فیض احمد فیض

1911 - 1984
لاہور, پاکستان
سب سے پسندیدہ اور مقبول پاکستانی شاعروں میں سے ایک ، اپنے انقلابی خیالات کے سبب کئی برس قید میں رہے
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے

گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے

آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے

ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے

''آپ کی یاد آتی رہی رات بھر'' (ردیف .. ر)

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے

راز الفت چھپا کے دیکھ لیا

شام فراق اب نہ پوچھ آئی اور آ کے ٹل گئی

کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی

کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں کب ہات میں تیرا ہات نہیں

دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں

نصیب آزمانے کے دن آ رہے ہیں

تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں

ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے

نہ گنواؤ ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا

کب تک دل کی خیر منائیں کب تک رہ دکھلاؤ گے

بات بس سے نکل چلی ہے

رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام

تری امید ترا انتظار جب سے ہے

وفائے وعدہ نہیں وعدۂ دگر بھی نہیں

ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے

وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوف خدا گیا

آج یوں موج در موج غم تھم گیا اس طرح غم زدوں کو قرار آ گیا

ہر حقیقت مجاز ہو جائے

سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں

اب جو کوئی پوچھے بھی تو اس سے کیا شرح حالات کریں

ہم مسافر یوں ہی مصروف سفر جائیں گے

ہمت التجا نہیں باقی

نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی (ردیف .. ا)

سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا سبھی راحتیں سبھی کلفتیں

اب وہی حرف جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے

چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا

قرض نگاہ یار ادا کر چکے ہیں ہم

شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی

یوں سجا چاند کہ جھلکا ترے انداز کا رنگ

گرمئ شوق نظارہ کا اثر تو دیکھو

اب کے برس دستور ستم میں کیا کیا باب ایزاد ہوئے

یہ جفائے غم کا چارہ وہ نجات دل کا عالم

یہ کس خلش نے پھر اس دل میں آشیانہ کیا

کبھی کبھی یاد میں ابھرتے ہیں نقش ماضی مٹے مٹے سے

رہ خزاں میں تلاش بہار کرتے رہے

عشق منت کش قرار نہیں

پھر حریف بہار ہو بیٹھے

گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا

کئی بار اس کا دامن بھر دیا حسن دو عالم سے (ردیف .. ی)

دربار میں اب سطوت شاہی کی علامت (ردیف .. ے)

ہمیں سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی

جمے گی کیسے بساط یاراں کہ شیشہ و جام بجھ گئے ہیں

کچھ محتسبوں کی خلوت میں کچھ واعظ کے گھر جاتی ہے

چشم میگوں ذرا ادھر کر دے

حیراں ہے جبیں آج کدھر سجدہ روا ہے

نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی نہ کسی کو فکر رفو کی ہے

حسن مرہون جوش بادۂ ناز

کچھ پہلے ان آنکھوں آگے کیا کیا نہ نظارا گزرے تھا

ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن نہ تھی تری انجمن سے پہلے

حسرت دید میں گزراں ہیں زمانے کب سے

گرانئ شب ہجراں دو چند کیا کرتے

تیری صورت جو دل نشیں کی ہے

ہم سادہ ہی ایسے تھے کی یوں ہی پذیرائی

ستم سکھلائے گا رسم وفا ایسے نہیں ہوتا

تجھے پکارا ہے بے ارادہ

یاد غزال چشماں ذکر سمن عذاراں

شفق کی راکھ میں جل بجھ گیا ستارۂ شام (ردیف .. ے)

شرح فراق مدح لب مشکبو کریں (ردیف .. ')

یوں بہار آئی ہے اس بار کہ جیسے قاصد (ردیف .. ے)

صبح کی آج جو رنگت ہے وہ پہلے تو نہ تھی (ردیف .. ن)

فکر دل دارئ گلزار کروں یا نہ کروں

کس حرف پہ تو نے گوشۂ لب اے جان جہاں غماز کیا

سہل یوں راہ زندگی کی ہے

یاد کا پھر کوئی دروازہ کھلا آخر شب (ردیف .. ')

ہر سمت پریشاں تری آمد کے قرینے

وہ عہد غم کی کاہش ہائے بے حاصل کو کیا سمجھے

کس شہر نہ شہرہ ہوا نادانئ دل کا

پھر آئینۂ عالم شاید کہ نکھر جائے

وہیں ہیں دل کے قرائن تمام کہتے ہیں

کسی گماں پہ توقع زیادہ رکھتے ہیں

کیے آرزو سے پیماں جو مآل تک نہ پہنچے

یہ موسم گل گرچہ طرب خیز بہت ہے

شاخ پر خون گل رواں ہے وہی

پھر لوٹا ہے خورشید جہاں تاب سفر سے

کچھ دن سے انتظار سوال دگر میں ہے

عجز اہل ستم کی بات کرو

شرح بے دردئ حالات نہ ہونے پائی

غم بہ دل شکر بہ لب مست و غزل خواں چلیے

جیسے ہم بزم ہیں پھر یار طرح دار سے ہم

یک بیک شورش فغاں کی طرح

قند دہن کچھ اس سے زیادہ

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے

گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے

آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے

ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے

''آپ کی یاد آتی رہی رات بھر'' (ردیف .. ر)

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے

راز الفت چھپا کے دیکھ لیا

شام فراق اب نہ پوچھ آئی اور آ کے ٹل گئی

کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی

کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں کب ہات میں تیرا ہات نہیں

دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں

نصیب آزمانے کے دن آ رہے ہیں

تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں

ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے

نہ گنواؤ ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا

کب تک دل کی خیر منائیں کب تک رہ دکھلاؤ گے

بات بس سے نکل چلی ہے

رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام

تری امید ترا انتظار جب سے ہے

وفائے وعدہ نہیں وعدۂ دگر بھی نہیں

ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے

وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوف خدا گیا

آج یوں موج در موج غم تھم گیا اس طرح غم زدوں کو قرار آ گیا

ہر حقیقت مجاز ہو جائے

سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں

اب جو کوئی پوچھے بھی تو اس سے کیا شرح حالات کریں

ہم مسافر یوں ہی مصروف سفر جائیں گے

ہمت التجا نہیں باقی

نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی (ردیف .. ا)

سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا سبھی راحتیں سبھی کلفتیں

اب وہی حرف جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے

چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا

قرض نگاہ یار ادا کر چکے ہیں ہم

شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی

یوں سجا چاند کہ جھلکا ترے انداز کا رنگ

گرمئ شوق نظارہ کا اثر تو دیکھو

اب کے برس دستور ستم میں کیا کیا باب ایزاد ہوئے

یہ جفائے غم کا چارہ وہ نجات دل کا عالم

یہ کس خلش نے پھر اس دل میں آشیانہ کیا

کبھی کبھی یاد میں ابھرتے ہیں نقش ماضی مٹے مٹے سے

رہ خزاں میں تلاش بہار کرتے رہے

عشق منت کش قرار نہیں

پھر حریف بہار ہو بیٹھے

گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا

کئی بار اس کا دامن بھر دیا حسن دو عالم سے (ردیف .. ی)

دربار میں اب سطوت شاہی کی علامت (ردیف .. ے)

ہمیں سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی

جمے گی کیسے بساط یاراں کہ شیشہ و جام بجھ گئے ہیں

کچھ محتسبوں کی خلوت میں کچھ واعظ کے گھر جاتی ہے

چشم میگوں ذرا ادھر کر دے

حیراں ہے جبیں آج کدھر سجدہ روا ہے

نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی نہ کسی کو فکر رفو کی ہے

حسن مرہون جوش بادۂ ناز

کچھ پہلے ان آنکھوں آگے کیا کیا نہ نظارا گزرے تھا

ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن نہ تھی تری انجمن سے پہلے

حسرت دید میں گزراں ہیں زمانے کب سے

گرانئ شب ہجراں دو چند کیا کرتے

تیری صورت جو دل نشیں کی ہے

ہم سادہ ہی ایسے تھے کی یوں ہی پذیرائی

ستم سکھلائے گا رسم وفا ایسے نہیں ہوتا

تجھے پکارا ہے بے ارادہ

یاد غزال چشماں ذکر سمن عذاراں

شفق کی راکھ میں جل بجھ گیا ستارۂ شام (ردیف .. ے)

شرح فراق مدح لب مشکبو کریں (ردیف .. ')

یوں بہار آئی ہے اس بار کہ جیسے قاصد (ردیف .. ے)

صبح کی آج جو رنگت ہے وہ پہلے تو نہ تھی (ردیف .. ن)

فکر دل دارئ گلزار کروں یا نہ کروں

کس حرف پہ تو نے گوشۂ لب اے جان جہاں غماز کیا

سہل یوں راہ زندگی کی ہے

یاد کا پھر کوئی دروازہ کھلا آخر شب (ردیف .. ')

ہر سمت پریشاں تری آمد کے قرینے

وہ عہد غم کی کاہش ہائے بے حاصل کو کیا سمجھے

کس شہر نہ شہرہ ہوا نادانئ دل کا

پھر آئینۂ عالم شاید کہ نکھر جائے

وہیں ہیں دل کے قرائن تمام کہتے ہیں

کسی گماں پہ توقع زیادہ رکھتے ہیں

کیے آرزو سے پیماں جو مآل تک نہ پہنچے

یہ موسم گل گرچہ طرب خیز بہت ہے

شاخ پر خون گل رواں ہے وہی

پھر لوٹا ہے خورشید جہاں تاب سفر سے

کچھ دن سے انتظار سوال دگر میں ہے

عجز اہل ستم کی بات کرو

شرح بے دردئ حالات نہ ہونے پائی

غم بہ دل شکر بہ لب مست و غزل خواں چلیے

جیسے ہم بزم ہیں پھر یار طرح دار سے ہم

یک بیک شورش فغاں کی طرح

قند دہن کچھ اس سے زیادہ

Pakistanify News Subscription

X