فراق گورکھپوری

1896 - 1982
الہٰ آباد, انڈیا
ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، جنہوں نے جدید شاعری کے لئے راہ ہموار کی۔ اپنے بصیرت افروز تنقیدی تبصروں کے لئے معروف۔ گیان پیٹھ انعام سے سرفراز
بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں

ستاروں سے الجھتا جا رہا ہوں

کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی

نرم فضا کی کروٹیں دل کو دکھا کے رہ گئیں

زندگی درد کی کہانی ہے

رات بھی نیند بھی کہانی بھی

آئی ہے کچھ نہ پوچھ قیامت کہاں کہاں

کچھ اشارے تھے جنہیں دنیا سمجھ بیٹھے تھے ہم

آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے

شام غم کچھ اس نگاہ ناز کی باتیں کرو

وہ چپ چاپ آنسو بہانے کی راتیں

سمجھتا ہوں کہ تو مجھ سے جدا ہے

کمی نہ کی ترے وحشی نے خاک اڑانے میں

اب اکثر چپ چپ سے رہیں ہیں یونہی کبھو لب کھولیں ہیں

آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھا

تمہیں کیوں کر بتائیں زندگی کو کیا سمجھتے ہیں

وقت غروب آج کرامات ہو گئی

فراقؔ اک نئی صورت نکل تو سکتی ہے

دیدار میں اک طرفہ دیدار نظر آیا

اپنے غم کا مجھے کہاں غم ہے

یہ تو نہیں کہ غم نہیں

اب دور آسماں ہے نہ دور حیات ہے

زیر و بم سے ساز خلقت کے جہاں بنتا گیا

بستیاں ڈھونڈھ رہی ہیں انہیں ویرانوں میں

کچھ نہ کچھ عشق کی تاثیر کا اقرار تو ہے

تیز احساس خودی درکار ہے

ہاتھ آئے تو وہی دامن جاناں ہو جائے

مجھ کو مارا ہے ہر اک درد و دوا سے پہلے

جور و بے مہری اغماض پہ کیا روتا ہے

نگاہ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا

زمیں بدلی فلک بدلا مذاق زندگی بدلا

رکی رکی سی شب مرگ ختم پر آئی

دیتے ہیں جام شہادت مجھے معلوم نہ تھا

ہجر و وصال یار کا پردہ اٹھا دیا

کوئی پیغام محبت لب اعجاز تو دے

چھلک کے کم نہ ہو ایسی کوئی شراب نہیں

جہان غنچۂ دل کا فقط چٹکنا تھا

یہ نکہتوں کی نرم روی یہ ہوا یہ رات

رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن کیا کہنا

اک روز ہوئے تھے کچھ اشارات خفی سے

جنون کارگر ہے اور میں ہوں

دلوں کا سوز ترے روئے بے نقاب کی آنچ

جسے لوگ کہتے ہیں تیرگی وہی شب حجاب سحر بھی ہے

یہ نرم نرم ہوا جھلملا رہے ہیں چراغ

یہ سرمئی فضاؤں کی کنمناہٹیں

طور تھا کعبہ تھا دل تھا جلوہ زار یار تھا

ہر نالہ ترے درد سے اب اور ہی کچھ ہے

چھیڑ اے دل یہ کسی شوخ کے رخساروں سے

بحثیں چھڑی ہوئی ہیں حیات و ممات کی

دور آغاز جفا دل کا سہارا نکلا

غم ترا جلوہ گہہ کون و مکاں ہے کہ جو تھا

موت اک گیت رات گاتی تھی

تم ہو جہاں کے شاید میں بھی وہاں رہا ہوں

عشق کی مایوسیوں میں سوز پنہاں کچھ نہیں

میکدے میں آج اک دنیا کو اذن عام تھا

بے ٹھکانے ہے دل غمگیں ٹھکانے کی کہو

یہ موت و عدم کون و مکاں اور ہی کچھ ہے

لطف ساماں عتاب یار بھی ہے

سنا تو ہے کہ کبھی بے نیاز غم تھی حیات

رنج و راحت وصل‌ و فرقت ہوش و وحشت کیا نہیں

کچھ اپنا آشنا کیوں اے دل ناداں نہیں ہوتا

کچھ بھی عیاں نہاں نہ تھا کوئی زماں مکاں نہ تھا

جن کی زندگی دامن تک ہے بے چارے فرزانے ہیں

راز الم سے ہے شاید کہ مرا راز جدا

ہو کے سر تا بہ قدم عالم اسرار چلا

ہر عقدۂ تقدیر جہاں کھول رہی ہے

رسم و راہ دہر کیا جوش محبت بھی تو ہو

ہے ابھی مہتاب باقی اور باقی ہے شراب

کار گر عشق میں اب تک غم پنہاں نہ ہوا

Pakistanify News Subscription

X