میر تقی میر

1723 - 1810
دلی, انڈیا
اردو کے پہلے عظیم شاعر جنہیں ’ خدائے سخن ‘ کہا جاتا ہے
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

ہستی اپنی حباب کی سی ہے

دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے

کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق

فقیرانہ آئے صدا کر چلے

یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا

راہ دور عشق میں روتا ہے کیا

زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت

کیا حقیقت کہوں کہ کیا ہے عشق

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا

غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا

آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں

بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو

ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا

آئے ہیں میرؔ کافر ہو کر خدا کے گھر میں

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے

جن کے لیے اپنے تو یوں جان نکلتے ہیں

چلتے ہو تو چمن کو چلئے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے

بارہا گور دل جھنکا لایا

جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے

جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا

عمر بھر ہم رہے شرابی سے

تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا

منہ تکا ہی کرے ہے جس تس کا

آوے گی میری قبر سے آواز میرے بعد

آئے ہیں میرؔ منہ کو بنائے خفا سے آج

اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا

آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں

باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا

رہی نگفتہ مرے دل میں داستاں میری

عشق میں ذلت ہوئی خفت ہوئی تہمت ہوئی

اب جو اک حسرت جوانی ہے

جیتے جی کوچۂ دل دار سے جایا نہ گیا

ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں

آہ جس وقت سر اٹھاتی ہے

میرؔ دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی

اس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا

عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا

بنی تھی کچھ اک اس سے مدت کے بعد

ہوتا ہے یاں جہاں میں ہر روز و شب تماشا

غصے سے اٹھ چلے ہو تو دامن کو جھاڑ کر

برنگ بوئے گل اس باغ کے ہم آشنا ہوتے

مکہ گیا مدینہ گیا کربلا گیا

دل بیتاب آفت ہے بلا ہے

اس کا خیال چشم سے شب خواب لے گیا

شعر کے پردے میں میں نے غم سنایا ہے بہت

جب رونے بیٹھتا ہوں تب کیا کسر رہے ہے

کچھ موج ہوا پیچاں اے میرؔ نظر آئی

جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے

تا بہ مقدور انتظار کیا

آگے جمال یار کے معذور ہو گیا

آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا

میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں

عام حکم شراب کرتا ہوں

لذت سے نہیں خالی جانوں کا کھپا جانا

رنج کھینچے تھے داغ کھائے تھے

چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا

آؤ کبھو تو پاس ہمارے بھی ناز سے

پیری میں کیا جوانی کے موسم کو روئیے

آج کل بے قرار ہیں ہم بھی

کچھ کرو فکر مجھ دوانے کی

گل کو محبوب ہم قیاس کیا

یار نے ہم سے بے ادائی کی

ادھر سے ابر اٹھ کر جو گیا ہے

امیروں تک رسائی ہو چکی بس

عالم میں کوئی دل کا طلب گار نہ پایا

گرچہ کب دیکھتے ہو پر دیکھو

شب درد و غم سے عرصہ مرے جی پہ تنگ تھا

دل بہم پہنچا بدن میں تب سے سارا تن جلا

رفتگاں میں جہاں کے ہم بھی ہیں

غم اس کو ساری رات سنایا تو کیا ہوا

سحر گہہ‌ عید میں دور سبو تھا

اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہوگا

ہوتی ہے گرچہ کہنے سے یارو پرائی بات

میرے سنگ مزار پر فرہاد

دل جو زیر غبار اکثر تھا

اب نہیں سینے میں میرے جائے داغ

عشق کیا کیا آفتیں لاتا رہا

غالب کہ یہ دل خستہ شب ہجر میں مر جائے

جو تو ہی صنم ہم سے بے زار ہوگا

دل گئے آفت آئی جانوں پر

ہم ہیں مجروح ماجرا ہے یہ

تیرا رخ مخطط قرآن ہے ہمارا

کوفت سے جان لب پہ آئی ہے

آہ اور اشک ہی سدا ہے یاں

چھٹتا ہی نہیں ہو جسے آزار محبت

کیا کروں شرح خستہ جانی کی

جی میں ہے یاد رخ و زلف سیہ فام بہت

عشق میں کچھ نہیں دوا سے نفع

بے یار شہر دل کا ویران ہو رہا ہے

کاش اٹھیں ہم بھی گنہ گاروں کے بیچ

غزل میرؔ کی کب پڑھائی نہیں

اب آنکھوں میں خوں دم بہ دم دیکھتے ہیں

ہو گئی شہر شہر رسوائی

چوری میں دل کی وہ ہنر کر گیا

کیا کہوں کیسا ستم غفلت سے مجھ پر ہو گیا

اندوہ سے ہوئی نہ رہائی تمام شب

لب ترے لعل ناب ہیں دونوں

درد و اندوہ میں ٹھہرا جو رہا میں ہی ہوں

آگے ہمارے عہد سے وحشت کو جا نہ تھی

ہے غزل میرؔ یہ شفائیؔ کی

شاید اس سادہ نے رکھا ہے خط

جھمکے دکھا کے طور کو جن نے جلا دیا

کیا موافق ہو دوا عشق کے بیمار کے ساتھ

کیا میں بھی پریشانیٔ خاطر سے قریں تھا

جو کہو تم سو ہے بجا صاحب

اب حال اپنا اس کے ہے دل خواہ

برقع اٹھا تھا رخ سے مرے بد گمان کا

کچھ تو کہہ وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے

بزم میں جو ترا ظہور نہیں

جس جگہ دور جام ہوتا ہے

کیا کہیے کیا رکھیں ہیں ہم تجھ سے یار خواہش

کیا لڑکے دلی کے ہیں عیار اور نٹ کھٹ

نا کسی سے پاس میرے یار کا آنا گیا

سخن مشتاق ہے عالم ہمارا

چھاتی جلا کرے ہے سوز دروں بلا ہے

عشق میں نے خوف و خطر چاہیے

جو دیکھو مرے شعر تر کی طرف

گئے جی سے چھوٹے بتوں کی جفا سے

یا رب کوئی ہو عشق کا بیمار نہ ہووے

شب شمع پر پتنگ کے آنے کو عشق ہے

مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا

ہر ذی حیات کا ہے سبب جو حیات کا

شکوہ کروں میں کب تک اس اپنے مہرباں کا

لڑ کے پھر آئے ڈر گئے شاید

جفائیں دیکھ لیاں بے وفائیاں دیکھیں

نکلے ہے چشمہ جو کوئی جوش زناں پانی کا

نہ پوچھ خواب زلیخا نے کیا خیال لیا

اے گل نو دمیدہ کے مانند

دل جو تھا اک آبلہ پھوٹا گیا

محبت کا جب روز بازار ہوگا

دو دن سے کچھ بنی تھی سو پھر شب بگڑ گئی

پائے خطاب کیا کیا دیکھے عتاب کیا کیا

دیکھے گا جو تجھ رو کو سو حیران رہے گا

رات گزرے ہے مجھے نزع میں روتے روتے

کرے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے

خاطر کرے ہے جمع وہ ہر بار ایک طرح

کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو

تیر جو اس کمان سے نکلا

ایسا ترا رہ گزر نہ ہوگا

کب تک تو امتحاں میں مجھ سے جدا رہے گا

اے ابر تر تو اور کسی سمت کو برس

گل شرم سے بہہ جائے گا گلشن میں ہو کر آب سا

بند قبا کو خوباں جس وقت وا کریں گے

گل و بلبل بہار میں دیکھا

ہم سے کچھ آگے زمانے میں ہوا کیا کیا کچھ

یہ میرؔ ستم کشتہ کسو وقت جواں تھا

پل میں جہاں کو دیکھتے میرے ڈبو چکا

اب کے بھی سیر باغ کی جی میں ہوس رہی

گرمی سے میں تو آتش غم کی پگھل گیا

مشہور ہیں دنوں کی مرے بے قراریاں

دیر و حرم سے گزرے اب دل ہے گھر ہمارا

ناز چمن وہی ہے بلبل سے گو خزاں ہے

ویسا کہاں ہے ہم سے جیسا کہ آگے تھا تو

دہر بھی میرؔ طرفہ مقتل ہے

فلک کرنے کے قابل آسماں ہے

ڈھب ہیں تیرے سے باغ میں گل کے

نالۂ عجز نقص الفت ہے

دن نہیں رات نہیں صبح نہیں شام نہیں

کعبے میں جاں بہ لب تھے ہم دوریٔ بتاں سے

اب میرؔ جی تو اچھے زندیق ہی بن بیٹھے

دامن وسیع تھا تو کاہے کو چشم ترسا

جو یہ دل ہے تو کیا سرانجام ہوگا

دل سے شوق رخ نکو نہ گیا

مر رہتے جو گل بن تو سارا یہ خلل جاتا

یکسو کشادہ روی پر چیں نہیں جبیں بھی

یوں ہی حیران و خفا جوں غنچۂ تصویر ہوں

ادھر آ کر شکار افگن ہمارا

وحشت تھی ہمیں بھی وہی گھر بار سے اب تک

جب جنوں سے ہمیں توسل تھا

کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا

کیا مصیبت زدہ دل مائل آزار نہ تھا

فصل خزاں میں سیر جو کی ہم نے جائے گل

مشکل ہے ہونا روکش رخسار کی جھلک کے

دل و دماغ ہے اب کس کو زندگانی کا

کس شام سے اٹھا تھا مرے دل میں درد سا

مر مر گئے نظر کر اس کے برہنہ تن میں

وہ دیکھنے ہمیں ٹک بیماری میں نہ آیا

کیا کہیں اپنی اس کی شب کی بات

غلط ہے عشق میں اے بوالہوس اندیشہ راحت کا

یار میرا بہت ہے یار فریب

مجھ سا بیتاب ہووے جب کوئی

کیا کہیں آتش ہجراں سے گلے جاتے ہیں

کہتے ہیں بہار آئی گل پھول نکلتے ہیں

کیا کیا بیٹھے بگڑ بگڑ تم پر ہم تم سے بنائے گئے

بیتابیوں میں تنگ ہم آئے ہیں جان سے

مشہور چمن میں تری گل پیرہنی ہے

بھلا ہوگا کچھ اک احوال اس سے یا برا ہوگا

کہے ہے کوہ کن کر فکر میری خستہ حالی میں

چاک پر چاک ہوا جوں جوں سلایا ہم نے

واں وہ تو گھر سے اپنے پی کر شراب نکلا

سنا ہے حال ترے کشتگاں بیچاروں کا

نہ پھر رکھیں گے تیری رہ میں پا ہم

پھر اس سے طرح کچھ جو دعوے کی سی ڈالی ہے

سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اس نخچیر کا

آہ کے تیں دل حیران و خفا کو سونپا

کیا مرے آنے پہ تو اے بت مغرور گیا

کل شب ہجراں تھی لب پر نالہ بیمارانہ تھا

رہے خیال تنک ہم بھی رو سیاہوں کا

ہم بھی پھرتے ہیں یک حشم لے کر

جوشش اشک سے ہوں آٹھ پہر پانی میں

پیغام غم جگر کا گلزار تک نہ پہنچا

رات پیاسا تھا میرے لوہو کا

غیروں سے مل چلے تم مست شراب ہو کر

ہر دم طرف ہے ویسے مزاج کرخت کا

نہ گیا خیال زلف سیہ جفا شعاراں

ہنستے ہو روتے دیکھ کر غم سے

ہے حال جائے گریہ جاں پر آرزو کا

سوزش دل سے مفت گلتے ہیں

سمجھے تھے میرؔ ہم کہ یہ ناسور کم ہوا

فلک نے گر کیا رخصت مجھے سیر بیاباں کو

ترے عشق میں آگے سودا ہوا تھا

رات سے آنسو مری آنکھوں میں پھر آنے لگا

ہم نے جانا تھا سخن ہوں گے زباں پر کتنے

رمق ایک جان وبال ہے کوئی دم جو ہے تو عذاب ہے

مانند شمع مجلس شب اشکبار پایا

دزدیدہ نگہ کرنا پھر آنکھ ملانا بھی

گلا نہیں ہے ہمیں اپنی جاں گدازی کا

دل صاف ہو تو جلوہ گہہ یار کیوں نہ ہو

گزر جان سے اور ڈر کچھ نہیں

شوق ہے تو ہے اس کا گھر نزدیک

جب ہم کلام ہم سے ہوتا ہے پان کھا کر

تاب دل صرف جدائی ہو چکی

دل عشق کا ہمیشہ حریف نبرد تھا

دل میں بھرا ز بسکہ خیال شراب تھا

موے سہتے سہتے جفا کاریاں

تنگ آئے ہیں دل اس جی سے اٹھا بیٹھیں گے

شیخ جی آؤ مصلیٰ گرو جام کرو

کئی دن سلوک وداع کا مرے در پے دل زار تھا

گرم ہیں شور سے تجھ حسن کے بازار کئی

نہیں وسواس جی گنوانے کے

شہر سے یار سوار ہوا جو سواد میں خوب غبار ہے آج

موسم گل آیا ہے یارو کچھ میری تدبیر کرو

جانا کہ شغل رکھتے ہو تیر و کماں سے تم

زباں رکھ غنچہ ساں اپنے دہن میں

میں بھی دنیا میں ہوں اک نالہ پریشاں یک جا

مثال سایہ محبت میں جال اپنا ہوں

بغیر دل کہ یہ قیمت ہے سارے عالم کی

پلکوں پہ تھے پارۂ جگر رات

خوبرو سب کی جان ہوتے ہیں

کہاں تک غیر جاسوسی کے لینے کو لگا آوے

کہیں پہنچو بھی مجھ بے پا و سر تک

نکلے ہے جنس حسن کسی کارواں میں

اگر راہ میں اس کی رکھا ہے گام

خط لکھ کے کوئی سادہ نہ اس کو ملول ہو

مت ہو مغرور اے کہ تجھ میں زور ہے

کس حسن سے کہوں میں اس کی خوش اختری کی

اس کے کوچے سے جو اٹھ اہل وفا جاتے ہیں

مجھ سوز بعد مرگ سے آگاہ کون ہے

دل پہنچا ہلاکی کو نپٹ کھینچ کسالا

تلوار غرق خوں ہے آنکھیں گلابیاں ہیں

کل چمن میں گل و سمن دیکھا

تری ابرو و تیغ تیز تو ہم دم ہیں یہ دونوں

دل کے تیں آتش ہجراں سے بچایا نہ گیا

تڑپنا بھی دیکھا نہ بسمل کا اپنے

خوبی کا اس کی بسکہ طلب گار ہو گیا

کب تلک جی رکے خفا ہووے

دل کے معمورے کی مت کر فکر فرصت چاہیے

حال دل میرؔ کا رو رو کے سب اے ماہ سنا

غمزے نے اس کے چوری میں دل کی ہنر کیا

ڈھونڈا نہ پائیے جو اس وقت میں سو زر ہے

خوش قداں جب سوار ہوتے ہیں

قیامت ہیں یہ چسپاں جامے والے

مستوجب ظلم و ستم و جور و جفا ہوں

خوش نہ آئی تمہاری چال ہمیں

کیا کہیے کہ خوباں نے اب ہم میں ہے کیا رکھا

دعوے کو یار آگے معیوب کر چکے ہیں

یہ ترک ہو کے خشن کج اگر کلاہ کریں

جب سے اس بے وفا نے بال رکھے

پشت پا ماری بسکہ دنیا پر

حصول کام کا دل خواہ یاں ہوا بھی ہے

نالے کا آج دل سے پھر لب تلک گزر ہے

گزرا بنائے چرخ سے نالہ پگاہ کا

ہیں بعد مرے مرگ کے آثار سے اب تک

کوئی ہوا نہ روکش ٹک میری چشم تر سے

موا میں سجدے میں پر نقش میرا بار رہا

بے روی و زلف یار ہے رونے سے کام یاں

کیا میں نے رو کر فشار گریباں

کیسا چمن اسیری میں کس کو ادھر خیال

تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا

بے کسانہ جی گرفتاری سے شیون میں رہا

دل پر خوں ہے یہاں تجھ کو گماں ہے شیشہ

خوب تھے وے دن کہ ہم تیرے گرفتاروں میں تھے

کھوویں ہیں نیند میری مصیبت بیانیاں

رہی نہ پختگی عالم میں دور خامی ہے

ہمیں آمد میرؔ کل بھا گئی

رہتا ہے ہڈیوں سے مری جو ہما لگا

نہ اک یعقوب رویا اس الم میں

لخت جگر تو اپنے یک لخت رو چکا تھا

رفتار و طور و طرز و روش کا یہ ڈھب ہے کیا

جاں گداز اتنی کہاں آواز عود و چنگ ہے

کل میرؔ نے کیا کیا کی مے کے لیے بیتابی

دل کی طرف کچھ آہ سے دل کا لگاؤ ہے

جنس گراں کو تجھ سے جو لوگ چاہتے ہیں

یار عجب طرح نگہ کر گیا

کلی کہتے ہیں اس کا سا دہن ہے

کیا طرح ہے آشنا گاہے گہے نا آشنا

جز جرم عشق کوئی بھی ثابت کیا گناہ

جو میں نہ ہوں تو کرو ترک ناز کرنے کو

نقش بیٹھے ہے کہاں خواہش آزادی کا

جب سے خط ہے سیاہ خال کی تھانگ

اب ضعف سے ڈھہتا ہے بیتابی شتابی کی

کیا بلبل اسیر ہے بے بال و پر کہ ہم

قابو خزاں سے ضعف کا گلشن میں بن گیا

دست و پا مارے وقت بسمل تک

سیر کر عندلیب کا احوال

غیر نے ہم کو ذبح کیا نے طاقت ہے نے یارا ہے

فکر ہے ماہ کے جو شہر بدر کرنے کی

کب سے نظر لگی تھی دروازۂ حرم سے

گئی چھاؤں اس تیغ کی سر سے جب کی

طاقت نہیں ہے دل میں نے جی بجا رہا ہے

ہو عاجز کہ جسم اس قدر زور سے

ایک پرواز کو بھی رخصت صیاد نہیں

قرار دل کا یہ کاہے کو ڈھنگ تھا آگے

یہ چشم آئینہ دار رو تھی کسو کی

میں نے جو بے کسانہ مجلس میں جان کھوئی

کہنا ترے منہ پر تو نپٹ بے ادبی ہے

طاقت نہیں ہے جی میں نے اب جگر رہا ہے

کرتے ہی نہیں ترک بتاں طور جفا کا

کیا دن تھے وے کہ یاں بھی دل آرمیدہ تھا

نئی طرزوں سے میخانے میں رنگ مے جھلکتا تھا

خط سے وہ زور صفائے حسن اب کم ہو گیا

کثرت داغ سے دل رشک گلستاں نہ ہوا

شب تھا نالاں عزیز کوئی تھا

گر کچھ ہو درد آئینہ یوں چرخ زشت میں

دامان کوہ میں جو میں ڈاڑھ مار رویا

خرابی کچھ نہ پوچھو ملکت دل کی عمارت کی

نقاش دیکھ تو میں کیا نقش یار کھینچا

کر نالہ کشی کب تئیں اوقات گزاریں

بو کہ ہو سوئے باغ نکلے ہے

خنجر بکف وہ جب سے سفاک ہو گیا ہے

یاد ایام کہ یاں ترک شکیبائی تھا

ہر جزر و مد سے دست و بغل اٹھتے ہیں خروش

جہاں اب خار زاریں ہو گئی ہیں

یاں سرکشاں جو صاحب تاج و لوا ہوئے

جدا جو پہلو سے وہ دلبر یگانہ ہوا

شش جہت سے اس میں ظالم بوئے خوں کی راہ ہے

ستم سے گو یہ ترے کشتۂ وفا نہ رہا

سینہ ہے چاک جگر پارہ ہے دل سب خوں ہے

ہجراں کی کوفت کھینچے بے دم سے ہو چلے ہیں

Pakistanify News Subscription

X