جون ایلیا

1931 - 2002
کراچی, پاکستان
پاکستان کے اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے غیر روایتی طور طریقوں کے لیے مشہور
عمر گزرے گی امتحان میں کیا

نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم

کتنے عیش سے رہتے ہوں گے کتنے اتراتے ہوں گے

بے قراری سی بے قراری ہے

حالت حال کے سبب حالت حال ہی گئی

بے دلی کیا یوں ہی دن گزر جائیں گے

ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں

اپنے سب یار کام کر رہے ہیں

تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو

گاہے گاہے بس اب یہی ہو کیا

سر ہی اب پھوڑیے ندامت میں

اک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں

ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے

ابھی اک شور سا اٹھا ہے کہیں

بہت دل کو کشادہ کر لیا کیا

سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی

بڑا احسان ہم فرما رہے ہیں

تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو

آدمی وقت پر گیا ہوگا

ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا

کس سے اظہار مدعا کیجے

تو بھی چپ ہے میں بھی چپ ہوں یہ کیسی تنہائی ہے

ایذا دہی کی داد جو پاتا رہا ہوں میں

شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں

ہم تو جیسے وہاں کے تھے ہی نہیں

کام کی بات میں نے کی ہی نہیں

اپنا خاکہ لگتا ہوں

اس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں

آپ اپنا غبار تھے ہم تو

آخری بار آہ کر لی ہے

دل جو ہے آگ لگا دوں اس کو

چلو باد بہاری جا رہی ہے

جی ہی جی میں وہ جل رہی ہوگی

دل کی تکلیف کم نہیں کرتے

دل نے وفا کے نام پر کار وفا نہیں کیا

ہم جی رہے ہیں کوئی بہانہ کیے بغیر

زندگی کیا ہے اک کہانی ہے

گھر سے ہم گھر تلک گئے ہوں گے

وہ جو تھا وہ کبھی ملا ہی نہیں

ہر دھڑکن ہیجانی تھی ہر خاموشی طوفانی تھی

جو ہوا جونؔ وہ ہوا بھی نہیں

روح پیاسی کہاں سے آتی ہے

سارے رشتے تباہ کر آیا

اب کسی سے مرا حساب نہیں

جز گماں اور تھا ہی کیا میرا

اب وہ گھر اک ویرانہ تھا بس ویرانہ زندہ تھا

آج لب گہر فشاں آپ نے وا نہیں کیا

نہ ہوا نصیب قرار جاں ہوس قرار بھی اب نہیں

تنگ آغوش میں آباد کروں گا تجھ کو

ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے

کبھی جب مدتوں کے بعد اس کا سامنا ہوگا

عیش امید ہی سے خطرہ ہے

اے صبح میں اب کہاں رہا ہوں

زخم امید بھر گیا کب کا

خوب ہے شوق کا یہ پہلو بھی

ہے بکھرنے کو یہ محفل رنگ و بو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے

ہے عجب حال یہ زمانے کا

ہجر کی آنکھوں سے آنکھیں تو ملاتے جائیے

ہم آندھیوں کے بن میں کسی کارواں کے تھے

کسی سے عہد و پیماں کر نہ رہیو

کام مجھ سے کوئی ہوا ہی نہیں

لمحے لمحے کی نارسائی ہے

کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو

ہم کہاں اور تم کہاں جاناں

ذکر بھی اس سے کیا بھلا میرا

ہمارے زخم تمنا پرانے ہو گئے ہیں

جو زندگی بچی ہے اسے مت گنوائیے

عجب حالت ہماری ہو گئی ہے

آج بھی تشنگی کی قسمت میں

شوق کا رنگ بجھ گیا یاد کے زخم بھر گئے

اپنی منزل کا راستہ بھیجو

بات کوئی امید کی مجھ سے نہیں کہی گئی

اے کوئے یار تیرے زمانے گزر گئے

ایک سایہ مرا مسیحا تھا

خون تھوکے گی زندگی کب تک

یادوں کا حساب رکھ رہا ہوں

گنوائی کس کی تمنا میں زندگی میں نے

ہے فصیلیں اٹھا رہا مجھ میں

اے وصل کچھ یہاں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا

یہ پیہم تلخ کامی سی رہی کیا

نشۂ شوق رنگ میں تجھ سے جدائی کی گئی

تجھ سے گلے کروں تجھے جاناں مناؤں میں

یاد اسے انتہائی کرتے ہیں

تم سے بھی اب تو جا چکا ہوں میں

سوچا ہے کہ اب کار مسیحا نہ کریں گے

ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا

کب اس کا وصال چاہیے تھا

بد دلی میں بے قراری کو قرار آیا تو کیا

بند باہر سے مری ذات کا در ہے مجھ میں

نام ہی کیا نشاں ہی کیا خواب و خیال ہو گئے

دل پریشاں ہے کیا کیا جائے

سمجھ میں زندگی آئے کہاں سے

خود میں ہی گزر کے تھک گیا ہوں

باہر گزار دی کبھی اندر بھی آئیں گے

مجھ کو تو گر کے مرنا ہے

دل برباد کو آباد کیا ہے میں نے

جانے کہاں گیا ہے وہ وہ جو ابھی یہاں تھا

تجھ میں پڑا ہوا ہوں حرکت نہیں ہے مجھ میں

دولت دہر سب لٹائی ہے

مجھے غرض ہے مری جان غل مچانے سے

ہم رہے پر نہیں رہے آباد

روٹھا تھا تجھ سے یعنی خود اپنی خوشی سے میں

بزم سے جب نگار اٹھتا ہے

ہم ترا ہجر منانے کے لیے نکلے ہیں

شاخ امید جل گئی ہوگی

گفتگو جب محال کی ہوگی

جاؤ قرار بے دلاں شام بخیر شب بخیر

وہ کیا کچھ نہ کرنے والے تھے

بجا ارشاد فرمایا گیا ہے

انقلاب ایک خواب ہے سو ہے

یہ اکثر تلخ کامی سی رہی کیا

شام ہوئی ہے یار آئے ہیں یاروں کے ہم راہ چلیں

گزراں ہیں گزرتے رہتے ہیں

دل کی ہر بات دھیان میں گزری

عجب اک طور ہے جو ہم ستم ایجاد رکھیں

مسند غم پہ جچ رہا ہوں میں

اس نے ہم کو گمان میں رکھا

دل گماں تھا گمانیاں تھے ہم

سر صحرا حباب بیچے ہیں

کسی سے کوئی خفا بھی نہیں رہا اب تو

سب چلے جاؤ مجھ میں تاب نہیں

کون سے شوق کس ہوس کا نہیں

ہو کا عالم ہے یہاں نالہ گروں کے ہوتے

دید کی ایک آن میں کار دوام ہو گیا

دل کتنا آباد ہوا جب دید کے گھر برباد ہوئے

دل کو دنیا کا ہے سفر درپیش

کیا یہ آفت نہیں عذاب نہیں

نہ ہم رہے نہ وہ خوابوں کی زندگی ہی رہی

سلسلہ جنباں اک تنہا سے روح کسی تنہا کی تھی

کوئی دم بھی میں کب اندر رہا ہوں

شوق کا بار اتار آیا ہوں

دل نے کیا ہے قصد سفر گھر سمیٹ لو

تشنگی نے سراب ہی لکھا

ترے غرور کا حلیہ بگاڑ ڈالوں گا

لازم ہے اپنے آپ کی امداد کچھ کروں

نہ پوچھ اس کی جو اپنے اندر چھپا

وہ خیال محال کس کا تھا

کیا یقیں اور کیا گماں چپ رہ

بھٹکتا پھر رہا ہوں جستجو بن

میں نہ ٹھہروں نہ جان تو ٹھہرے

غم ہے بے ماجرا کئی دن سے

اک زخم بھی یاران بسمل نہیں آنے کا

شام تک میری بیکلی ہے شراب

کیا کہیں تم سے بود و باش اپنی

جو گزر دشمن ہے اس کا رہ گزر رکھا ہے نام

دل سے ہے بہت گریز پا تو

دھوپ اٹھاتا ہوں کہ اب سر پہ کوئی بار نہیں

خواب کے رنگ دل و جاں میں سجائے بھی گئے

نہ کوئی ہجر نہ کوئی وصال ہے شاید

ایک گماں کا حال ہے اور فقط گماں میں ہے

نہیں نباہی خوشی سے غمی کو چھوڑ دیا

کیا ہو گیا ہے گیسوئے خم دار کو ترے

کیسا دل اور اس کے کیا غم جی

شمشیر میری، میری سپر کس کے پاس ہے

دل کا دیار خواب میں دور تلک گزر رہا

شہر بہ شہر کر سفر زاد سفر لیے بغیر

مسکن ماہ و سال چھوڑ گیا

طفلان کوچہ گرد کے پتھر بھی کچھ نہیں

نہ تو دل کا نہ جاں کا دفتر ہے

دل جو اک جائے تھی دنیا ہوئی آباد اس میں

خود سے رشتے رہے کہاں ان کے

رنج ہے حالت سفر حال قیام رنج ہے

یہ جو سنا اک دن وہ حویلی یکسر بے آثار گری

کوئے جاناں میں اور کیا مانگو

ذکر گل ہو خار کی باتیں کریں

حواس میں تو نہ تھے پھر بھی کیا نہ کر آئے

خواب کی حالتوں کے ساتھ تیری حکایتوں میں ہیں

کیا ہوئے آشفتہ کاراں کیا ہوئے

ہائے جانانہ کی مہماں داریاں

شام تھی اور برگ و گل شل تھے مگر صبا بھی تھی

فرقت میں وصلت برپا ہے اللہ ہو کے باڑے میں

شکوہ اول تو بے حساب کیا

Pakistanify News Subscription

X