ظفر اقبال

1933
لاہور, پاکستان
ممتاز ترین جدید شاعروں میں معروف ۔ رجحان سازشاعر
خامشی اچھی نہیں انکار ہونا چاہئے

تھکنا بھی لازمی تھا کچھ کام کرتے کرتے

بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا

یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا

نہیں کہ تیرے اشارے نہیں سمجھتا ہوں

ابھی کسی کے نہ میرے کہے سے گزرے گا

جیسی اب ہے اسی حالت میں نہیں رہ سکتا

ابھی آنکھیں کھلی ہیں اور کیا کیا دیکھنے کو

کب وہ ظاہر ہوگا اور حیران کر دے گا مجھے

یوں بھی ہوتا ہے کہ یک دم کوئی اچھا لگ جائے

آگ کا رشتہ نکل آئے کوئی پانی کے ساتھ

بات ایسی بھی کوئی نہیں کہ محبت بہت زیادہ ہے

خوشی ملی تو یہ عالم تھا بدحواسی کا

یکسو بھی لگ رہا ہوں بکھرنے کے باوجود

پائے ہوئے اس وقت کو کھونا ہی بہت ہے

یوں بھی نہیں کہ شام و سحر انتظار تھا

یہ بھی ممکن ہے کہ آنکھیں ہوں تماشا ہی نہ ہو

دیکھو تو کچھ زیاں نہیں کھونے کے باوجود

کس نئے خواب میں رہتا ہوں ڈبویا ہوا میں

سمٹنے کی ہوس کیا تھی بکھرنا کس لیے ہے

میں نے کب دعویٰ کیا تھا سر بسر باقی ہوں میں

نہ اس کو بھول پائے ہیں نہ ہم نے یاد رکھا ہے

خوش بہت پھرتے ہیں وہ گھر میں تماشا کر کے

یہ بات الگ ہے مرا قاتل بھی وہی تھا

بے وفائی کرکے نکلوں یا وفا کر جاؤں گا

بھول بیٹھا تھا مگر یاد بھی خود میں نے کیا

اگر اس کھیل میں اب وہ بھی شامل ہونے والا ہے

ایک ہی بار نہیں ہے وہ دوبارہ کم ہے

ابھی تو کرنا پڑے گا سفر دوبارہ مجھے

لہر کی طرح کنارے سے اچھل جانا ہے

کبھی اول نظر آنا کبھی آخر ہونا

کھڑکیاں کس طرح کی ہیں اور در کیسا ہے وہ

چھپا ہوا جو نمودار سے نکل آیا

چلو اتنی تو آسانی رہے گی

میرے اندر وہ میرے سوا کون تھا

یوں تو کس چیز کی کمی ہے

کچھ نہیں سمجھا ہوں اتنا مختصر پیغام تھا

نہیں کہ دل میں ہمیشہ خوشی بہت آئی

دریا دور نہیں اور پیاسا رہ سکتا ہوں

بجلی گری ہے کل کسی اجڑے مکان پر

صرف آنکھیں تھیں ابھی ان میں اشارے نہیں تھے

جو بندۂ خدا تھا خدا ہونے والا ہے

کچھ سبب ہی نہ بنے بات بڑھا دینے کا

بہت سلجھی ہوئی باتوں کو بھی الجھائے رکھتے ہیں

ایسا وہ بے شمار و قطار انتظار تھا

ہمیں بھی مطلب و معنی کی جستجو ہے بہت

نہ گماں رہنے دیا ہے نہ یقیں رہنے دیا

لرزش پردۂ اظہار کا مطلب کیا ہے

رخ زیبا ادھر نہیں کرتا

یہ نہیں کہتا کہ دوبارہ وہی آواز دے

وہ ایک طرح سے اقرار کرنے آیا تھا

ویراں تھی رات چاند کا پتھر سیاہ تھا

جس نے نفرت ہی مجھے دی نہ ظفرؔ پیار دیا

تقاضا ہو چکی ہے اور تمنا ہو رہا ہے

الزام ایک یہ بھی اٹھا لینا چاہیئے

جو ناروا تھا اس کو روا کرنے آیا ہوں

دل کا یہ دشت عرصۂ محشر لگا مجھے

زمیں پہ ایڑی رگڑ کے پانی نکالتا ہوں

یہاں سب سے الگ سب سے جدا ہونا تھا مجھ کو

ترے آسماں کی زمیں ہو گیا ہوں

ملوں اس سے تو ملنے کی نشانی مانگ لیتا ہوں

یقیں کی خاک اڑاتے گماں بناتے ہیں

نہ کوئی بات کہنی ہے نہ کوئی کام کرنا ہے

اپنے انکار کے برعکس برابر کوئی تھا

رفتہ رفتہ لگ چکے تھے ہم بھی دیواروں کے ساتھ

زندہ بھی خلق میں ہوں مرا بھی ہوا ہوں میں

عجب کوئی زور بیاں ہو گیا ہوں

ظفرؔ فسانوں کہ داستانوں میں رہ گئے ہیں

بدلہ یہ لیا حسرت اظہار سے ہم نے

کفر سے یہ جو منور مری پیشانی ہے

ترے راستوں سے جبھی گزر نہیں کر رہا

اگر کبھی ترے آزار سے نکلتا ہوں

مسترد ہو گیا جب تیرا قبولا ہوا میں

پریوں ایسا روپ ہے جس کا لڑکوں ایسا ناؤں

شب بھر رواں رہی گل مہتاب کی مہک

چمکتی وسعتوں میں جو گل صحرا کھلا ہے

بکھر بکھر گئے الفاظ سے ادا نہ ہوئے

کھینچ لائی ہے یہاں لذت آزار مجھے

جہاں نگار سحر پیرہن اتارتی ہے

سوچتا ہوں کہ اپنی رضا کے لیے چھوڑ دوں

ہے اور بات بہت میری بات سے آگے

گرنے کی طرح کا نہ سنبھلنے کی طرح کا

آتش و انجماد ہے مجھ میں

بظاہر صحت اچھی ہے جو بیماری زیادہ ہے

جہاں لمحۂ شام بکھیر دیا

اتنا ٹھہرا ہوا ماحول بدلنا پڑ جائے

سفر کٹھن ہی سہی جان سے گزرنا کیا

اٹھ اور پھر سے روانہ ہو ڈر زیادہ نہیں

کچھ بھی نہ اس کی زینت و زیبائی سے ہوا

ہمارے سر سے وہ طوفاں کہیں گزر گئے ہیں

دریائے تند موج کو صحرا بتائیے

کسی نئی طرح کی روانی میں جا رہا تھا

کیسی رکی ہوئی تھی روانی مری طرف

بینائی سے باہر کبھی اندر مجھے دیکھے

ایک ہی نقش ہے جتنا بھی جہاں رہ جائے

نہ گھاٹ ہے کوئی اپنا نہ گھر ہمارا ہوا

دل کو رہین بند قبا مت کیا کرو

چمکے گا ابھی میرے خیالات سے آگے

ہے کوئی اختیار دنیا پر

پھر کوئی شکل نظر آنے لگی پانی پر

کھڑی ہے شام کہ خواب سفر رکا ہوا ہے

رہ رہ کے زبانی کبھی تحریر سے ہم نے

اسے منظور نہیں چھوڑ جھگڑتا کیا ہے

ہم نے آواز نہ دی برگ و نوا ہوتے ہوئے

کچھ دنوں سے جو طبیعت مری یکسو کم ہے

ایسی کوئی درپیش ہوا آئی ہمارے

ہزار بندش اوقات سے نکلتا ہے

ملا تو منزل جاں میں اتارنے نہ دیا

ہوا بدل گئی اس بے وفا کے ہونے سے

مرے نشان بہت ہیں جہاں بھی ہوتا ہوں

موسم کا ہاتھ ہے نہ ہوا ہے خلاؤں میں

حد ہو چکی ہے شرم شکیبائی ختم ہو

دن پر سوچ سلگتی ہے یا کبھی رات کے بارے میں

جہاں میرے نہ ہونے کا نشاں پھیلا ہوا ہے

ایماں کے ساتھ خامی ایماں بھی چاہئے

کچھ اس نے سوچا تو تھا مگر کام کر دیا تھا

ہوائے وادئ دشوار سے نہیں رکتا

پتا چلا کوئی گرداب سے گزرتے ہوئے

پیدا یہ غبار کیوں ہوا ہے

کوئی کنایہ کہیں اور بات کرتے ہوئے

یہ زمین آسمان کا ممکن

طلسم ہوشربا میں پتنگ اڑتی ہے

کشتی ہوس ہواؤں کے رخ پر اتار دے

نہ کوئی زخم لگا ہے نہ کوئی داغ پڑا ہے

مقبول عوام ہو گیا میں

وہی مرے خس و خاشاک سے نکلتا ہے

میں بھی شریک مرگ ہوں مر میرے سامنے

یوں تو ہے زیر نظر ہر ماجرا دیکھا ہوا

جسم کے ریگزار میں شام و سحر صدا کروں

لب پہ تکریم تمنائے سبک پائی ہے

ترے لبوں پہ اگر سرخی وفا ہی نہیں

میں زرد آگ نہ پانی کے سرد ڈر میں رہا

اسی سے آئے ہیں آشوب آسماں والے

حسن کے انکار سے بھی کچھ تو پردہ رہ گیا

یوں بھی نہیں کہ دل میں کوئی غم نہیں رہا

کس کو خبر تھی وہ بھی مرا یار ہوئے گا

تری منزل غم کا غماز تھا

Pakistanify News Subscription

X