مرزا غالب

1797 - 1869
دلی, انڈیا
عظیم شاعر۔ عالمی ادب میں اردو کی آواز۔ خواص و عوام دونوں میں مقبول۔
تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھو (ردیف .. ے)

عہدے سے مدح ناز کے باہر نہ آ سکا (ردیف .. ن)

کوہ کے ہوں بار خاطر گر صدا ہو جائیے

صفاۓ حیرت آئینہ ہے سامان زنگ آخر

حسن بے پروا خریدار متاع جلوہ ہے

نہ لیوے گر خس جوہر طراوت سبزۂ خط سے (ردیف .. ش)

ز بسکہ مشق تماشا جنوں علامت ہے

لب عیسیٰ کی جنبش کرتی ہے گہوارہ جنبانی (ردیف .. ے)

جنوں تہمت کش تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی

نشہ ‌ہا شاداب رنگ و ساز ‌ہا مست طرب (ردیف .. ے)

کرے ہے بادہ ترے لب سے کسب رنگ فروغ (ردیف .. ے)

نکوہش ہے سزا فریادی بے داد دلبر کی

رحم کر ظالم کہ کیا بود چراغ کشتہ ہے

ستم کش مصلحت سے ہوں کہ خوباں تجھ پہ عاشق ہیں (ردیف .. ر)

ہجوم نالہ حیرت عاجز عرض یک افغاں ہے

ہوں میں بھی تماشائی نیرنگ تمنا (ردیف .. ے)

رخ نگار سے ہے سوز جاودانی شمع

جادۂ رہ خور کو وقت شام ہے تار شعاع

کارگاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے

سیماب پشت گرمی آئینہ دے ہے ہم (ردیف .. ے)

پا بہ دامن ہو رہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد (ردیف .. ے)

نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے در خور مرے تن میں

گلشن میں بندوبست بہ رنگ دگر ہے آج

گلشن کو تری صحبت از بس کہ خوش آئی ہے

خطر ہے رشتۂ الفت رگ گردن نہ ہو جاوے

شب کہ وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا

وسعت سعی کرم دیکھ کہ سر تا سر خاک (ردیف .. ز)

مری ہستی فضاۓ حیرت آباد تمنا ہے

لب خشک در تشنگی مردگاں کا

زمانہ سخت کم آزار ہے بہ جان اسدؔ (ردیف .. ن)

تپش سے میری وقف کشمکش ہر تار بستر ہے

ہجوم غم سے یاں تک سرنگونی مجھ کو حاصل ہے

مت مردمک دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں

لوں وام بخت خفتہ سے یک خواب خوش ولے (ردیف .. ن)

فارغ مجھے نہ جان کہ مانند صبح و مہر (ردیف .. ز)

جراحت تحفہ الماس ارمغاں داغ جگر ہدیہ (ردیف .. ا)

جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی (ردیف .. ر)

حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرم تماشا ہو

غافل بہ وہم ناز خود آرا ہے ورنہ یاں (ردیف .. ا)

قطرۂ مے بسکہ حیرت سے نفس پرور ہوا

کیوں نہ ہو چشم بتاں محو تغافل کیوں نہ ہو (ردیف .. ے)

سراپا رہن عشق و نا گزیر الفت ہستی (ردیف .. ا)

ہو گئی ہے غیر کی شیریں بیانی کارگر (ردیف .. ن)

مستی بہ ذوق غفلت ساقی ہلاک ہے

شب کہ برق سوز دل سے زہرۂ ابر آب تھا

پئے نذر کرم تحفہ ہے شرم نا رسائی کا

سرمۂ مفت نظر ہوں مری قیمت یہ ہے (ردیف .. ا)

جنوں تہمت کش تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی

برشکال گریۂ عاشق ہے دیکھا چاہیے (ردیف .. ن)

خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے

نہ پوچھ نسخۂ مرہم جراحت دل کا (ردیف .. ے)

خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے

شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا

یاد ہے شادی میں بھی ہنگامۂ یا رب مجھے

ہے وصل ہجر عالم تمکین و ضبط میں (ردیف .. ے)

ہے سبزہ زار ہر در و دیوار غم کدہ (ردیف .. ھ)

بہ نالہ حاصل دل بستگی فراہم کر (ردیف .. م)

غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس (ردیف .. م)

چشم خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے

لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی (ردیف .. ا)

بیم رقیب سے نہیں کرتے وداع ہوش (ردیف .. ف)

گر نہ اندوہ شب فرقت بیاں ہو جائے گا

عرض ناز شوخیٔ دنداں برائے خندہ ہے

از مہر تا بہ ذرہ دل و دل ہے آئنہ

ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے

قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشت قیس میں آنا (ردیف .. ن)

دل لگا کر لگ گیا ان کو بھی تنہا بیٹھنا (ردیف .. ن)

ایک جا حرف وفا لکھا تھا سو بھی مٹ گیا (ردیف .. ے)

آمد سیلاب طوفان صداۓ آب ہے

باغ پا کر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے

نقش ناز بت طناز بہ آغوش رقیب (ردیف .. ے)

افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے (ردیف .. ت)

شبنم بہ گل لالہ نہ خالی ز ادا ہے

یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا

گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ

آمد خط سے ہوا ہے سرد جو بازار دوست

اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالبؔ (ردیف .. ے)

دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا

جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں

عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا

آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے

نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا

جو نہ نقد داغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی

شب خمار شوق ساقی رستخیز اندازہ تھا

حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی

رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے

ہے بزم بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے

حریف مطلب مشکل نہیں فسون نیاز

نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا

تغافل دوست ہوں میرا دماغ عجز عالی ہے

جس جا نسیم شانہ کش زلف یار ہے

جب بہ تقریب سفر یار نے محمل باندھا

وہ مری چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا

نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ

بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی

گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئ جا کا

تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں

جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی

جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی

لرزتا ہے مرا دل زحمت مہر درخشاں پر

زخم پر چھڑکیں کہاں طفلان بے پروا نمک

ہر قدم دورئ منزل ہے نمایاں مجھ سے

بلا سے ہیں جو یہ پیش نظر در و دیوار

تو دوست کسو کا بھی ستم گر نہ ہوا تھا

گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے

کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے

سرگشتگی میں عالم ہستی سے یاس ہے

وارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو

غم دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی

بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے

دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا

غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں

حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد

ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن

شوق ہر رنگ رقیب سر و ساماں نکلا

نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز

چاہیے اچھوں کو جتنا چاہیے

نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی

کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا

وہ فراق اور وہ وصال کہاں

درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے

آ کہ مری جان کو قرار نہیں ہے

رونے سے اور عشق میں بے باک ہو گئے

پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا

پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے

عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک

رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف (ردیف .. ا)

صد جلوہ رو بہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے

ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب (ردیف .. ا)

جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار (ردیف .. ا)

آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے (ردیف .. ا)

پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موج شراب

گرم فریاد رکھا شکل نہالی نے مجھے

ہے کس قدر ہلاک فریب وفائے گل

مژدہ اے ذوق اسیری کہ نظر آتا ہے (ردیف .. س)

رہا گر کوئی تا قیامت سلامت

مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں

محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا

مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے

دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا

دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے

کبھی نیکی بھی اس کے جی میں گر آ جائے ہے مجھ سے

وہ آ کے خواب میں تسکین اضطراب تو دے

دوست غم خواری میں میری سعی فرماویں گے کیا

عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا

دیکھ کر در پردہ گرم دامن افشانی مجھے

مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں

عشق تاثیر سے نومید نہیں

عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے

فریاد کی کوئی لے نہیں ہے

دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں

نالہ جز حسن طلب اے ستم ایجاد نہیں

ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں

ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا

واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو

ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا

آبرو کیا خاک اس گل کی کہ گلشن میں نہیں

کب وہ سنتا ہے کہانی میری

سادگی پر اس کی مر جانے کی حسرت دل میں ہے

ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے

لو ہم مریض عشق کے بیمار دار ہیں (ردیف .. ج)

مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالبؔ (ردیف .. ت)

واں اس کو ہول دل ہے تو یاں میں ہوں شرم سار (ردیف .. و)

مجھ کو دیار غیر میں مارا وطن سے دور (ردیف .. م)

پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے

گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا (ردیف .. ے)

جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے

کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر

دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی

یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں

مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت (ردیف .. ن)

رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالبؔ (ردیف .. ے)

دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں

ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے

لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھے

تا ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا (ردیف .. ے)

نوید امن ہے بیداد دوست جاں کے لیے

اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گداۓ بے سر و پا ہیں (ردیف .. ا)

ہم پر جفا سے ترک وفا کا گماں نہیں

کل کے لیے کر آج نہ خست شراب میں

کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں

ملتی ہے خوئے یار سے نار التہاب میں

ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا

میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں (ردیف .. ا)

شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے

گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا

تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو

اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے

گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر

ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا

میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں (ردیف .. ے)

کوئی دن گر زندگانی اور ہے

تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے

ابن مریم ہوا کرے کوئی

حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

کوئی امید بر نہیں آتی

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں

کہتے تو ہو تم سب کہ بت غالیہ مو آئے

منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی

حضور شاہ میں اہل سخن کی آزمائش ہے

دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا (ردیف .. ن)

بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا

غم کھانے میں بودا دل ناکام بہت ہے

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور

ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں

نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے

درد منت کش دوا نہ ہوا

قفس میں ہوں گر اچھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو

کہوں جو حال تو کہتے ہو مدعا کہیے

گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیونکر ہو

دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہئے

غیر لیں محفل میں بوسے جام کے

بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

در خور قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا

جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا

کسی کو دے کے دل کوئی نواسنج فغاں کیوں ہو

روندی ہوئی ہے کوکبۂ شہریار کی

کعبہ میں جا رہا تو نہ دو طعنہ کیا کہیں (ردیف .. و)

پھر اس انداز سے بہار آئی

نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں

بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے

کیونکر اس بت سے رکھوں جان عزیز

Pakistanify News Subscription

X