داغؔ دہلوی

1831 - 1905
دلی, انڈیا
مقبول ترین اردو شاعروں میں سے ایک ، شاعری میں برجستگی ، شوخی اور محاوروں کے استعمال کے لئے مشہور
تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا

آپ کا اعتبار کون کرے

عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں

غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا

لے چلا جان مری روٹھ کے جانا تیرا

عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا

بات میری کبھی سنی ہی نہیں

ناروا کہئے ناسزا کہئے

اچھی صورت پہ غضب ٹوٹ کے آنا دل کا

آرزو ہے وفا کرے کوئی

خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا

سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں

ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے

ابھی ہماری محبت کسی کو کیا معلوم

پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

اس نہیں کا کوئی علاج نہیں

تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں

بھویں تنتی ہیں خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں

دل گیا تم نے لیا ہم کیا کریں

رنج کی جب گفتگو ہونے لگی

کہتے ہیں جس کو حور وہ انساں تمہیں تو ہو

غیر کو منہ لگا کے دیکھ لیا

کعبہ کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے

فلک دیتا ہے جن کو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں

دل کو کیا ہو گیا خدا جانے

اب وہ یہ کہہ رہے ہیں مری مان جائیے

کون سا طائر گم گشتہ اسے یاد آیا

سبق ایسا پڑھا دیا تو نے

مجھ سا نہ دے زمانے کو پروردگار دل

وہ زمانہ نظر نہیں آتا

تیری صورت کو دیکھتا ہوں میں

دل چرا کر نظر چرائی ہے

یہ بات بات میں کیا نازکی نکلتی ہے

دل ناکام کے ہیں کام خراب

غم سے کہیں نجات ملے چین پائیں ہم

تم آئینہ ہی نہ ہر بار دیکھتے جاؤ

ساز یہ کینہ ساز کیا جانیں

ان آنکھوں نے کیا کیا تماشا نہ دیکھا

زاہد نہ کہہ بری کہ یہ مستانے آدمی ہیں

عذر ان کی زبان سے نکلا

ادھر دیکھ لینا ادھر دیکھ لینا

صاف کب امتحان لیتے ہیں

اس ادا سے وہ جفا کرتے ہیں

جو ہو سکتا ہے اس سے وہ کسی سے ہو نہیں سکتا

ان کے اک جاں نثار ہم بھی ہیں

دل پریشان ہوا جاتا ہے

ستم ہی کرنا جفا ہی کرنا نگاہ الفت کبھی نہ کرنا

مزے عشق کے کچھ وہی جانتے ہیں

باقی جہاں میں قیس نہ فرہاد رہ گیا

دیکھ کر جوبن ترا کس کس کو حیرانی ہوئی

ہاتھ نکلے اپنے دونوں کام کے

ہوش آتے ہی حسینوں کو قیامت آئی

مجھے اے اہل کعبہ یاد کیا مے خانہ آتا ہے

جلوے مری نگاہ میں کون و مکاں کے ہیں

بتان ماہ وش اجڑی ہوئی منزل میں رہتے ہیں

ڈرتے ہیں چشم و زلف و نگاہ و ادا سے ہم

محبت کا اثر جاتا کہاں ہے

کچھ لاگ کچھ لگاو محبت میں چاہئے

شب وصل ضد میں بسر ہو گئی

ممکن نہیں کہ تیری محبت کی بو نہ ہو

اس قدر ناز ہے کیوں آپ کو یکتائی کا

جب وہ بت ہم کلام ہوتا ہے

راہ پر ان کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں

کھلتا نہیں ہے راز ہمارے بیان سے

جو دل قابو میں ہو تو کوئی رسوائے جہاں کیوں ہو

محبت میں آرام سب چاہتے ہیں

پکارتی ہے خموشی مری فغاں کی طرح

اس کے در تک کسے رسائی ہے

قرینے سے عجب آراستہ قاتل کی محفل ہے

دل مبتلائے لذت آزار ہی رہا

نگاہ شوخ جب اس سے لڑی ہے

ہوا جب سامنا اس خوب رو سے

شب وصل بھی لب پہ آئے گئے ہیں

بھلا ہو پیر مغاں کا ادھر نگاہ ملے

منتوں سے بھی نہ وہ حور شمائل آیا

اس سے کیا خاک ہم نشیں بنتی

پھر شب غم نے مجھے شکل دکھائی کیونکر

پیامی کامیاب آئے نہ آئے

کیا طرز کلام ہو گئی ہے

یہ جو ہے حکم مرے پاس نہ آئے کوئی

رنج کی جب گفتگو ہونے لگی

بت کو بت اور خدا کو جو خدا کہتے ہیں

بتان ماہ وش اجڑی ہوئی منزل میں رہتے ہیں

کیا ہے دیں دار اس صنم کو ہزاروں طوفاں اٹھا اٹھا کر

ناروا کہیے ناسزا کہیے

سو حسرتیں تو آئیں گیا ایک دل گیا

آخر کو عشق کفر سے ایمان ہو گیا

محشر میں بھی کسی کے اٹھائیں گے ناز ہم

مہرباں ہو کے جب ملیں گے آپ

عرش و کرسی پہ کیا خدا ملتا

مطلب کی تم سنو تو ذرا کوئی کچھ کہے

ہم اپنے ہی سر لیں گے مصیبت ہو کسی کی

ذرا وصل پر ہو اشارہ تمہارا

جب کہا اور بھی دنیا میں حسیں اچھے ہیں

کوئی جانے تو کیا جانے وہ یکتا ہے ہزاروں میں

پھر دیکھتے عیش آدمی کا

وہ اس ادا سے وہاں جا کے شرمسار آیا

دعا مانگے دل غمگیں کہاں تک

وہ جو بولیں تو بات جاتی ہے

چھوڑتا مجھ کو نہ بسمل وہ مگر چھوڑ دیا

داغؔ اس بزم میں میہمان کہاں جاتا ہے

کیوں کہا یہ کسی سے کیا مطلب

غم اٹھانے کے واسطے دم ہے

دیر سے کعبے کو ڈرتے ہوئے ہم جاتے ہیں

سچ ہے تیری ہی آرزو مجھ کو

ملتے ہی بے باک تھی وہ آنکھ شرمائی ہوئی

شکوہ نہیں کسی کی ملاقات کا مجھے

اے فلک چاہیئے جی بھر کے نظارہ ہم کو

کیا ملے گا کوئی حسیں نہ کہیں

تجھے نامہ بر قسم ہے وہیں دن سے رات کرنا

راہ پر ان کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں

ذکر میرا اگر آ جاتا ہے

عالم یاس میں گھبرائے نہ انسان بہت

ایک طوفاں ہے غم عشق میں رونا کیا ہے

آئے بھی تو وہ منہ کو چھپائے مرے آگے

غم اٹھانے کے ہیں ہزار طریق

طبیعت کوئی دن میں بھر جائے گی

کیوں کرتے ہو دنیا کی ہر اک بات سے توبہ

دیکھا نہ ہم نے رشک سے اغیار کی طرف

فتنہ گر کیا مکان سے نکلا

سب سے تم اچھے ہو تم سے مری قسمت اچھی

شمع روشن ہے ہماری آہ سے

پھرا پیامبر اپنا خراب رستے میں

چھک گئے ہیں آج اک ساغر سے ہم

غربت کے رنج فاقہ کشی کے ملال کھینچ

تلوار تری رواں بہت ہے

دل لے چلا ہے باندھ کے دل بر کے روبرو

کافر وہ زلف پر شکن ایک اس طرف ایک اس طرف

سودا ہے جو دل دے کے خریدار سے الجھے

غم اس پر آشکار کیا ہم نے کیا کیا

طرز قدسی میں کبھی شیوۂ انساں میں کبھی

جب مئے لالہ فام ہوتی ہے

گرہ جو پڑ گئی رنجش میں وہ مشکل سے نکلے گی

کیا چاک‌ کیا تو نے مری جاں مرے دل کو

عاشق کے دل میں اور تری آرزو نہ ہو

کیا کیا فریب دل کو دیے اضطراب میں

کیوں نہ جہاں میں ہو عیاں عیب و ہنر الگ الگ

شوق ہے اس کو خود نمائی کا

دل مکدر مدام کا نکلا

خوب ہی چلتی ہوئی وہ نرگس مستانہ ہے

تجھ سے کیا نسبت کہ تھے لیلیٰ کے کالے ہاتھ پاؤں

بیکسیٔ شب ہجراں کی مجھے تاب نہیں

یوں برس پڑتے ہیں کیا ایسے وفاداروں پر

ہیں بہت سے عاشق دلگیر جمع

تیرے کوچے میں جو ہم با دیدۂ تر بیٹھتے

یوں وہ پیغام سے تو آئے گا

ہوا جو ان کی خموشی سے کچھ ملال مجھے

برسوں آنکھوں میں رہے آنکھوں سے پھر کر دل میں آئے (ردیف .. پ)

وصل کی آرزو کئے نہ بنی

چاک‌ ہو پردۂ وحشت مجھے منظور نہیں

جائے آسودگی کہاں ہے آج

جور کے بعد ہے کیوں لطف یہ عادت کیا ہے

ساقیا ابر ہے دے جام شتاب ایک پر ایک

مجال کس کی ہے اے ستم گر سنائے تجھ کو جو چار باتیں

اپنی نظر میں ہیچ ہے سارے جہاں کی سیر

غیر ہو ناشاد کیوں کیسی کہی

ہے طرفہ تماشہ سر بازار محبت

پوشیدہ جب ہو راز کہ منہ میں زباں نہ ہو

کسی کی نرگس مخمور کچھ کہہ دے اشاروں میں

گر میرے بت ہوش ربا کو نہیں دیکھا

کر نہ لے اپنا ٹھکانہ دشمن

جفا پر جان دیتے ہیں ستم پر تیرے مرتے ہیں

اول تو رہے دور وہ نالوں سے ہمارے

کب بات ہو بغیر خوشامد وہاں درست

قول تیرا شوق میرا چاہیئے

میرے ہی دم سے مہر و وفا کا نشاں ہے اب

کچھ اور دل لگی نہیں اس بد نصیب سے

دل بے تاب مرا وہ نہ پھنسانے پائے

میرے رونے پر جو رویا آدمی فہمیدہ ہے

بھویں تنتی ہیں خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں

دل میں ہے غم و رنج و الم حرص و ہوا بند

رشک سے غیروں کے جی کھوتے ہیں ہم

بزم سے آخر شب ہے سفر جام شراب

سوز و گداز عشق کا لذت چشیدہ ہوں

نامہ بر کہتا ہے اب لاتا ہوں دل بر کا جواب

نفرت ہے حرف وصل سے اچھا یوہیں سہی

Pakistanify News Subscription

X