احمد فراز

1931 - 2008
اسلام آباد, پاکستان
بے انتہا مقبول پاکستانی شاعر، اپنی رومانی اوراحتجاجی شاعری کے لئے مشہور
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں

اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں

آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا

زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے

سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے

ابھی کچھ اور کرشمے غزل کے دیکھتے ہیں

دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا

قربت بھی نہیں دل سے اتر بھی نہیں جاتا

اب کے تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں

اس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا

عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو

ہر کوئی دل کی ہتھیلی پہ ہے صحرا رکھے

اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائیں ہم

سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی

جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو

دکھ فسانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں

اس نے سکوت شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا

کروں نہ یاد مگر کس طرح بھلاؤں اسے

گفتگو اچھی لگی ذوق نظر اچھا لگا

روگ ایسے بھی غم یار سے لگ جاتے ہیں

تیری باتیں ہی سنانے آئے

قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے

ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے

شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو

اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے

یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی

نہ حریف جاں نہ شریک غم شب انتظار کوئی تو ہو

کٹھن ہے راہ گزر تھوڑی دور ساتھ چلو

پھر اسی رہ گزار پر شاید

تجھے ہے مشق ستم کا ملال ویسے ہی

تجھ سے مل کر تو یہ لگتا ہے کہ اے اجنبی دوست

جز ترے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے

ساقیا ایک نظر جام سے پہلے پہلے

اول اول کی دوستی ہے ابھی

ہوئی ہے شام تو آنکھوں میں بس گیا پھر تو

تیرے قریب آ کے بڑی الجھنوں میں ہوں

خاموش ہو کیوں داد جفا کیوں نہیں دیتے

ایسے چپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے

اس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی

کیا ایسے کم سخن سے کوئی گفتگو کرے

میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا

تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے

اس کا اپنا ہی کرشمہ ہے فسوں ہے یوں ہے

اب شوق سے کہ جاں سے گزر جانا چاہیئے

جب بھی دل کھول کے روئے ہوں گے

جو غیر تھے وہ اسی بات پر ہمارے ہوئے

یوں ہی مر مر کے جئیں وقت گزارے جائیں

منتظر کب سے تحیر ہے تری تقریر کا

وحشتیں بڑھتی گئیں ہجر کے آزار کے ساتھ

مثال دست زلیخا تپاک چاہتا ہے

عجب جنون مسافت میں گھر سے نکلا تھا

تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ

نہ دل سے آہ نہ لب سے صدا نکلتی ہے

دل گرفتہ ہی سہی بزم سجا لی جائے

مستقل محرومیوں پر بھی تو دل مانا نہیں

یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے

ترس رہا ہوں مگر تو نظر نہ آ مجھ کو

نہ منزلوں کو نہ ہم رہ گزر کو دیکھتے ہیں

گلہ فضول تھا عہد وفا کے ہوتے ہوئے

لے اڑا پھر کوئی خیال ہمیں

اب کیا سوچیں کیا حالات تھے کس کارن یہ زہر پیا ہے

سبھی کہیں مرے غم خوار کے علاوہ بھی

ہر ایک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے

گماں یہی ہے کہ دل خود ادھر کو جاتا ہے

ہوا کے زور سے پندار بام و در بھی گیا

یوں تو پہلے بھی ہوئے اس سے کئی بار جدا

دل منافق تھا شب ہجر میں سویا کیسا

جان سے عشق اور جہاں سے گریز

کہا تھا کس نے کہ عہد وفا کرو اس سے

وہ دشمن جاں جان سے پیارا بھی کبھی تھا

یہ شہر سحر زدہ ہے صدا کسی کی نہیں

خود کو ترے معیار سے گھٹ کر نہیں دیکھا

سب قرینے اسی دل دار کے رکھ دیتے ہیں

تڑپ اٹھوں بھی تو ظالم تری دہائی نہ دوں

جس سے یہ طبیعت بڑی مشکل سے لگی تھی

دل بدن کا شریک حال کہاں

فقیہ شہر کی مجلس سے کچھ بھلا نہ ہوا

کیوں نہ ہم عہد رفاقت کو بھلانے لگ جائیں

چل نکلتی ہیں غم یار سے باتیں کیا کیا

ہم بھی شاعر تھے کبھی جان سخن یاد نہیں

بھید پائیں تو رہ یار میں گم ہو جائیں

عشق نشہ ہے نہ جادو جو اتر بھی جائے

اپنی ہی آواز کو بے شک کان میں رکھنا

مزاج ہم سے زیادہ جدا نہ تھا اس کا

پیام آئے ہیں اس یار بے وفا کے مجھے

کل ہم نے بزم یار میں کیا کیا شراب پی

سب لوگ لیے سنگ ملامت نکل آئے

جو قربتوں کے نشے تھے وہ اب اترنے لگے

جب ہر اک شہر بلاؤں کا ٹھکانہ بن جائے

جب تجھے یاد کریں کار جہاں کھینچتا ہے

یہ میں بھی کیا ہوں اسے بھول کر اسی کا رہا

نظر بجھی تو کرشمے بھی روز و شب کے گئے

وحشت دل صلۂ آبلہ پائی لے لے

اپنی ہی آواز کو بے شک کان میں رکھنا

نہ تیرا قرب نہ بادہ ہے کیا کیا جائے

چاک پیراہنیٔ گل کو صبا جانتی ہے

ہم تو خوش تھے کہ چلو دل کا جنوں کچھ کم ہے

ہر تماشائی فقط ساحل سے منظر دیکھتا

سارا شہر بلکتا ہے

جب یار نے رخت سفر باندھا کب ضبط کا پارا اس دن تھا

غرور جاں کو مرے یار بیچ دیتے ہیں

جب تری یاد کے جگنو چمکے

یہ بے دلی ہے تو کشتی سے یار کیا اتریں

غنیم سے بھی عداوت میں حد نہیں مانگی

قرب جاناں کا نہ مے خانے کا موسم آیا

جاناں دل کا شہر نگر افسوس کا ہے

چلے تھے یار بڑے زعم میں ہوا کی طرح

بیٹھے تھے لوگ پہلو بہ پہلو پیے ہوئے

غیرت عشق سلامت تھی انا زندہ تھی

نوحہ گروں میں دیدۂ تر بھی اسی کا تھا

جسم شعلہ ہے جبھی جامۂ سادہ پہنا

سکوت شام خزاں ہے قریب آ جاؤ

منزلیں ایک سی آوارگیاں ایک سی ہیں

رات کے پچھلے پہر رونے کے عادی روئے

کشیدہ سر سے توقع عبث جھکاؤ کی تھی

جو بھی درون دل ہے وہ باہر نہ آئے گا

نہ سہہ سکا جب مسافتوں کے عذاب سارے

کسی جانب سے بھی پرچم نہ لہو کا نکلا

یہ طبیعت ہے تو خود آزار بن جائیں گے ہم

ہم تو یوں خوش تھے کہ اک تار گریبان میں ہے

ترا قرب تھا کہ فراق تھا وہی تیری جلوہ گری رہی

وفا کے باب میں الزام عاشقی نہ لیا

ہر آشنا میں کہاں خوئے محرمانہ وہ

قامت کو تیرے سرو صنوبر نہیں کہا

پیچ رکھتے ہو بہت صاحبو دستار کے بیچ

تھا کوئی یا نہیں تھا جو کچھ تھا

نہیں کہ نامہ بروں کو تلاش کرتے ہیں

سوئے فلک نہ جانب مہتاب دیکھنا

تھا عبث ترک تعلق کا ارادہ یوں بھی

اس منظر سادہ میں کئی جال بندھے تھے

اک بوند تھی لہو کی سر دار تو گری

شگفت گل کی صدا میں رنگ چمن میں آؤ

ہر کوئی طرۂ پیچاک پہن کر نکلا

تو کہ انجان ہے اس شہر کے آداب سمجھ

نہ شب و روز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے

معاف کر مری مستی خدائے عز و جل

ردائے زخم ہر گل پیرہن پہنے ہوئے ہے

وہ تفاوتیں ہیں مرے خدا کہ یہ تو نہیں کوئی اور ہے

ہم اپنے آنسوؤں کا افسانہ کیا سنائیں

بے نیاز غم پیمان وفا ہو جانا

دل میں اب طاقت کہاں خوں نابہ افشانی کرے

بے سر و ساماں تھے لیکن اتنا اندازہ نہ تھا

افعی کی طرح ڈسنے لگی موج نفس بھی

تپتے صحراؤں پہ گرجا سر دریا برسا

Pakistanify News Subscription

X