے کب شمع جلی یاد نہیں

بہتا آنسو ایک جھلک میں کتنے روپ دکھائے گا

خواب کے پھولوں کی تعبیریں کہانی ہو گئیں

بھولے بسرے موسموں کے درمیاں رہتا ہوں میں

منظر صبح دکھانے اسے لایا نہ گیا

نالۂ خونیں سے روشن درد کی راتیں کرو

کہاں کی گونج دل ناتواں میں رہتی ہے

اک پھول میرے پاس تھا اک شمع میرے ساتھ تھی

روشنی رہتی تھی دل میں زخم جب تک تازہ تھا

مجھے اس نے تری خبر دی ہے

زلف دیکھی وہ دھواں دھار وہ چہرا دیکھا

ہمیں سب اہل ہوس ناپسند رکھتے ہیں

بھاگنے کا کوئی رستہ نہیں رہنے دیتے

اب منزل صدا سے سفر کر رہے ہیں ہم

اشک دامن میں بھرے خواب کمر پر رکھا

چھن گئی تیری تمنا بھی تمنائی سے

تھا مجھ سے ہم کلام مگر دیکھنے میں تھا

اک عمر کی اور ضرورت ہے وہی شام و سحر کرنے کے لیے

اب نہ بہل سکے گا دل اب نہ دیئے جلائیے

اجلا ترا برتن ہے اور صاف ترا پانی

رات پھر رنگ پہ تھی اس کے بدن کی خوشبو

زمیں سے اگتی ہے یا آسماں سے آتی ہے

عجب نہیں کبھی نغمہ بنے فغاں میری

کبھی خواہش نہ ہوئی انجمن آرائی کی

لاغر ہیں جسم رنگ ہیں کالے پڑے ہوئے

دکھ کی چیخیں پیار کی سرگوشیاں رہ جائیں گی

خون دل سے کشت غم کو سینچتا رہتا ہوں میں

کس جھٹپٹے کے رنگ اجالوں میں آ گئے

سفر نیا تھا نہ کوئی نیا مسافر تھا

کھڑے ہیں دل میں جو برگ و ثمر لگائے ہوئے

برس کر کھل گیا ابر خزاں آہستہ آہستہ

رخصت شب کا سماں پہلے کبھی دیکھا نہ تھا

ہم گرے ہیں جو آ کے اتنی دور

ترے دیوانے ہر رنگ رہے ترے دھیان کی جوت جگائے ہوئے

لے کے ہمراہ چھلکتے ہوئے پیمانے کو

وہی ان کی ستیزہ کاری ہے

پھر وہی رات پھر وہی آواز

چشم و لب کیسے ہوں رخسار ہوں کیسے تیرے

منہ اندھیرے جگا کے چھوڑ گئی (ردیف .. ز)

اداس کر کے دریچے نئے مکانوں کے

ٹوٹ گیا ہوا کا زور سیل بلا اتر گیا

کس رقص جان و تن میں مرا دل نہیں رہا

ملال دل سے علاج غم زمانہ کیا

دھڑکتی رہتی ہے دل میں طلب کوئی نہ کوئی

مونس دل کوئی نغمہ کوئی تحریر نہیں

چمک دمک پہ نہ جاؤ کھری نہیں کوئی شے

مسلسل یاد آتی ہے چمک چشم غزالاں کی

دست سموم دست صبا کیوں نہیں ہوا

Pakistanify News Subscription

X