بشیر بدر

1935
بھوپال, انڈیا
معروف جدید شاعر، سادہ و سلیس زبان میں شعر کہنے کے لئے مشہور ہیں
آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا

اگر تلاش کروں کوئی مل ہی جائے گا

یوں ہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر میں رہا کرو

سر سے پا تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے

ہمارا دل سویرے کا سنہرا جام ہو جائے

محبتوں میں دکھاوے کی دوستی نہ ملا

لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں

سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا

ابھی اس طرف نہ نگاہ کر میں غزل کی پلکیں سنوار لوں

اگر یقیں نہیں آتا تو آزمائے مجھے

کہاں آنسوؤں کی یہ سوغات ہوگی

ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے

نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی

خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے

کہیں چاند راہوں میں کھو گیا کہیں چاندنی بھی بھٹک گئی

پرکھنا مت پرکھنے میں کوئی اپنا نہیں رہتا

اچھا تمہارے شہر کا دستور ہو گیا

کبھی یوں بھی آ مری آنکھ میں کہ مری نظر کو خبر نہ ہو

مجھ سے بچھڑ کے خوش رہتے ہو

دعا کرو کہ یہ پودا سدا ہرا ہی لگے

وہ چاندنی کا بدن خوشبوؤں کا سایا ہے

بھیگی ہوئی آنکھوں کا یہ منظر نہ ملے گا

ہے عجیب شہر کی زندگی نہ سفر رہا نہ قیام ہے

وہ غزل والوں کا اسلوب سمجھتے ہوں گے

سنوار نوک پلک ابرووں میں خم کر دے

وہی تاج ہے وہی تخت ہے وہی زہر ہے وہی جام ہے

مرے دل کی راکھ کرید مت اسے مسکرا کے ہوا نہ دے

مسافر کے رستے بدلتے رہے

سوچا نہیں اچھا برا دیکھا سنا کچھ بھی نہیں

وہ اپنے گھر چلا گیا افسوس مت کرو

کبھی تو شام ڈھلے اپنے گھر گئے ہوتے

میری آنکھوں میں ترے پیار کا آنسو آئے

میں کب تنہا ہوا تھا یاد ہوگا

غزلوں کا ہنر اپنی آنکھوں کو سکھائیں گے

گھر سے نکلے اگر ہم بہک جائیں گے

اداسی آسماں ہے دل مرا کتنا اکیلا ہے

سر راہ کچھ بھی کہا نہیں کبھی اس کے گھر میں گیا نہیں

کسی کی یاد میں پلکیں ذرا بھگو لیتے

آہن میں ڈھلتی جائے گی اکیسویں صدی

جب رات کی تنہائی دل بن کے دھڑکتی ہے

کوئی پھول دھوپ کی پتیوں میں ہرے ربن سے بندھا ہوا

یہ چراغ بے نظر ہے یہ ستارہ بے زباں ہے

اداس رات ہے کوئی تو خواب دے جاؤ

ریت بھری ہے ان آنکھوں میں آنسو سے تم دھو لینا

سو خلوص باتوں میں سب کرم خیالوں میں

خوشبو کی طرح آیا وہ تیز ہواؤں میں

اب کسے چاہیں کسے ڈھونڈا کریں

بڑے تاجروں کی ستائی ہوئی

مری زندگی بھی مری نہیں یہ ہزار خانوں میں بٹ گئی

اداس آنکھوں سے آنسو نہیں نکلتے ہیں

اب تو انگاروں کے لب چوم کے سو جائیں گے

کون آیا راستے آئینہ خانے ہو گئے

ہمارے پاس تو آؤ بڑا اندھیرا ہے

شبنم کے آنسو پھول پر یہ تو وہی قصہ ہوا

پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے

نظر سے گفتگو خاموش لب تمہاری طرح

میں تم کو بھول بھی سکتا ہوں اس جہاں کے لئے

چمک رہی ہے پروں میں اڑان کی خوشبو

عظمتیں سب تری خدائی کی

مری غزل کی طرح اس کی بھی حکومت ہے

مان موسم کا کہا چھائی گھٹا جام اٹھا

جب تک نگار دشت کا سینہ دکھا نہ تھا

خاندانی رشتوں میں اکثر رقابت ہے بہت

دل میں اک تصویر چھپی تھی آن بسی ہے آنکھوں میں

میرے سینے پر وہ سر رکھے ہوئے سوتا رہا

پھول برسے کہیں شبنم کہیں گوہر برسے

چائے کی پیالی میں نیلی ٹیبلٹ گھولی

یہ زرد پتوں کی بارش مرا زوال نہیں

جب سحر چپ ہو ہنسا لو ہم کو

سوئے کہاں تھے آنکھوں نے تکیے بھگوئے تھے

کوئی لشکر کہ دھڑکتے ہوئے غم آتے ہیں

فلک سے چاند ستاروں سے جام لینا ہے

صبح کا جھرنا ہمیشہ ہنسنے والی عورتیں

سنسان راستوں سے سواری نہ آئے گی

پیار کی نئی دستک دل پہ پھر سنائی دی

خون پتوں پہ جما ہو جیسے

تاروں بھری پلکوں کی برسائی ہوئی غزلیں

بے تحاشا سی لاابالی ہنسی

شام آنکھوں میں آنکھ پانی میں

مری نظر میں خاک تیرے آئنے پہ گرد ہے

ہنسی معصوم سی بچوں کی کاپی میں عبارت سی

مری زباں پہ نئے ذائقوں کے پھل لکھ دے

شعلۂ گل گلاب شعلہ کیا

اک پری کے ساتھ موجوں پر ٹہلتا رات کو

ذروں میں کنمناتی ہوئی کائنات ہوں

پہلا سا وہ زور نہیں ہے میرے دکھ کی صداؤں میں

پچھلی رات کی نرم چاندنی شبنم کی خنکی سے رچا ہے

وہ صورت گرد غم میں چھپ گئی ہو

مرے ساتھ تم بھی دعا کرو یوں کسی کے حق میں برا نہ ہو

سسکتے آب میں کس کی صدا ہے

کوئی کانٹا چبھا نہیں ہوتا

بھول شاید بہت بڑی کر لی

یوںہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر میں رہا کرو

مسافر کے رستے بدلتے رہے

خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے

کبھی یوں ملیں کوئی مصلحت کوئی خوف دل میں ذرا نہ ہو

پریشاں ہو تم بھی پریشان ہیں ہم بھی

اسی لیے تو یہاں اب بھی اجنبی ہوں میں

ساتھ چلتے جا رہے ہیں پاس آ سکتے نہیں

خود اپنے آپ سے شرمندگی سی ہوتی ہے

خوش رہے یا بہت اداس رہے

یہ کسک دل کی دل میں چبھی رہ گئی

راہوں میں کون آیا گیا کچھ پتہ نہیں

وہ اپنے گھر چلا گیا افسوس مت کرو

شعر میرے کہاں تھے کسی کے لیے

بے وفا راستے بدلتے ہیں

آنسوؤں کے ساتھ سب کچھ بہہ گیا

آس ہوگی نہ آسرا ہوگا

میں نے تری آنکھوں میں پڑھا اللہ ہی اللہ

آندھیوں کے ساتھ کیا منظر سہانے آئے ہیں

محبت سے عنایت سے وفا سے چوٹ لگتی ہے

اداسی کا یہ پتھر آنسوؤں سے نم نہیں ہوتا

ابھی اس طرف نہ نگاہ کر میں غزل کی پلکیں سنوار لوں

تم ابھی شہر میں کیا نئے آئے ہو (ردیف .. ر)

وہ مہکتی پلکوں کی اوٹ سے کوئی تارا چمکا تھا رات میں

آس ہوگی نہ آسرا ہوگا

کچھ تو پاس بچا کر رکھو سب کچھ کاروبار نہ جانو

جہاں پیڑ پر چار دانے لگے

گلابوں کی طرح دل اپنا شبنم میں بھگوتے ہیں

یہ چراغ بے نظر ہے یہ ستارہ بے زباں ہے

اندھیرے راستوں میں یوں تری آنکھیں چمکتی ہیں

پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے

تھک ہار کے کوئی تری راہوں میں سو گیا

اک چاند ہے کھویا کھویا سا سونی چھت پر تنہا تنہا

سبھی سے ان دنوں روٹھا ہوا سا لگتا ہوں

تلوار سے کاٹا ہے پھولوں بھری ڈالوں کو

خواب ان آنکھوں سے اب کوئی چرا کر لے جائے

راتوں کے مسافر ہو اندھیروں میں رہو گے

گھر سے نکلے اگر ہم بہک جائیں گے

ہر بات میں مہکے ہوئے جذبات کی خوشبو

اب دلوں کے علاوہ پڑھنا کیا

خواب کی وادیوں سے نکلتا ہوا

میکدہ رات غم کا گھر نکلا

یہاں سورج ہنسیں گے آنسوؤں کو کون دیکھے گا

اس طرح دنیا ملی شکوہ گلہ جاتا رہا (ردیف .. ن)

ان کو آئینہ بنایا دھوپ کا چہرہ مجھے

میری آنکھوں میں غم کی نشانی نہیں

دوسروں کو ہماری سزائیں نہ دے

آنسوؤں کی جہاں پائمالی رہی

بڑے تاجروں کی ستائی ہوئی

فقیر آئنہ ہے پردۂ خیال نہیں

اداسی کے چہرے پڑھا مت کرو

میرا اس سے وعدہ تھا گھر رہنے کا

سر پہ سایہ سا دست دعا یاد ہے

سب کچھ خاک ہوا ہے لیکن چہرہ کیا نورانی ہے

ہم کو بے کار لئے پھرتے ہو بازاروں میں

اس طرح ساتھ نبھنا ہے دشوار سا

جاتے ہو تو لے جاؤ یادیں بھی مرے دل سے

اس کی چاہت کی چاندنی ہوگی

سورج چندا جیسی جوڑی ہم دونوں

فن اگر روح و دل کی ریاضت نہ ہو

شام کے پیڑ کی سرمئی شاخ پر پتیوں میں چھپا کوئی جگنو بھی ہے

چاند ہاتھ میں بھر کر جگنوؤں کے سر کاٹو اور آگ پر رکھ دو

سنہرے سنہرے پروں والے بادل (ردیف .. ے)

سویرے ستاروں کی شبنم کہاں

ریشم کی چادر اوڑھی پگڑی باندھی

موم کی زندگی گھلا کرنا

سرمہ مسی کنگھی چوٹی بھولی ہے

بڑے تاجروں کی ستائی ہوئی

وہ درودوں کے سلاموں کے نگر یاد آئے

وہ شاید دلوں کو دھڑکنے نہ دیں گے

دل پہ چھایا رہا امس کی طرح

اک دن یہ دھرتی نیلا امبر ہوتی

اپنی کھوئی ہوئی جنتیں پا گئے زیست کے راستے بھولتے بھولتے

مجھ کو براہ راست کوئی تجربہ نہیں

ایک سواری آئے گی اک جائے گی

مسکراتی ہوئی دھنک ہے وہی

چرواہا بھیڑوں کو لے کر گھر گھر آیا رات ہوئی

اک شہر تھا خراب جہاں کوئی بھی نہ تھا

کس نے مجھ کو صدا دی بتا کون ہے

خاک جب خاکسار لگتی ہے

دکھلا کے یہی منظر بادل چلا جاتا ہے

یوں دل کو گدگدایا ہر غم جگا دیا ہے

تمام آگ ہے دل راہ خار و خس کی نہیں

پتوں کا دکھ کھوج رہے ہو اڑنے والے پنچھی میں

اسے فن نہیں پردۂ فن کہو

پاس سے دیکھو جگنو آنسو دور سے دیکھو تارا آنسو

اس کی آنکھوں سا اس کے گیسو سا

ہمارے بھی ہیں لوگ ایوان میں

کہرے جیسی چادر اوڑھے بوڑھا اپنی کھڑکی سے

ہمارے بھی ہیں لوگ ایوان میں

مسکراتی ہوئی دھنک ہے وہی

سیاہیوں کے بنے حرف حرف دھوتے ہیں

ناریل کے درختوں کی پاگل ہوا کھل گئے بادباں لوٹ جا لوٹ جا

بہت ہیں شہر میں شاعر فسانہ گو فنکار

Pakistanify News Subscription

X