شہزاد احمد

1932 - 2012
لاہور, پاکستان
نئی اردو غزل کے اہم ترین پاکستانی شاعروں میں نمایاں
رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا

اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے

پرانے دوستوں سے اب مروت چھوڑ دی ہم نے

چراغ خود ہی بجھایا بجھا کے چھوڑ دیا

وہ مرے پاس ہے کیا پاس بلاؤں اس کو

جس نے تری آنکھوں میں شرارت نہیں دیکھی

جو شجر سوکھ گیا ہے وہ ہرا کیسے ہو

حال اس کا ترے چہرہ پہ لکھا لگتا ہے

نہ سہی کچھ مگر اتنا تو کیا کرتے تھے

چپ کے عالم میں وہ تصویر سی صورت اس کی

اب نبھانی ہی پڑے گی دوستی جیسی بھی ہے

فصل گل خاک ہوئی جب تو صدا دی تو نے

میں جو روتا ہوں تو کہتے ہو کہ ایسا نہ کرو

جب اس کی زلف میں پہلا سفید بال آیا

یہ سوچ کر کہ تیری جبیں پر نہ بل پڑے

جل بھی چکے پروانے ہو بھی چکی رسوائی

آج تک اس کی محبت کا نشہ طاری ہے

منتظر دشت دل و جاں ہے کہ آہو آئے

یہ بھی سچ ہے کہ نہیں ہے کوئی رشتہ تجھ سے

اب نہ وہ شور نہ وہ شور مچانے والے

سکون کچھ تو ملا دل کا ماجرا لکھ کر

جو دل میں کھٹکتی ہے کبھی کہہ بھی سکو گے

ویسے تو اک دوسرے کی سب سنتے ہیں

شہر کا شہر اگر آئے بھی سمجھانے کو

وہ جا چکا ہے تو کیوں بے قرار اتنے ہو

دل سے یہ کہہ رہا ہوں ذرا اور دیکھ لے

دل کا برا نہیں مگر شخص عجیب ڈھب کا ہے

یوں خاک کی مانند نہ راہوں پہ بکھر جا

دل فسردہ اسے کیوں گلے لگا نہ لیا

اگرچہ کار دنیا کچھ نہیں ہے

جان مقدر میں تھی جان سے پیارا نہ تھا

کون کہتا ہے کہ دریا میں روانی کم ہے

ابلیس بھی رکھ لیتے ہیں جب نام فرشتے

عمر جتنی بھی کٹی اس کے بھروسے پہ کٹی (ردیف .. ا)

اس بھرے شہر میں آرام میں کیسے پاؤں

یہ کس غم سے عقیدت ہو گئی ہے

کتنی بے نور تھی دن بھر نظر پروانہ

عقل ہر بات پہ حیراں ہے اسے کیا کہیے

خط میں اس کو کیسے لکھیں کیا پانا کیا کھونا ہے

تجھ پہ جاں دینے کو تیار کوئی تو ہوگا

رات کی نیندیں تو پہلے ہی اڑا کر لے گیا

میں اکیلا ہوں یہاں میرے سوا کوئی نہیں

کہیں بھی سایہ نہیں کس طرف چلے کوئی

میں کہ خوش ہوتا تھا دریا کی روانی دیکھ کر

واقعہ کوئی نہ جنت میں ہوا میرے بعد

دل و نظر پہ ترے بعد کیا نہیں گزرا

دیکھنے اس کو کوئی میرے سوا کیوں آئے

ڈوب جائیں گے ستارے اور بکھر جائے گی رات

خلق نے چھین لی مجھ سے مری تنہائی تک

سورج کی کرن دیکھ کے بیزار ہوئے ہو

چمک چمک کے ستارو مجھے فریب نہ دو

دل بہت مصروف تھا کل آج بے کاروں میں ہے

آپ بھی نہیں آئے نیند بھی نہیں آئی

یہ نہ ہو وہ بھولنے والا بھلا دینا پڑے

ہجر کی رات مری جاں پہ بنی ہو جیسے

دیکھ اب اپنے ہیولے کو فنا ہوتے ہوئے

ہم لوگوں کو اپنے دل کے راز بتاتے رہتے ہیں

کوشش ہے شرط یوں ہی نہ ہتھیار پھینک دے

تھوڑا سا رنگ رات کے چہرے پہ ڈال دو

ثبت ہے چہروں پہ چپ بن میں اندھیرا ہو چکا

لگے تھے غم تجھے کس عمر میں زمانے کے

دریا کبھی اک حال میں بہتا نہ رہے گا

اٹھیں آنکھیں اگر آہٹ سنی ہے

خزاں جب آئے تو آنکھوں میں خاک ڈالتا ہوں

باغ بہشت کے مکیں کہتے ہیں مرحبا مجھے

جب آفتاب نہ نکلا تو روشنی کے لیے

آتی ہے دم بہ دم یہ صدا جاگتے رہو

اس دور بے دلی میں کوئی بات کیسے ہو

کیسے گزر سکیں گے زمانے بہار کے

دل و دماغ میں احساس غم ابھار دیا

میری خاطر دیر نہ کرنا اور سفر کرتے جانا

کب تک کڑکتی دھوپ میں آنکھیں جلائیں ہم

کھلے جو پھول تو منہ چھپ گیا ستاروں کا

خود ہی مل بیٹھے ہو یہ کیسی شناسائی ہوئی

لبوں پہ آ کے رہ گئیں شکایتیں کبھی کبھی

عشق وحشی ہے جہاں دیکھے گا

زمیں اپنے لہو سے آشنا ہونے ہی والی ہے

اس دوشیزہ مٹی پر نقش کف پا کوئی بھی نہیں

پیار کے رنگ محل برسوں میں تیار ہوئے

تیرے گھر کی بھی وہی دیوار تھی دروازہ تھا

اصل میں ہوں میں مجرم میں نے کیوں شکایت کی

بکھرے ہوئے تاروں سے مری رات بھری ہے

اسی باعث زمانہ ہو گیا ہے اس کو گھر بیٹھے

باغ کا باغ اجڑ گیا کوئی کہو پکار کر

جانے کس سمت سے ہوا آئی

شب غم کو سحر کرنا پڑے گا

بھٹکتی ہیں زمانے میں ہوائیں

کمروں میں چھپنے کے دن ہیں اور نہ برہنہ راتیں ہیں

نہ بستیوں کو عزیز رکھیں نہ ہم بیاباں سے لو لگائیں

کسی صورت مسافت میں کمی ہونے نہیں دیتے

گھر جلا لیتا ہے خود اپنے ہی انوار سے تو

سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ دل کی خو کیا تھی

یہ کس کے آنے کے امکاں دکھائی دیتے ہیں

کچھ نہ کچھ ہو تو سہی انجمن آرائی کو

بے تابیٔ غم ہائے دروں کم نہیں ہوگی

Pakistanify News Subscription

X